Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Hazrat Umar Dunya Ka Jaleel Ul Qadr Hukumran

Hazrat Umar Dunya Ka Jaleel Ul Qadr Hukumran

حضرت عمرؓ دنیا کا جلیل القدر حکمران

تاریخِ عالم نے بے شمار جرنیل پیدا کیے، مگر سیدنا عمر فاروقؓ کا مقام ان سب سے منفرد ہے۔ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ فرماتے ہیں کہ "عمرؓ مرادِ رسولﷺ ہیں۔ عمرؓ پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے عطائے خداوندی ہیں"۔ دنیا کے کئی مستشرقین و مفکرین بھی حضرت عمرؓ کی عظمت کے معترف ہیں۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ مکہ کے چند پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے۔ اسلام کی ابتدا میں مسلمان سخت ظلم کا شکار تھے، عبادات بھی چھپ کر ہوتی تھیں۔ اس وقت مسلمان صرف 39 تھے۔ انہی دنوں نبی کریم ﷺ نے دعا کی: "اے اللہ! ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جسے تو چاہے، اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا"۔ (مسند احمد، حدیث 4579، مستدرک حاکم، حدیث 4490)

اللہ تعالیٰ نے یہ دعا حضرت عمرؓ کے حق میں قبول فرمائی۔ ایک دن حضرت عمرؓ ننگی تلوار لے کر نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے نکلے۔ راستے میں ایک صحابی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا، کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔ حضرت عمرؓ غصے میں بہن کے گھر پہنچے، وہاں سیدنا خباب بن ارتؓ قرآن سنا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بہنوئی کو مارا اور بہن کے چہرے پر بھی طمانچہ رسید کیا۔ جس سے خون بہنے لگا۔ بہن کا خون دیکھ کر ان کا غصہ کچھ کم ہوا۔ انہوں نے قرآن دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ وضو کے بعد جب سورہ طٰہٰ کی آیات پڑھیں، تو دل پسیج گیا۔ خبابؓ نے بتایا کہ کل نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی تھی۔

حضرت عمرؓ فوراً دار ارقم پہنچے، جہاں صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ کو حضرت عمرؓ کی آمد کی خبر دی۔ سیدنا حمزہؓ نے کہا: "اگر خیر کی نیت ہے تو خیر ہے، ورنہ تلوار سے نپٹ لیں گے"۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: "کیا وقت نہیں آیا، کہ تم اسلام قبول کرو؟" حضرت عمرؓ نے فوراً کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔

نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی: "یا اللہ! عمر کے سینے سے کینہ و میل نکال دے اور اسے ایمان سے بھر دے"۔ (مستدرک حاکم، حدیث 4490)

قبولِ اسلام کے وقت ان کی عمر 26 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں، کہ جبرائیلؑ نے خبر دی: "اہلِ آسمان حضرت عمرؓ کے اسلام لانے پر خوشیاں منا رہے ہیں"۔ (مستدرک حاکم، حدیث 4491)

حضرت عمرؓ نے فرمایا: "کیا ہم حق پر نہیں؟ پھر چھپ کر کیوں عبادت کریں؟" چنانچہ نبی کریم ﷺ نے دو قافلے بنائے، ایک کے آگے سیدنا حمزہؓ اور دوسرے کے آگے سیدنا عمرؓ اور مسلمانوں نے بیت اللہ میں کھلے عام نماز پڑھی۔ کفار دیکھ کر خاموش رہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے حق کو عمرؓ کی زبان اور دل پر جاری کیا، وہ فاروق ہیں، اللہ نے ان کے ذریعے حق و باطل میں فرق کیا"۔ (طبقات ابن سعد، جلد 3، ﷺ 270)

عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: "اللہ کی قسم! ہم کعبہ کے پاس کھلے عام نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، جب تک حضرت عمرؓ ایمان نہ لائے"۔

حضرت صہیبؓ کہتے ہیں: "جب حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے، تو اسلام کو غلبہ ملا اور ہم کھلے عام بیت اللہ میں بیٹھنے لگے"۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "شیطان عمرؓ کے راستے سے بھاگتا ہے"۔ (صحیح بخاری، حدیث 3683، صحیح مسلم، حدیث 2396)

"میں نے خواب میں دودھ پیا، پھر عمرؓ کو دے دیا، اس کی تعبیر علم ہے"۔ (صحیح بخاری، حدیث 82)

"میں نے خواب میں عمرؓ کو دیکھا کہ ان کی قمیص زمین تک پہنچ رہی ہے، اس کی تعبیر دین ہے"۔ (صحیح بخاری، حدیث 3488، صحیح مسلم، حدیث 2390)

"اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا"۔ (سنن ترمذی، حدیث 3686، حسن)

"پہلی امتوں میں محدَث ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمرؓ ہیں"۔ (صحیح بخاری، حدیث 3689، صحیح مسلم، حدیث 2398)

"اے میرے بھائی! عمرہ کرتے وقت اپنی دعاؤں میں مجھے نہ بھولنا"۔ (سنن ابی داود، حدیث 1535، حسن)

"اُحد پہاڑ لرزا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں"۔ (صحیح بخاری، حدیث 3675، صحیح مسلم، حدیث 2417)

سیدنا عمرؓ اکثر دعا کرتے تھے: "اے اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت نصیب فرما"۔ آخرکار ان کی دعا قبول ہوئی۔ 27 ذوالحجہ کو ابو لؤلؤ نامی مجوسی نے آپؓ کو فجر کے وقت خنجر سے حملہ کرکے زخمی کر دیا۔ یکم محرم کو آپؓ کی شہادت ہوئی۔

سیدنا صہیبؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضہ رسولﷺ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔

آپؓ کی پوری زندگی اسلام کے لیے عزت و شوکت اور عدل و انصاف کی علامت ہے۔ بلا شبہ آب دنیا کے ایسے قابل قدر حکمران تھے، کہ اب جیسا انسان قیامت کی صبح تک دوبارہ نہیں اسکتا۔ اللہ تعالی آپ کو آپ کی شایان شان جنت میں اعلٰی ترین منازل عطا فرمائے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan