Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Dr. Sultan Bin Muhammad Al Qasimi, Ilm Aur Amal Ka Azeem Sitara

Dr. Sultan Bin Muhammad Al Qasimi, Ilm Aur Amal Ka Azeem Sitara

ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی، علم اور عمل کا عظیم ستارہ

دو جولائی 1939ء کا سورج شارجہ کے افق پر ایک نئی کہانی رقم کرنے آیا۔ اُس روز شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی پیدا ہوئے، وہی شخصیت جو علم و دانش کی جستجو کے ساتھ پروان چڑھی اور آنے والے برسوں میں ایک ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئی، جنہوں نے عرب دنیا کو تعلیم اور تحقیق کی نئی سمت دی۔ آج جب وہ چھیاسی (86) برس کی عمر میں ہیں، تو بھی اُن کا عزم اور فکر اسی طرح جوان ہے جیسے جوانی کے دنوں میں تھی۔

ابتدائی تعلیم الاصلاح القاسمیہ اسکول سے حاصل کی، پھر دبئی، کویت اور مصر کے تعلیمی اداروں سے سفر کرتے ہوئے، 1971ء میں قاہرہ یونیورسٹی (Cairo University) سے زرعی انجینئرنگ (Agricultural Engineering) میں گریجویشن مکمل کیا۔ ان کی علمی جستجو یہاں ختم نہ ہوئی۔ 1985ء میں یونیورسٹی آف ایکزٹر (University of Exeter, UK) سے تاریخ (History) میں اور 1999ء میں ڈرہم یونیورسٹی (Durham University, UK) سے خلیجی سیاسی جغرافیہ (Political Geography of the Gulf) پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔

ان کے پاس اس وقت دو ڈاکٹریٹ ڈگریاں اور 19 سے زائد اعزازی ڈاکٹریٹ (Honorary Doctorates) ہیں، جو مختلف ممالک کی ممتاز جامعات نے انہیں ان کی علمی خدمات پر عطا کیں۔

قیادت سنبھالنے سے قبل وہ 1971ء میں متحدہ عرب امارات کے پہلے وزیر تعلیم بھی رہے۔ اس مختصر مگر اہم دورانیے میں انہوں نے واضح کر دیا، کہ ان کی ترجیحات میں تعلیم کو سب سے مقدم حیثیت حاصل ہے۔ حکمران بننے کے بعد بھی وہ خود کو صرف ایک سیاسی شخصیت نہیں، بلکہ ایک معلم، مؤرخ اور مصلح سمجھتے رہے۔

انہوں نے خلیجی تاریخ، عرب تہذیب، نوآبادیاتی اثرات اور ذاتی زندگی پر مبنی 25 سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ ان کے ایک منصوبے کے تحت 127 جلدوں پر مشتمل ایک تاریخی عربی لغت بھی زیرِ ترتیب ہے، جسے عربی زبان کا ایک عظیم علمی کارنامہ سمجھا جا رہا ہے۔

تعلیم کے فروغ میں ان کا کردار محض ادارے قائم کرنے تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ ان اداروں کی روح میں بھی شامل رہے۔ یونیورسٹی آف شارجہ اور امریکن یونیورسٹی آف شارجہ ان کی براہِ راست نگرانی اور ویژن کا نتیجہ ہیں۔ آج ان دونوں اداروں میں 12,000 سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن میں عرب دنیا کے علاوہ دنیا بھر سے طلبہ شامل ہیں۔

انہوں نے 40 سے زائد تحقیقی مراکز، کلاسیکی عربی ادب کے نادر مخطوطات کے محافظ ادارے اور مختلف تاریخی و ثقافتی عجائب گھر قائم کیے۔ ان تمام منصوبوں پر اب تک اربوں درہم خرچ کیے جا چکے ہیں۔

شیخ سلطان کے نزدیک تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں، بلکہ قوموں کی روحانی و فکری بنیاد ہے۔ اسی لیے وہ ہر تعلیمی منصوبے کو صرف ایک عمارت یا بجٹ سے نہیں، ناپتے بلکہ اس کے علمی اور تہذیبی اثرات کو اہمیت دیتے ہیں۔

ان کی شخصیت میں حکمران اور محقق کا جو حسین امتزاج ہے، وہ عرب دنیا میں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ صرف حکم جاری کرنے والے لیڈر نہیں، بلکہ تحقیق کرنے والے اسکالر بھی ہیں۔ وہ تعلیم کا صرف پرچار نہیں کرتے، بلکہ خود نصاب میں تبدیلیوں کی نگرانی کرتے ہیں، اساتذہ سے مکالمہ کرتے ہیں اور طلبہ کی فکری تربیت پر زور دیتے ہیں۔

ان خدمات کے اعتراف میں انہیں دنیا کی کئی جامعات، اکیڈمیوں، علمی و ادبی اداروں اور اقوامِ متحدہ جیسے پلیٹ فارمز سے 50 سے زائد بین الاقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں۔

یہ کالم اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر قیادت علم سے جُڑی ہو، تو قومیں صرف ترقی نہیں کرتیں، بلکہ تہذیب و تمدن میں بھی نمایاں مقام حاصل کرتی ہیں۔ شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے، کہ ایک حکمران صرف قانون کا محافظ نہیں، بلکہ قوم کا معلم، مصلح اور فکری رہنما بھی ہو سکتا ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan