Arab Ittehad Ka Tareekhi Lamha, 18 July 1971
عرب اتحاد کا تاریخی لمحہ، 18 جولائی 1971

18 جولائی کا دن خلیجی دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا سنگ میل ہے، جس نے نہ صرف جزیرہ نما عرب کے مستقبل کو یکسر بدل کر رکھ دیا، بلکہ اسلامی دنیا کو اتحاد، بصیرت اور تدبر کا ایک نیا سبق بھی دیا۔ یہ وہ دن ہے جب عرب دنیا کے سات خطے، جو صدیوں تک اپنی جداگانہ شناخت رکھتے تھے، متحد ہونے کے لیے ایک چھت تلے جمع ہوئے۔ ان ریاستوں کا یہ اتحاد محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں تھا بلکہ ایک عظیم فکری اور عملی تبدیلی کی تمہید تھی۔ بعد ازاں یہی کوشش ایک ایسے جدید، ترقی یافتہ، پُرامن اور عالمی سطح پر مؤثر ملک کے قیام کا پیش خیمہ بنی، جسے آج دنیا متحدہ عرب امارات (UAE) کے نام سے جانتی ہے۔
اس تاریخی دن کی قیادت شیخ زاید بن سلطان آل نہیانؒ جیسے صاحبِ فہم و فراست رہنما کے ہاتھ میں تھی، جنہوں نے اپنی دور اندیشی، تحمل مزاجی اور امتِ واحدہ کے خواب کو تعبیر دینے والی سوچ کے ساتھ عربوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ اس اجلاس کا انعقاد ابوظہبی میں ہوا جہاں چھ ریاستوں کے حکمرانوں نے شرکت کی: ابوظہبی، دبئی، شارجہ، ام القوین، فجیرہ اور عجمان۔ راس الخیمہ ابتدا میں اس اتحاد میں شامل نہیں ہوا، تاہم مستقبل قریب میں اس نے بھی اپنی حیثیت کو اتحاد کے تابع کر دیا۔
اس اجلاس کا اہم نکتہ ایک فیڈرل یونین (Federal Union) کے قیام پر اتفاق تھا۔ گو کہ یہ حتمی آئینی معاہدہ نہ تھا، لیکن اس پر دستخط نے ایک نئے عہد کی ابتدا کر دی۔ اتحاد کی اس بنیاد پر مہینوں غور و خوض، مشاورت، آئینی خاکہ سازی اور عملی تیاری کے بعد 2 دسمبر 1971 کو چھ ریاستوں نے رسمی طور پر اعلانِ اتحاد کیا۔ یہی دن آج "یومِ اتحاد" یا "قومی دن" کے طور پر نہایت عقیدت، فخر اور شکرکے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسی دن ایک ایسا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا، جو سالہا سال سے عرب ذہنوں میں پرورش پا رہا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے قیام کا یہ سفر محض سیاسی ہنر مندی کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے اخلاص، دینِ اسلام کے اجتماعی تصور اور عربی اخوت کا وہ جذبہ تھا جسے صدیوں کے بکھراؤ نے داغدار کر رکھا تھا۔ شیخ زاید بن سلطان آل نہیان نے نہ صرف متحدہ عرب امارات کی بنیاد رکھی بلکہ اسلامی ریاست کی وہ عملی تصویر پیش کی جو عدل، مشاورت، فلاحِ عامہ اور خدمتِ انسانیت کے اصولوں پر استوار تھی۔ ان کی قیادت کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انہوں نے صرف سیاسی قیادت ہی نہیں کی، بلکہ روحانی طور پر بھی قوم کو یکجا کیا۔ ان کے اقدامات میں اسلامی اخوت کی جھلک، خاندانی نظام کی حفاظت، تعلیم کی توسیع، صحت کے میدان میں انقلابی اقدامات اور خواتین کو باوقار مقام دینے جیسی صفات نمایاں تھیں۔
اتحاد کے اس سفر کی ایک اہم کڑی راس الخیمہ کی شمولیت تھی، جو 10 فروری 1972 کو باضابطہ طور پر اس فیڈریشن کا حصہ بنی، یوں سات ریاستوں پر مشتمل ایک مکمل متحدہ ریاست کا ظہور ہوا، جو آج ہر میدان میں اقوامِ عالم میں نمایاں مقام رکھتی ہے، خواہ وہ معیشت ہو، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، خارجہ پالیسی یا انسانی ترقی کا شعبہ۔
آج متحدہ عرب امارات کی ترقی کو دیکھ کر وہ ابتدائی لمحات یاد آتے ہیں، جب شیخ زایدؒ نے صحرا کی ریت پر کھڑے ہو کر مستقبل کی ایک ایسی عمارت کا تصور دیا تھا، جو محض بلند و بالا عمارتوں کا نام نہیں بلکہ سماجی توازن، بین المذاہب ہم آہنگی، عرب و عجم کی یکجائی اور دنیا کے ہر باسی کے لیے امن و وقار کی علامت بن جائے۔
یہی وہ وژن تھا جس کی بدولت آج دنیا بھر سے لوگ یو اے ای میں روزگار، امن، ترقی اور احترام کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں نہ صرف مسلمانوں کو دینی آزادی حاصل ہے، بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی ان کے عقائد کے مطابق جینے کا حق حاصل ہے، جس سے یو اے ای ایک حقیقی "عالمی ماڈل" کے طور پر ابھرا ہے۔
یہ اتحاد ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر قیادت خلوص سے ہو، نیت صاف ہو اور عوامی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی جائے، تو صحرا بھی نخلستان بن جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں مل کر ایک بڑی عالمی طاقت میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
شیخ زاید بن سلطان آل نہیان اور ان کے رفقاء کا یہ تاریخی کارنامہ نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے کہ اتحاد، مشورہ، تدبر اور جذبۂ ایثار وہ کنجیاں ہیں جن سے ہر زوال پذیر قوم اپنے عروج کا در کھول سکتی ہے۔

