Al Ain Museum Ki Kahani
العین نیشنل میوزیم (یو اے ای) کی کہانی

وہ سردیوں کی ایک شام تھی، سورج العین کے ریگستانی افق پر اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ایک بوڑھا بدو اپنے پوتے کا ہاتھ تھامے، قلعہ سلطان بن زاید کے پہلو سے گزرا۔ پوتے نے پوچھا: "دادا جان، یہ کیا جگہ ہے؟" بوڑھے کی آنکھوں میں ایک گہری چمک ابھری، وہ رکا، سر کو کاندھے سے لگایا اور کہا: "یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم نے اپنا ماضی دفن نہیں کیا، محفوظ کیا ہے"۔ وہ جگہ "العین نیشنل میوزیم" تھی۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر قومیں اپنی تاریخ کو صرف کتابوں میں دفن کر دیں تو وہ تاریخ زندہ کیسے رہتی ہے؟ نہیں رہتی! وہ کہانیاں بن جاتی ہے اور کہانیاں اکثر وقت کے گرد و غبار میں کھو جاتی ہیں۔ لیکن العین نیشنل میوزیم ایک ایسی جگہ ہے جہاں کہانیاں زندہ ہیں، سانس لیتی ہیں اور ہر اینٹ، ہر شیشے کے پیچھے رکھی چیز، ایک صدی پرانی آواز میں کچھ کہتی ہے۔ یہ میوزیم ایک گمشدہ وقت کی محفوظ یادگار ہے۔
1969 کی بات ہے، جب شیخ زاید بن سلطان آل نہیان نے اس عمارت کی بنیاد رکھی۔ ان کا خواب تھا کہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر ایک ایسی جگہ ہو جہاں آنے والی نسلیں اپنے آبا و اجداد سے مل سکیں، ان کی زندگی دیکھ سکیں، ان کے ہنر، ان کی ثقافت، ان کی عزت اور ان کے جذبوں کو چھو سکیں۔ 2 نومبر 1971 کو، یعنی امارات کی تشکیل سے صرف ایک ماہ پہلے، اس میوزیم کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ گویا قوم کے بننے سے پہلے اس کی روح کو ایک گھر دے دیا گیا تھا۔
یہ صرف نوادرات کا ذخیرہ نہیں ہے، یہ وہ آئینہ ہے جس میں ایک قوم اپنا اصل چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ یہاں آپ کو تیسری ہزار قبل مسیح کے قبریں ملیں گی، "ہلی" کے مقام سے دریافت شدہ ظروف، برونز کے ہتھیار، موتیوں کی مالائیں اور وہ زیورات جو کسی زمانے میں کسی بیوہ کے دل کا سکون تھے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کن سے آئے ہیں اور کن کے وارث ہیں۔
جب آپ میوزیم کے دوسرے حصے میں قدم رکھتے ہیں، تو آپ کو بدوؤں کے خیمے ملتے ہیں، اونٹ کے کجاوے، کھجور کی بنی ہوئی رسیاں اور وہ مٹی کے برتن جن میں کبھی کسی ماں نے اپنے بچوں کے لیے دودھ گرم کیا ہوگا۔ یہاں پر موسیقی کے پرانے ساز رکھے گئے ہیں، ربابہ، دف اور طنبورہ۔ یہ ساز خاموش ہیں، لیکن ان کے اندر صدیوں کی موسیقی قید ہے، وہ نغمے جو کبھی خیمہ بستیوں میں ہوا کے ساتھ گونجتے تھے۔
میوزیم کا ایک گوشہ ایسا بھی ہے جہاں پر پرانے اخبارات کی کٹنگز، اتحاد کے ابتدائی لمحوں کی تصویریں اور شیخ زاید کے نایاب لمحات محفوظ کیے گئے ہیں۔ گویا آپ وقت کی دیواروں کو ہاتھ لگا سکتے ہیں، ان سے بات کر سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ اس قوم نے کس مٹی سے ترقی کی اینٹیں تراشی ہیں۔
یہ سب کچھ العین کے دل میں ہے، واحة العین کے قریب، جہاں قدرتی چشمے بہتے ہیں اور تاریخ کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا۔ یہ میوزیم ان ماں باپ کے لیے ایک سبق ہے جو بچوں کو موبائل تھما کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ ان نوجوانوں کے لیے ایک جھنجھوڑنے والی صدا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ترقی صرف بلند عمارتوں، مہنگی گاڑیوں اور ایئر کنڈیشنر کے کمرے میں بیٹھنے کا نام ہے۔ نہیں! ترقی وہ ہے جو ماضی سے جُڑی ہو، جو جڑوں سے پانی کھینچ کر اوپر بلند ہو۔
کیا یہ سب جاننے کے بعد بھی آپ کہیں گے کہ یہ صرف میوزیم ہے؟ نہیں جناب، یہ میوزیم نہیں، ایک قبیلے کی غیرت ہے، ایک شیخ کا خواب ہے، ایک قوم کا آئینہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی درسگاہ ہے جو الفاظ سے نہیں، اشیاء سے سبق دیتی ہے۔
العین نیشنل میوزیم کو اگر آپ نے نہیں دیکھا تو سمجھیں آپ نے امارات کا دل نہیں دیکھا۔ کیونکہ یہ دل ہے، دھڑکتا ہوا، بولتا ہوا اور ہمیں یاد دلاتا ہوا کہ جہاں سے ہم آئے ہیں، وہیں سے ہمیں اپنی اصل ملتی ہے۔

