Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Al Ain Ka Roohani Aur Tareekhi Safar

Al Ain Ka Roohani Aur Tareekhi Safar

العین کا روحانی اور تاریخی سفر

العین ایک ایسا شہر ہے، جو پرانے ثقافتی خزانے سے مالا مال ہے۔ اس کی زمین پر تاریخ کے گہرے نقوش نمایاں ہیں اور ماضی کی یادیں ہر گوشے میں بسی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، یہ شہر تاریخ کی گواہی دیتا ہے اور قدیم تہذیبوں کے بے شمار آثار اس کی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔

یہ شہر جو متحدہ عرب امارات کا دوسرا سب سے بڑا حصہ ہے، مجھے اپنی گہرائیوں میں چھپے راز سنانے کو بےتاب لگ رہا تھا۔ سچ کہوں تو، میں نے اس شہر کے کئی اسفار صرف جغرافیائی مقام دیکھنے کے لئے نہیں کیے بلکہ اس کی روح کو سمجھنے کے لئے تھے۔

العین کا رقبہ تقریباً 15,123 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی قریباً 988,000 ہے۔ یہ اعداد و شمار شاید کسی کے لئے صرف اعداد ہوں، لیکن میرے لئے یہ لوگ، یہ محنت کش، یہ نوجوان، ایک زندہ دل شہر کی نشانی ہیں جو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

جب میں پہلی بار العین پہنچا، تو سب سے پہلے میری نظر اس کے سرحدی علاقوں پر پڑی۔ وادی الہب (Wadi Al Hab) اور الریوان (Al Rawiyan) کے بارڈرز ایک خاص شان رکھتے ہیں۔ وہاں سے عمان کی سرزمین چند کلومیٹر کی مسافت پر تھی اور یہ تاریخی تعلقات اور ثقافتوں کے حسین امتزاج کی کہانی سناتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سرحدیں نہ صرف دو ملکوں کو جدا کرتی ہیں، بلکہ ایک پل کی مانند ہیں، جو ثقافت، تجارت اور تعلقات کو جوڑتی ہیں۔

میرے قدم جب قصر المویجی (Qasr Al Muwaiji) کی طرف بڑھے، تو میں نے سوچا کہ یہاں کی دیواروں نے متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زاید بن سلطان النہیان کی بچپن کی کہانیاں سنیں ہوں گی۔ قلعے کی مضبوط دیواریں اور وسیع صحن مجھے گزرتے ہوئے وقت کی سحر انگیز فضا میں لے گئے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں خواب سجائے گئے، جہاں مستقبل کی بنیادیں رکھی گئیں۔

شیخ زید کی دور اندیشی نے العین کو ایک ایسا شہر بنایا، جو قدرت، تاریخ اور ترقی کو یکجا کرتا ہے۔ اس کی کشادہ سڑکیں، ٹریفک سے پاک علاقے اور وسیع پارکنگ کی سہولیات نے مجھے محسوس پوا، کہ یہاں زندگی کتنی پرسکون اور باوقار ہے۔ اس کے علاوہ، زرعی کھیت اور مزارع کی موجودگی نے بتایا، کہ یہاں کی زمین اپنی زرخیزی اور حیاتیاتی اہمیت کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔

اس شہر کا سب سے حسین منظر العین اویسس (Al Ain Oasis) ہے، جب میں وہاں گھوم رہا تھا، تو ہزاروں سال پرانے فلج نظام (Falaj Irrigation System) نے مجھے حیران کر دیا۔ دو لاکھ سے زائد کھجور کے درختوں کی چھاؤں میں چلتے ہوئے ایسا لگا، جیسے وقت نے خود کو روک رکھا ہو اور میں تاریخ کی ایک زنجیر کا حصہ بن چکا ہوں۔

جب میں جبل حفیت (Jebel Hafeet) کی چوٹی پر پہنچا، تو وہاں سے نیچے بکھری ہوئی زمین، عمان کی سرحد اور دور دراز کے ریگستان کے حسین مناظر ایک خواب کی مانند تھے۔ پہاڑ کی ٹھنڈی ہوا میرے چہرے کو چھو رہی تھی اور میں اپنی سانسوں میں قدرت کی تازگی کو محسوس کر رہا تھا۔

العین زو (Al Ain Zoo) کی سیر نے بھی میرے دل کو خوشی دی۔ بچوں کی ہنسی، جانوروں کی آزادی اور ماحول کی صفائی نے مجھے بتایا، کہ یہ چڑیا گھر محض تفریح کا مرکز نہیں، بلکہ ایک محفوظ گھر ہے۔ میں نے وہاں کے پرندوں اور جنگلی حیات کو دیکھا، تو زندگی کی رنگینی اور بہار کا احساس ہوا۔

ہیلی آرکیالوجیکل پارک (Hili Archaeological Park) اور قلعہ بدع بنت سعود (Bidaa Bint Saud Fort) نے مجھے تاریخ کی گہرائیوں میں لے جا کر انسان کی ابتدائی زندگی کی جھلک دکھائی۔ ہزاروں سال پرانے مٹی کے برتن اور قبریں میرے دل میں سوالات اور حیرت پیدا کر گئیں۔

سوق العین (Al Ain Souq) کی گلیوں میں گھومنا ایک خواب جیسا تھا۔ ہاتھ کے بنے قالین، خوشبو دار مصالحے، چمکتے فانوس اور مقامی کھانے میرے ذائقے کو جِلا بخش رہے تھے۔ میں نے عربی قہوہ اور لقیمات کا ذائقہ چکھا اور محسوس کیا کہ یہاں کی ثقافت جتنی قدیم ہے، اتنی ہی زندہ بھی۔

العین کے موجودہ انتظامی نظام کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا، کہ شیخ ہزاع بن زاید النہیان اس کے حاکم کے نمائندے ہیں اور راشد مسابہ المانیع بلدیاتی امور کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی محنت نے اس شہر کو نہ صرف تاریخی ورثے کا محافظ بنایا ہے، بلکہ جدیدیت کا بھی شاہکار بنایا ہے۔

جب میں مغرب سے قبل قلعہ المویجی کے قریب کھجوروں کے جھنڈ کے نیچے کھڑا تھا، تو مجھے لگا جیسے یہ زمین اپنی تمام کہانیاں میرے دل سے کہہ رہی ہو۔ العین میرے لیے ایک شہر نہیں، ایک داستان ہے، ایک ایسی داستان جو ہر آنکھ کے لئے سکون، ہر دل کے لیے امن اور ہر روح کے لیے روشنی ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan