Power Of Indifference
پاور آف انڈفرنس
مکمل پاور (absolute power) کو تصور کیجیے چند سیکنڈ کے لیے، کیا آتا ہے ذہن میں؟ طاقت کا اچھا استعمال یا برا؟ بہت ممکن ہے کہ ذہن میں عیاشی اور طاقت کا بے دریغ استعمال آیا ہوگا(بہت ممکن ہے نہ بھی آیا ہو)۔ آپ کی غلطی نہیں، پاور نشہ ہی ایسا ہے، کئی حکمران اس نشے کی زیادتی (overdose) یا اسے ہینڈل نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کو اوراپنی سلطنت کو کافی نقصان دے گئے۔ آپ اور میں تو تصور بھی نہ کرسکیں کبھی کہ کس قدر خطرناک نشہ ہے مکمل پاور کا حصول!
روم کے بادشاہ مارکس اوریلس (Marcus Aurelius) کے پاس ایسی ہی پاور تھی۔ مکمل پاور (absolute power)، ایک ایسی آرمی کا سربراہ جس سے دنیا خوف کھاتی تھی۔ مارکس کے لیے کسی بھی عورت کو حاصل کرنا، بہترین الکوحل، صبح شام پارٹی کرنا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا، بلکل ویسا جیسے روم کے باقی اشرافیہ کرتے تھے۔ چونکہ مارکس جانتا تھا کہ اس کے لیے ان سب چیزوں کا حصول کوئی مشکل کام نہیں تبھی اس نے "مختلف" راستہ چنا۔ یقیناً "مختلف" ہونا آسان نہیں ہوتا اور وہ بھی ایک بادشاہ کے لیے جس کو صبح شام طاقت کا نشہ میسر ہو، اور اسکا ثبوت مارکس کے لکھے جرنلز "میڈیٹیشنز" (meditations) ہیں، جس میں مارکس نے پاور کو ہینڈل کرنے اور اپنے بادشاہ کے "کردار" کو نبھانے میں آنے والی مشکلات اور اکثر پریشان کردینے والے "انسانی جذبات" کا ذکر کیا ہے۔ ایک اسٹائک (stoic) ہونے کے ناطے مارکس نے ان تمام للچاتی چیزوں کی طرف "عدم دلچسپی" (indifference) کا مظاہرہ کرنے کی پریکٹس کی جو کہ یقیناً آسان کام نہیں۔
ہم سب کے پاس اپنی ذاتی زندگی میں کسی نہ کسی حد تک پاور ہوتی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں۔ کیا ہم بنا سوچ بچار (reflect) کیے اپنی طاقت کا استعمال کرکے خود اپنی ذات اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں؟ یا ہم مارکس کی طرح خود کو ملنے والی پوزیشن کے اختیار سے ملنے والے پلیژر کی جانب "عدم دلچسپی" پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف اپنی ذات بلکہ دوسروں کو بھی سکون کا سانس لینے دیتے ہیں۔ اگر آپ "عدم دلچسپی" کے فلسفے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اسٹائیسزم (stoicism) کے پاس آپ کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے کچھ پریکٹس موجود ہیں جو کسی حد تک آپ کو اپنے جذبات کو سمجھنے اور طاقت/موجودہ ٹرینڈ کو خود پر حاوی نہ ہونے دینے میں اور آپ کے اندر "اندرونی سکون" (inner peace) کو برقرار رکھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں، آئیے ان پریکٹس پر نظرثانی کرتے ہیں۔
اسٹائک کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی دو قسم کے حالات پر مشتمل ہے، ایک وہ جو اس کے"کنٹرول میں ہوتے ہیں " اور دوسرے وہ جو اس کے "کنٹرول میں نہیں ہوتے"۔ جو ہمارے اختیار میں نہیں اس میں ہمارے دوست احباب اور ہمسفر کا رویہ، ملک کی اکانومی، خرافات اور جھوٹے وعدے جو سیاستدان کرتے ہیں، فیس بک پر ملنے والے لائک اور گالیاں اور وقت کے ساتھ ڈھلتے ہوئے ہمارے جسم، وغیرہ شامل ہیں۔
ہم لاکھ کوشش کرلیں کوئی نہ کوئی دوست اور احباب ہوگا جس کو ہم سے شکایات ہونگی، ہم خواہ اپنے ہمسفر پر اپنا سب کچھ قربان کردیں پھر بھی امکانات ہیں کہ وہ ہمیں دھوکہ دے دے، ملک کیاکانومی کبھی بھی گر سکتی ہے، سیاستدان اپنی بات سے کبھی بھی مکر سکتا ہے، انتہائی دھیان سے لکھنے پر بھی فیس بک پر لعن طعن سننے کو مل سکتا ہےاور لاکھ بچاؤ کے باوجود ہم موت کا ذائقہ چکھ سکتے ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ فطرت نے بلکل ہی کچھ ہمارے اختیار میں نہیں رکھا۔ اسٹائک فلاسفر ایپکٹیٹس (Epictetus) کہتے ہیں کہ ہمارے کنٹرول میں اگر کچھ ہے تو وہ ان معاملات اور حالات کی جانب ہمارا "ردِ عمل" (response)، ایپکٹیٹس کے مطابق ہمارا فوکس ان چیزوں پر ہو جو ہمارے اختیار میں ہیں تو اس سے اپنے جذبات کو ہینڈل کرنا آسان لگتا ہے بنسبت ان لوگوں اور حالات کو کنٹرول کرنے کے جن پر ہمارے اختیارات محدود یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مثال کے طور ہے اگر کوئی بیمار ہے تو اسکا اپنی بیماری پر تو کوئی کنٹرول نہیں البتہ اس بیماری کی جانب رسپانس کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ شخص خود کو ٹھیک کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات ضرور کرسکتا ہے لیکن ان اقدامات کے نتائج مکمل طور پر اس کے اختیار میں نہیں۔ اس لیے ایسے حالات جو تکلیف دہ ہیں انکی حقیقت کو تسلیم کرکے جو آپ کے اختیار میں ہے اس پر فوکس کرنا اسٹائک پریکٹس ہے۔
* "ہمیشہ اچھا ہی سوچا کرو" جیسے فلسفے پر اسٹائک عمل نہیں کرتے۔ مارکس اوریلس کی کتاب "میڈیٹیشنز" کی شروعات ہی ان الفاظ سے ہوتی ہے: "آج میں مداخلت، ناشکری، گستاخی، بے وفائی، بد نیتی اور خود غرضی سے ملاقات کروں گا - یہ سب خطاکاروں کی اچھی یا برائی سے ناواقفیت کی وجہ سے ہیں"۔
اسٹائک کی "منفی تصور" (negative visualisation) کی اس پریکٹس کو Praemeditatio Malorum کہتے ہیں، مارکس اپنے دن کی شروعات منفی تصور سے کرتا تھا۔ دنیا کی مثال ایک باکسنگ رِنگ کی سی ہے جہاں ہر انسان اپنے مخصوص اصولوں کے مطابق زندگی کا کھیل کھیلتا ہے، ناشکری، احسان فراموشی، مدد، خودغرضی سے آپ کا واسطہ پڑ سکتا ہے، آپ چِلا کر شور مچائیں گے کہ میرے ساتھ ناانصافی یا چیٹینگ ہورہی ہے لیکن لوگ کندھے اچکا کر آگے بڑھ جائیں گے۔
بہت ممکن ہے کہ گھر میں آپکا ٹین ایجر بچہ آپ کے حکم کی نافرمانی کرے، آپ کے ہمسفر آپ کے مزاج کو نہ سمجھتے ہوں، گھر کے معاملات آپ کی مرضی کے مطابق نہ ہوں، ایسی تمام تر صورتِ حال سے ہم سب کا واسطہ پڑتا ہے۔ اگر آپ بہت ہی "مثبت سوچ" کو خود پر حاوی کرنے والے انسان ہیں تو آپ کو نافرمان اولاد کی نافرمانی سے بہت زیادہ تکلیف پہنچے گی۔ معاملات کا، مثبت کی بجائے، حقیقی جائزہ لینا ہمیں جذبات کو منطق اور عقل کے ذریعے سمجھنے اور الگ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
دعائیں یہ نہیں ہونی چاہیے، خدا تمہیں مصیبتوں سے بچائے، بلکہ، مصیبتیں تو آئیں گی خدا تمہیں ان سے لڑنے کی ہمت عطا فرمائے۔ مصیبتوں سے بچنا فینٹسی ہے حقیقت نہیں۔ جذبات کو لوجک کے ذریعے سمجھنے سے ہم اندرونی سکون کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ میں مثبت سوچ سے سب حاصل کرسکتا ہوں اور پھر جب کچھ ایسا واقعہ ہو جہاں آپ کسی کی ناانصافی کا شکار ہوں تب جذبات کے توازن کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، جس سے ذہنی سکون شدید متاثر ہوسکتا ہے۔
* شاید آپ کو جان کر حیرت نہ ہو کہ ہم انسانوں کے لاشعور میں سب سے بڑا خوف "موت" کا ہوتا ہے۔ اسٹائک فلسفے میں اس خوف سے لڑنے کے لیے "میمنٹو موری" (momento mori) کو پریکٹس کیا جاتا ہے، جس کا مطلب نہ صرف موت کا سامنا کرنا ہے بلکہ خود کو دنیا کی بدلتی رت اور وقتی ہونے کا احساس دلانا ہے۔
جب بھی مارکس کی تعریف میں قصیدے پڑھے جاتے اور تالیوں کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی، ایسے میں مارکس کو اسکا غلام کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتا: "ان تالیوں اور واہ واہیوں سے خود کو بیوقوف نہ بننے دینا، یہ سب وقتی ہے، تم سے پہلے بھی کئی حکمرانوں کی واہ واہ ہوئی ہے جو آج زمین بوس ہیں اور تمہارے بعد آنے والوں کی بھی ہوں گی، تم فانی ہو"۔ مارکس جانتا تھا کہ طاقت اور تعریف کا نشہ سر چڑھتے دیر نہیں لگتی۔
اس احساس سے ہی ہماری روح کانپ جاتی ہے کہ ہمارے قریبی رشتے کبھی بھی ہم سے الگ ہوسکتے ہیں، ہماری ایک دوسرے سے بے پناہ اٹیچمنٹ ہماری اذیت (suffering) میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ تبھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا کہ ہم سے ہمارے اپنے بچھڑ سکتے ہیں آپ کو کسی حد تک تیار رکھے گا جب دکھ اور رنج سے سامنا ہوگا۔ اسٹائک میمنٹو موری کو "سست روی" (procrastination) کی عادت سے لڑنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، مارکس اوریلس اپنی میڈیٹیشنز میں خود سے مخاطب ہو کر خود کو سمجھاتا تھا کہ، تمہیں یہ پوزیشن اس لیے نہیں ملی کہ تم گرم غلاف میں خود کو لپیٹے سارا وقت گزارو، کائنات میں ہر شے اپنا کام وقت پر کررہی ہے تو پھر تم کیوں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے کترا رہے ہو۔
ہم سب زندگی کے کئی معاملات میں سست روی سے کام لیتے ہیں، مارکس کو بھی اس مسئلے کا سامنا تھا جسے وہ میمنٹو موری کو پریکٹس کرکے سر کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ اگر آج اسکا آخری دن ہے تو وہ کس طرح اپنے کام مکمل کرے گا۔ یا پھر جب سب وقتی ہے تو پھر ہم، لوگ کیا کہیں گے کی پرواہ کیوں کریں۔ یہ سب یقیناً کہنا آسان ہے اور کرنا بہت مشکل۔ لیکن اس پریکٹس سے اتنا ضرور ہوسکتا ہے کہ اگر کبھی ایسے واقعات ہمارے ساتھ ہوں (جو کہ یقیناً ہونگے) تو ہم ذہنی طور پر کسی حد تک تیار ہونگے۔
* خلانورد (astronaut) کرس ہیڈفلڈ کہتے ہیں کہ خلا میں جاکر زمین کو باہر سے دیکھنے کا تجربہ بہت عجیب ہے، آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ایک بہت بڑی اسکیم کا ایک چھوٹا اور بہت معمولی سا ذرہ ہیں، دور سے زمین کو دیکھنے کا یہ منظر آپ میں ایک عجیب سی "عاجزی" کو جنم دیتا ہے۔ کرس ہیڈفلڈ جس احساس کا ذکر کر رہے ہیں اسے اسٹائک "دور/اوپر سے جائزہ لینا" (view from the Above) کہتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کوکبھی اپنا آپ ضرورت سے زیادہ ضروری لگے یا اپنے معاملات ضرورت سے زیادہ سنجیدہ لگ رہے ہوں تو آپ اس میڈیٹیشن کا استعمال کرسکتے ہیں، اس کے لیے آپ کو خلا میں جانے کی ہر گز ضرورت نہیں، کیونکہ بقول سدھارت گوتم کے آپ کی کائنات آپ کے اندر ہی ہے، اس لیے آپ زمین پر رہ کر تصور کرتے ہوئے میڈیٹیٹ کرسکتے ہیں کہ کائنات کی رو سے آپ کے مسائل اور آپ کی اہمیت کی دراصل کوئی اہمیت نہیں۔ یہ سننے میں مایوس کن (pessimist) لگتا ہے لیکن یہ عقل کے متضاد (counterintuitive) پریکٹس ہے، آپ خود کو نظرانداز نہیں کررہے، دراصل جب دماغ ضرورت سے زیادہ کچھ معاملات کو سنجیدہ لینے لگ جائے تب اسے اس قسم کی پریکٹس سے نارمل یا کسی حد تک پرسکون بنایا جاسکتا ہے۔ جب جذبات اور ہیجان کے بعد دماغ نارمل کی جانب آئے گا تو ہی مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔
اسٹائیسزم (stoicism) میں ایسی کئی مختلف مشق (practices) ہیں جو جدید انسان (modern man) کو اپنے جذبات کو اعتدال میں کرنے کا ہنر سیکھنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ بیشک ان تمام مشقوں کی بھی حدود ہیں، اور یہ سب دو دن میں پریکٹس نہیں ہوسکتا، اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور "مختلف" نظر آنے کی "ہمت" بھی۔ مختلف بننا آسان ہرگز نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ، آج کل اسی کا ٹرینڈ ہے یہی کرو کو فالو کرتے ہیں، بقول بیالوجسٹ کے ہم انسان چونکہ ایک دوسرے کی نقل کرنے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں تبھی ہمارے لیے مختلف دکھنا اور ان چیزوں میں "عدم دلچسپی" دکھانا جن میں پوری دنیا ڈوبی ہوئی ہے، کٹھن عمل ہے۔ لیکن آج روم کے کئی بادشاہوں میں "مارکس اوریلس" کا نام یاد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ "مختلف" تھا۔