Letting Go (1)
لٹنگ گو (1)
ممیلین برین (جسے ایموشنل برین بھی کہتے ہیں)انسانی دماغ کا وہ حصہ ہے جو منطق اور منشا والے برین سے پرانا ہے، بقول سائنسدانوں کے منطق والے حصے (جسے نیو کور ٹیکس کہتے ہیں)کو وجود میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ہمارا اوائلی دماغ بہت پرانا ہے اور یہی وجہ کہ اگر کوئی رسی نما چیز آپ کو چھو کر گزرے تو پہلے آپ خوف سے چھلانگ لگا کر دور بھاگتے ہیں اور پھر دور جانے پر سوچتے اور غور کرتے ہیں کہ جو ٹکرایا وہ رسی تھی یا سانپ۔ جو جتنا پرانا اور تجربہ کار ہو وہ اتنا ہی حاوی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے جذبات ہماری سوچ اور فیصلوں پر اکثر حاوی رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں سمجھنا اور ان سے نمٹنا نہایت ہی اہم ہے۔
ہم سب نے بچپن سے جذبات سے نمٹنے کے تین طریقے سیکھے ہیں:
1- باز رکھنا (repression)۔ اس میں آپ لاشعوری طور پر اپنے جذبات کو دباتے یا ان سے انکار کرتے ہیں۔
* دبانا (suppression)۔ جس میں آپ شعوری طور پر اپنے جذبات کو دباتے ہیں۔
* دوسروں پر اپنے جذبات کی عکاسی کرنا (projection)۔ جیسا کہ، شیڈو، جس میں ہم اپنے اندر اٹھنے والے ناپسندیدہ جذبات کو دوسروں پر ڈالتے ہیں اور ان سے نفرت کراہت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ بھی لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ آج کل ہر جگہ یہی طریقہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، ہم اپنی سوچ اپنے جذبات دوسروں پر ڈالتے ہیں اور پھر انکو لعن طعن کرتے ہیں۔
2- اظہار کرنا (expression)۔ سگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا کہ زیادہ تر نفسیاتی مسائل کی تہہ میں ہمارے دبے ہوئے جذبات ہیں، اس لیے عموماً نے سمجھا کہ شاید جذبات کا اظہار بہتر رہے گا بنسبت دبانے کے۔ لیکن اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مجھے آپ کی کسی بات سے غصہ آیا اور میں اسی وقت آپ کی کلاس لینا شروع کردوں اور کہوں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہوں، تو ایسا اظہار آپ یقیناً برداشت نہیں کریں گے۔ رشتوں میں بھی اس قسم کا اظہار محض تلخیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ فرائیڈ کی اظہار سے مراد اسے اپنے کام، آرٹ، کریٹوٹی اور محبت کے ذریعے کرنے کی تھی، نہ کہ دوسروں پر اپنے جذبات کا رعب ڈالنے کی۔
3- تیسرا طریقہ جو کہ ہم سب کا سب سے پسندیدہ ہے اور وہ ہے "فرار" (escapism)، ہمارا سب سے بڑا فرار انٹرٹینمنٹ ہے (تبھی آپ سب کو میرا لکھا ہوا آرٹیکل بورنگ لگنا جائز ہے)، الکوحل، ڈرگز، دن میں خواب دیکھنا (day-dreaming)، پورن، سیکس، گھنٹوں فون پر سوشل میڈیا کی نظر کرنا، نیٹ فلکس، فلمیں دیکھنا، خریداری، جنک کھانا،۔۔ حتیٰ کہ پورا ایک آرٹیکل ہی ان چیزوں کے نام لکھنے میں ختم ہوجائے گا جن کی مدد سے ہم اپنے جذبات اور ان سے جنم لینے والی سوچوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ کبھی چھڑا نہیں پاتے!
دراصل کتاب اس چوتھے طریقے پر ہے جسے ڈاکٹر رچرڈ ہاکنس اپنی کتاب "لیٹنگ گو" (Letting Go) میں منظرِ عام پر لے کر آئے ہیں۔ نام سے ہی ظاہر ہے یہ طریقہ، دبے ہوئے یا، اظہار کیے جانے کی سطح پر کھڑے جذبات کو "جانے دینا" سکھاتا ہے۔ کاش میرے پاس الفاظ ہوتے بتانے کے لیے کہ ایموشنل صحت کس قدر معنی رکھتی ہے، کتنی ہی بیماریوں کو ہم صرف اس لیے دعوت دیتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا(اکثر جان کر)کہ ہم اپنی ساری زندگی منفی جذبات کے زیرِ اثر ہوکر گزار رہے ہوتے ہیں، لیکن ڈاکٹر رچرڈ کے پاس ہمیں سمجھانے کے لیے صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ انہوں نے ایموشنز کا ایک چارٹ بھی تشکیل دیا ہے جس میں انہوں نے ہر ایموشن کی انرجی اور اس انرجی کی ارتعاش (vibration) بھی بتائی ہے۔ اس، لیٹنگ گو والی تکنیک کو بعد میں زیرِ بحث لائیں گے لیکن پہلے میں اس چارٹ میں موجود ایموشنز اور انکی انرجی کو مختصراً بیان کرنا چاہوں گی، اس چارٹ میں دیکھیے گا پھر اندازہ لگائیے گا کہ آپ اس وقت کس انرجی اور اسکے ارتعاش کے زیرِ اثر ہیں۔ بہت مختصراً بیان کروں گی اور چارٹ کی تصویر بھی بنا کر شیئر کروں گی۔ یہ چارٹ ڈاکٹر رچرڈ نے ایک مسلز (muscles) کے ذریعے بنایا ہے جس کی وضاحت میں نہیں جاؤں گی لیکن چارٹ دیکھنے پر ہی آپ کو محسوس ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کا تجربہ غلط نہیں۔
ہم چارٹ میں موجود سب سے کم ارتعاش (vibration) والی انرجی (ایموشن) سے زیادہ ارتعاش والی انرجی (ایموشن) کی جانب آئیں گے:
1- شرم (shame): (20)
یہ سب سے کم ارتعاش والا ایموشن ہے، اس کے زیرِاثر ذہن بہت کم انرجی کا مالک ہوتا ہے۔ نہ صرف خود کی صحت کا دشمن بلکہ دوسروں کو بھی تکلیف میں رکھتا ہے اس ایموشن میں رہنے والا ذہن۔ یہ بہت گہرائی میں پلتا ہے، اسے سطح پر لانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ احساس بچپن میں والدین کے ابیوز سے بھی اکثر شخصیت میں پیوست ہوجاتا ہے۔ اکثر کوئی ایسا کام جو ہمیں معلوم ہو کہ ہماری ذہنی صحت کے لیے درست نہیں تو ہم اسے کرنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں جیسا کہ پورن دیکھنے کے بعد، پڑھائی کی جگہ سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بعد، جن سے ہمیں محبت ہو ان پر غصہ کرنے کے بعد۔ اور بھی ان گنت وجوہات ہوسکتی ہیں کہ کسی انسان کی انرجی اسی جگہ اٹک جاتی ہے۔
2-احساس جرم (Guilt): (30)
نام سے ظاہر ہے ایسا ذہن خود کو بھی مجرم اور دوسروں کو بھی سزا دینے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ یہی وہ انرجی لیول ہے جس پر انسان خود-تخریب کاری (self-sabotaging) رویوں کا شکار رہتا ہے۔ آپ اگر اس لیول پر رہتے ہیں تو خود کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ وہ لیول ہے جس میں اکثر لوگ کہتے ہیں "انہیں اس درد میں مزہ آتا ہے" "سب میرا/تمہارا قصور ہے میری تو قسمت ہی خراب ہے"، انہیں معلوم ہوتا ہے لاشعوری طور پر وہ خود کو تباہ کررہے ہیں۔ اس لیول پر خودکشی کے خیالات اکثر آتے ہیں۔ اس انرجی لیول کو ذہنی الجھنوں کی جڑ مانا جاتا ہے۔
3-لاتعلقی (Apathy): (50)
اس لیول پر بہت زیادہ ناامیدی ہوتی ہے۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں "کوئی فرق نہیں پڑتا"، " میں نہیں کرسکتا"، "سب فضول ہے"۔ اس لیول پر رہنے والے ذہن نہ خود کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے ارد گرد والوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے دیتے ہیں اور انکی ہمت بھی توڑتے رہتے ہیں۔
4-رنج (Grief): (75)
"کاش میں ایسا کرسکتا"،۔ "میں آج تک نہیں بھولا"، "میں نے سب کھو دیا"، اس لیول پر ڈپریشن ہوتا ہے، کھونے کا رنج۔ اکثر نوسٹالجیا(ماضی کی محبت) اسی لیول پر رہنے والوں کو زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نوامیدی کی صورتِحال ہے۔ بےیارو مددگار، لاچار اور ماتم۔
5-خوف (fear): (100)
اس لیول پر بس خوف نظر آتا ہے جو یقیناً ہر جگہ موجود ہے، اس لیول پر رہنے والوں کو۔ اس انرجی کے زیرِ اثر آپ لوگوں سے، اپنے گولز سے بھاگتے ہیں خوف کی وجہ سے، یا پھر ان سے چپکے رہتے ہیں ضرورت سے زیادہ اور وہ بھی خوف کی وجہ سے۔ اضطراب، بے چینی، چوکنا رہنا، جلن حسد وغیرہ اس کی شاخیں ہیں۔
6- خواہش (desire): (125)
"مجھے یہ ہر قیمت پر چاہیے"، چاہت، خواہش، حصول، طلب، یہ سب اس کے روپ ہیں۔ یہ لیول ناقابلِ تشفی (insatiable) ہے، کیونکہ خواہشات کی کوئی حد نہیں، تبھی اطمینان کے لمحات اس لیول پر چھو کر بھی نہیں گزرتے۔
7-غصہ (anger): (150)
غصہ کی تہہ میں جاکر دیکھیں گے تو "خوف" ملے گا۔ غصہ مدد دیتا ہے خوف کو قابو پانے میں۔ اس لیول پر چڑچڑا پن، کڑواہٹ تلخی، ناراضگی، "میں بدلہ لے کر رہوں گا"، "میں تمہیں دیکھ لوں گا" ہوتا ہے۔ سطح پر آنے کے بعد غصہ جلدی اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن نقصان اکثر ناقابلِ تلافی دیتا ہے۔
8- احساس برتری (pride): (175)
"میں اور میرا طریقہ سب سے بہتر ہے"، "میں اور میری کامیابیاں "، اس لیول پر "سب مجھے جانیں، میری واہ واہ ہو " والی کیفیت طاری رہتی ہے۔ پرفیکشن، میں خاص اور سب سے الگ، میں سب سے بہتر!