Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nida Ishaque
  4. Dopamine Nation (3)

Dopamine Nation (3)

ڈوپامین نیشن(3)

درد کا علاج درد ہے (Pain to Treat Pain)۔

جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ویسے ہی سائنس کہتی ہے کہ "درد کو درد سے صحیح کیا جا سکتا ہے" اس سائنس کو "ہورمیسس" (hormesis) کہتے ہیں (جس میں اسٹریس کے ذریعے مثبت نتائج پیدا ہوتے ہیں اسکی مثال ورزش ہے، جس میں جسم کو درد دے کر اسے مضبوط بنایا جاتا ہے)۔ انزائٹی بھی انزائٹی سے صحیح ہوتی ہے، یعنی اگر آپ کو سوشل انزائٹی ہے تو آپ گھر میں چھپ کر نہیں بیٹھتے بلکہ اسے نارمل کرنے کے لیے مزید انزائٹی یعنی جان بوجھ کر سماجی تقاریب میں جاتے ہیں۔

یہ سب غیر متوقع اور مقابلہ کارگر (counterintuitive) ہے، کیونکہ بقول ڈاکٹر اینا کے پچھلے کئی سالوں سے ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ پلیژر یا سکون ہی درد کا علاج ہے لیکن حقیقت اس کے متضاد ہے۔ درد بھی اتنا نہ ہو کہ انسان کو نقصان پہنچانے لگ جائے یا پھر ہم درد کی لت میں ہی مبتلا ہو جائیں، لیکن درد ضروری ہے، اس سے بھاگنا ہمیں مزید درد میں مبتلا کرتا ہے۔

ایمانداری اور کھرا پن (Radical Honesty)۔

وہ دنیا جہاں بھوک اور افلاس کا ڈیرہ ہو وہاں جھوٹ بہت کام آتا ہے (تبھی غریب ممالک میں لوگ جھوٹ کا استعمال کرتے ہیں شاید کیونکہ وسائل اور مواقع محدود ہوتے ہیں)، لیکن وہاں جہاں فراوانی ہو ادھر جھوٹ آپ کو لت، اکیلا پن، عارضیاتی طور پر ضرورت سے زیادہ چیزوں کے استعمال (pathological overconsumption) کی جانب لے جاتا ہے، بقول ڈاکٹر اینا کے۔

اگر آپ کسی بھی بیماری کا علاج چاہتے ہیں یا کوئی عادت بدلنا چاہتے ہیں تو ایماندارانہ طور پر اپنی عادتوں کے متعلق بتانا بہت ضروری ہوتا ہے، اگر کسی اور سے نہ سہی لیکن خود سے تو سچ کہیں، خود کا اور خود کی عادتوں کا ایماندارانہ جائزہ بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ جب کوئی مریض ایمانداری سے اپنے متعلق بتاتا ہے تو اسکا علاج کرنا آسان ہوتا ہے۔

کتاب میں ایمانداری اور سچ پر ہونے والے کئی تجربے بھی شیئر کیے گئے ہیں۔ سچ صرف لت کے علاج میں مدد نہیں دیتا بلکہ ہمیں اچھے اور مضبوط رشتے بنانے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں مستقبل میں ہونے والی لت سے بھی بچاتا ہے، بقول ڈاکٹر اینا کے۔ کتاب "کیلکٹو ایلوژن" میں بھی ٹاڈ روز نے کہا تھا کہ سچ (truth) اگر کوئی ایک بول دے اور بھرم توڑ دے تو جھوٹ کی مانند یہ بھی پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آپ چاہیں جھوٹ اور فریب کی کتنی ہی وکالت کیوں نہ کر لیں لیکن اس بات سے منہ پھیرنا ممکن نہیں کہ کھرا انسان ہم سب کو اچھا لگتا ہے، چاہے ہم خود کتنے ہی جھوٹے اور مکار کیوں نہ ہوں۔ ایک بات یاد رکھیے گا کہ سچ ہمیشہ "اچھا" نہیں ہوتا بلکہ "صحیح" ہوتا ہے اور "صحیح "چیز ہمیشہ سننے، دیکھنے، چکھنے اور تجربہ کرنے میں"اچھی" نہیں ہوتی۔ اپنی لت کی جانب ایماندارانہ رویہ رکھنے سے انسان مزید آگاہ (aware) ہونے لگتا ہے۔

شرمندگی (Shame)۔

یہاں پر سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ کو ڈاکٹر اینا ایک مشورہ دیتی ہیں۔

"اپنے مریض سے اسکی میڈیکل ہسٹری نہیں بلکہ کہانی (story) پوچھیں۔ "

ہر لت کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے جسے ہمدردی (compassion) سے سننا نہ صرف ہمیں مریض کا اچھا علاج کرنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے بلکہ اس سے مریض کو صرف مریض نہیں بلکہ انسان ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جنہیں اپنے کام سے دلچسپی ہو وہی اس طرح کا لائحہ عمل اپناتے ہیں۔ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ لت ہمیں شرمندگی (shame) میں مبتلا کرتی ہے۔

لیکن شیم دو قسم کے ہیں، ایک تباہ کن شرمندگی (destructive shame) جس میں ہم لت میں مبتلا افراد کو سچ بولنے پر شرمندہ کرتے ہیں اور انہیں اذیت دیتے ہیں، جس سے وہ مزید تنہائی اور تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری شرمندگی کو سماجی شرمندگی (pro social shame) کہتے ہیں جس میں ہم لت میں مبتلا افراد کو شرمندہ ہونے پر انہیں تسلی دیتے ہیں اور سپورٹ کرتے ہیں، ہم انہیں لت سے نکلنے میں مدد کرتے ہیں۔

ہم سب انسان ہیں، ہمارے اندر بیش بہا خامیاں ہیں، زندگی نام ہی غلطیاں کر کے ان سے سیکھنے کا ہے۔ ایک ڈاکٹر بھی مکمل نہیں ہوتا اسے بھی مسائل کا سامنا ہوتا ہے کسی بھی عام مریض کی مانند۔ اس لیے ڈاکٹر اینا کے مطابق سماجی شیم جس میں لت میں مبتلا افراد کسی کمیونٹی کی مانند ایک دوسرے کو سہارا دے کر لت کے دلدل سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، لت کو چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

سادہ پلیژر (Simple Pleasures)۔

ڈاکٹر فام فینوکین کے مطابق ہمارا دماغ اتنی زیادہ فراوانی اور ہمیں میسر بیش بہا پلیژر کے لیے نہیں بنا۔ سب سے بڑی پلیژر مشین ہمارے ہاتھوں میں ہمارا فون ہے، اس ہر وقت کے پلیژر کی وجہ سے ہمارے دماغ زیادہ سے زیادہ پلیژر اور کم سے کم درد کو سہنے کی حالت میں آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اینا کے تجربہ کے مطابق جو افراد بہت عرصے جب اپنی لت سے منسلک چیز کا استعمال کرتے ہیں تو لت سے بہت عرصہ پرہیز کرنے کے باوجود وہ اکثر دوبارہ لت کی جانب چلے جاتے ہیں۔

کچھ لوگ نہیں بھی جاتے لیکن جتنا زیادہ عرصہ آپ کو لت میں مبتلا ہوئے لگتا ہے اتنا ہی اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مریض زندگی کے کسی موڑ پر متحرک (trigger) ہونے پر دوبارہ لت کی جانب آ جاتے ہیں، لہٰذا آپ نے خود پر نظر بنائے رکھنی ہے۔ اکثر جینیات (genetics) سے بھی اسکا تعلق ہوتا ہے۔ لت سے دماغ پر کچھ ایسے نقصان بھی ہوتے ہیں جو واپس کبھی ٹھیک نہیں ہوتے، لیکن دماغ کی خاصیت ہے کہ یہ نئی عادتیں بنا لیتا ہے۔

جب آپ کسی لت سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں تو آپ کا دماغ توازن حاصل کرنے کے بعد سادہ سرگرمیوں سے بھی لطف اندوز ہونے لگتا ہے، جیسے دوستوں کے ساتھ گپ شپ، کہیں گھومنے چلے جانا، اگر آپ کے بچے ہیں تو ان کے ساتھ وقت گزارنا، اور وہ تمام عام سی سادہ سرگرمیاں جو ہمارے لیے مطلب کھو دیتی ہیں کیونکہ وہ ہمیں اکساتی (stimulate) نہیں۔

اپنے پلیژر کو سادہ رکھیں، بہت کم لوگوں کو زندگی میں بنا لت کے بڑے پلیژر ملتے ہیں، زیادہ تر ہماری طرح عام زندگی ہی گزارتے ہیں اور جن لوگوں کو بڑے پلیژر ملتے بھی ہیں تو بھی بہت کم۔ ہم سب انسانوں کا دن بوریت اور یکسانیت سے بھرپور ہی ہوتا ہے، اس بوریت سے بھاگنا نہیں ہے بلکہ بوریت اور یکسانیت سے بھری دنیا میں غوطے اور ڈ بکیاں لگائیں۔ کسی کے عشق میں نہیں بلکہ بوریت میں ڈوبنا ہمارے درد کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

(جاری ہے)۔

Check Also

Jahez Ka Saman

By Syed Mehdi Bukhari