Bechaini (3)
بےچینی (3 )
بےچینی (anxiety) فلسفہ کی نظر میں، سدھارت گوتم بےچین انسانی دماغ کو "بندر دماغ" (monkey brain) کہتا ہے۔ جو کسی بندر کی مانند ایک خوف سے دوسرے اور دوسرے خوف اور فینٹسی سے تیسرے کی جانب چھلانگ لگاتا ہے۔ ایسے دماغ کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سدھارت کا فلسفہ ہمیں اینزائٹی کا سامنا کرنے کے لیے دو چیزیں"دانش" (wisdom) اور "مشق" (practice) کو ضروری بتاتا ہے۔
بنا مشق کے دانش کسی کا کام کا نہیں، اگر آپ صرف چیزیں پڑھتے ہیں۔ لیکن آپ پریکٹس نہیں کرتے تو وہ پڑھنا آپ کو فائدہ نہیں دیتا، بلکہ دماغ کی الجھنوں کو بڑھا دیتا ہے۔ آٹھویں صدی کے بدھ، اسٹ شانتی دیوا کہتے ہیں اگر کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اسے حل کرو، اور اگر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تو بھی پریشان ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا، کیونکہ وہ حل نہیں ہو سکتا۔
اسٹائیسزم (stoicism) ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ سب مسائل آپ کے کنٹرول میں نہیں، مثال کے طور پر ڈالر مہنگا اور روپیہ گر رہا ہے، ایک خطرناک آرٹیکل یا وڈیو دیکھ کر آپ کو کسی صحافی نے آگاہ کیا، صحافی کو انزائٹی بیچ کر ویوز مل گئے۔ اب آپ پریشان ہوگئے کہ کیا بنے گا ملک کا؟ سیاستدان سب چور ہیں، آرمی کرپٹ ہے، سرکاری افسران بھی کرپٹ اور لالچی ہیں، اب آپ کو اپنے مستقبل کی فکر ہوگئی۔
اب آپ کو اپنے بچوں کے مستقبل کی بھی فکر ہے، اب آپ انزائٹی اور پریشانی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں پھنس چکے ہیں، اپنے بیوی بچوں پر چلا رہے ہیں، کولیگ اور دوستوں سے الجھ رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کی پالیسی بنانے میں آپ کا کوئی کردار ہے؟ نہیں۔ یہ آپ کے کنٹرول میں نہیں، آپ کے کنٹرول میں آپ کا اپنا بجٹ اور آپکا اپنا ردِ عمل (response) ہے۔
ہمارے بندر دماغ کو یہ ساری پریشانیاں سوچنے میں مزہ آتا ہے، اسے کچھ نہ کچھ چاہیے پریشان ہونے کے لیے۔ سوچنا غلط نہیں، لیکن ان چیزوں پر سوچنا، جس پر آپکا اختیار نہیں یا جس سے مسائل کا حل نہیں نکلتا اور بہت زیادہ سوچنا، فضول ہے۔ زندگی میں ہر اینزائٹی، پریشانی یا سوچ کو "حل" (resolve) نہیں کرتے بلکہ کچھ پریشانیاں"تحلیل" (dissolve) کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
غیر منطقی سوچوں کو حل نہیں کیا جاتا، حل کرنا ہمارے دماغ کی خاصیت اور فطرت ہے۔ بلکہ انہیں اپنے جسم میں تحلیل کیا جاتا ہے۔ اور اس کے لیے سدھارت گوتم کی پریکٹس "مائینڈ فلنس میڈیٹیشن" بہت کارآمد ہے، جس میں آپ "حال" (present moment) میں اپنے جذبات اور سوچوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ آپ کسی جگہ خاموشی سے بیٹھ کر بھی ملک کے حالات دیکھ کر۔
اپنے اندر اٹھنے والے خوف اور اینزائٹی کا مشاہدہ کرکے اسے اپنے جسم میں تحلیل ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی پالیسی آپ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ کام انکا ہے۔ جن کے پاس اختیار ہے، آپ کے پاس جو اختیار ہے آپ اسکا استعمال کرکے اپنے مسئلے حل کریں اور جو حل نہیں ہوسکتے انہیں تحلیل کریں، انہیں"جانے دیں" (let go) کریں۔ میرا ذاتی تجربہ، مجھے بھی سماجی تشویش (social anxiety) ہے۔
میں نے اسکا علاج کرنے کی ٹھانی، وکٹر فرینکل کی بات اور مائینڈ فلنس پر عمل کرتے ہوئے میں نے رش والی جگہوں کا انتخاب کیا، مثال کے طور پر میں نے ایک تجربہ کیا، جو لوگ کراچی میں رہتے ہیں یہاں سی، ویو نامی ایک جگہ ہے۔ جہاں ایک مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ہے، اس کے باہر صبح میں خاصا رش ہوتا ہے اور مجھے وہ جگہ بلکل پسند نہیں۔
میں جان بوجھ کر وہاں جاتی، ایک کاپی اور ایک پین ساتھ ہوتا، میں لکھنا شروع کر دیتی، اپنے جذبات، اپنے خوف، وہاں موجود رش سے اکتاہٹ، تقریباً روز ایسا ہوتا، آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہوا کہ اب میرے اضطراب میں کمی آ رہی ہے۔ کاپی سے نظریں اٹھا کر آس پاس والوں پر نظر بھی ڈالنی شروع کر دی، وہاں میرے سامنے بیٹھی لڑکیوں سے جان بوجھ کر بات چیت کی، تھوڑا اور نارمل محسوس ہوا۔
اگلے دن میں نے کچھ نہیں لکھا بس نارمل بیٹھی رہی۔ ریسٹورینٹ کی مینیجر نے میری جانب دیکھا اور مسکرائی، میں نے بھی انسانوں کا کلاسیکل رسپانس یعنی، مسکراہٹ کے بدلے مسکراہٹ، میں جواب دیا، اس نے مجھ سے بات کی اور کہا کہ آپ یہاں پڑھنے آتی ہیں؟ میں نے بھی دلچسپی دکھائی، اسے بھی اپنے دکھ سنانے کے لیے کوئی چاہیے تھا اور مجھے بھی اپنی سوشل اینزائٹی اور انسانوں سے ہونے والی کوفت۔
اکتاہٹ اور خوف کو دور کرنا تھا۔ اس نے خواتین کو جاب میں آنے والے مسئلوں کو بیان کیا اور میں نے انسانوں میں موجود بنیادی جذبہ "ہمدردی" کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکا احساس کیا اور اسکی محنت کی حوصلہ افزائی کی، انسان حوصلہ افزائی اور تسلیم (acknowledgement) چاہتے ہیں۔ اس دن کے بعد میں دوبارہ وہاں نہیں گئی، اب ضرورت ہی نہیں، میری سوشل اینزائٹی میں کمی آگئی ہے۔
اب انسان زیادہ برے، اکتاہٹ اور خوف کا شکار کردینے والے نہیں لگتے، ایسے بہت سے تجربے میں نے کیے، کچھ جان کر تو کچھ انجانے میں ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہونے سے آس پاس والوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہوتا، یہ سوچیں ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں اور ڈاکٹر جو، ڈسپینزا کہتے ہیں۔ اگر کوئی سوچ آپ کے دماغ میں ہے ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو۔
آج بھی کبھی کبھار اینزائٹی ہوتی ہے۔ انزائٹی فطری ہے، لیکن اگر اس سے نمٹنا نہ آتا ہو تو تب مسئلے ہوتے ہیں۔ لیکن اسکی شدت اور تکلیف میں خاصی کمی آگئی ہے۔ کیونکہ اب اس سے نمٹنا آگیا ہے۔