Torch Hai?
ٹارچ ہے؟
پھولی ہوئی سانس کے ساتھ جتنی بیقراری سے یہ سوال اس بچے نے کیا تھا، دکان دار بھی ایک لمحے کو ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگ گیا تھا۔ پھر کچھ کہے بغیر اس نے دکان میں بنے ایک دراز سے ٹارچ نکال کر اس بچے کو تھما دی اور بولا "پچیس روپے"
"پیسے۔۔ پیسے تو نہیں ہیں میرے پاس" عجیب ہذیانی انداز میں بولا تھا وہ بچہ۔
دکان دار نے ایک لمحہ اسے دیکھا اور کہا
" کوئی بات نہیں، لے جاؤ ٹارچ"
***
اس دن کا آغاز تو معمول کے دنوں جیسا ہی تھا لیکن یہ دن معمول کا دن نہیں تھا۔ کچھ تھا جو صبح فجر کے وقت اٹھتے ہی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ اسے والد صاحب نے روز کی طرح زبردستی جگایا تھا اور اب اپنے ساتھ مسجد لے کر جا رہے تھے مگر وہ جاتا جاتا ایک لمحے کے لیے امی کی چارپائی کے پاس ٹھٹک کر رک گیا تھا۔ کیوں رکا تھا یہ اسے بھی معلوم نہیں تھا۔ پھر اس کے والد صاحب نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا تو وہ کھنچتا چلا گیا مگر جاتے جاتے بھی وہ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ کچھ تھا جو ٹھیک نہیں تھا لیکن وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا ٹھیک نہیں ہے۔
مسجد میں سیپارہ پڑھتے ہوئے بار بار قاری صاحب سے ڈانٹ پڑ رہی تھی مگر وہ سیپارے پہ دھیان ہی نہیں دے پا رہا تھا۔ سیپارے کا وقت ختم ہوا تو وہ واپس گھر کی طرف بھاگا۔ گھر پہنچا تو سب معمول کے مطابق تھا۔ کہیں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جسے وہ اپنی بے چینی کا سبب سمجھ سکتا۔ امی بستر پہ بیٹھی ہوئی تھیں، وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ پتا نہیں کتنی ہی دیر ایسے ہی چپ چاپ وہ بیٹھا رہا۔ نہ امی کچھ بولیں نہ وہ کچھ بولا۔ پھر بہنیں آ کر امی سے باتیں کرنے لگیں، ان کی طبیعت کے متعلق پوچھنے لگیں کیونکہ امی کچھ دن سے بیمار تھیں۔ وہ اٹھ کر صحن کے دوسرے کونے کی طرف چل دیا مگر پتا نہیں کیا ہوا کہ فوراً ہی پلٹ آیا اور بہنوں کے درمیان بیٹھی امی کو چپ چاپ دیکھنے لگا۔
کچھ دیر گزری ہوگی کہ امی وہیں چارپائی پہ بیٹھے بیٹھے ایک دم دائیں طرف چارپائی پہ گر گئیں۔ اس کی بہن کے منہ سے نکلنے والی چیخ پہلی چیخ تھی۔ اسے سمجھ نہیں لگی کہ وہ کیوں چیخیں مگر اتنی سمجھ آ گئی کہ کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔ بہنیں امی کو ہلا رہی تھیں اور چیخ رہی تھیں مگر امی جواب نہیں دے رہی تھیں۔ اس نے خود بھی آگے بڑھ کر امی کو جھنجھوڑا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ چیخیں سن کر محلے دار بھی آ پہنچے۔ فوراً کوئی لڑکا گلی میں موجود ڈاکٹر کو بلانے کے لیے بھیجا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے صحن میں رش لگ گیا تھا۔ ڈاکٹر آیا تو امی کی نبض دیکھنے لگا اور پھر بولا "ٹارچ چاہیے"۔
ٹارچ تو گھر میں نہیں تھی لیکن ڈاکٹر نے دوبارہ کہا کہ "ٹارچ لائیں فوراً" تو وہ باہر گلی کی طرف دوڑا کیوں کہ اسے دکان سے ٹارچ لانی تھی۔ اسے نہیں پتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے مگر اسے یہ سمجھ آ گئی تھی کہ ٹارچ نہ لایا تو اس کا سارا جہاں لٹ جائے گا۔ وہ اس طرح دوڑا جس طرح کوئی اپنی زندگی بچانے کے لیے دوڑتا ہے۔
دکان دار محلے دار ہی تھا، اس بچے کی حالت دیکھی تو کوئی بھی سوال جواب کیے بغیر اسے بغیر پیسے لیے ہی ٹارچ پکڑا دی۔ ٹارچ لے کر وہ پلٹا اور واپس گھر کی طرف دوڑا۔ اپنی پوری جان لگا کر وہ کوئی بھی لمحہ ضائع کیے بغیر گھر پہنچ جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے ہاتھ میں ایسی دولت تھی جو بروقت پہنچنے پہ اس کی دنیا بچا سکتی تھی۔
گھر پہنچنے تک صحن کا ماحول بدل چکا تھا۔ اب وہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ ہر کوئی بلند آواز میں رو رہا تھا۔ کوئی سینہ پیٹ رہا تھا اور کوئی چیخ چیخ کر آسماں سر پہ اٹھائے ہوئے تھا۔ وہ زیرلب بڑبڑایا "میں ٹارچ لے آیا ہوں"۔۔
مگر اتنے شور میں اس کی بڑبڑاہٹ کون سنتا۔ وہ واپس پلٹا اور پھر سے بھاگنے لگا۔ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح وہ ٹارچ ہاتھ میں لیے گلیوں میں بھاگتا چلا جا رہا تھا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔ اس کی چلاتی ہوئی آواز پھٹ چکی تھی مگر وہ چلائے جا رہا تھا
"میں ٹارچ لے آیا ہوں، میں ٹارچ لے آیا ہوں"۔۔