Naqli Beemari, Zinda Baap Ko Kha Gayi
نقلی بیماری، زندہ باپ کو کھا گئی

وہ ایمرجنسی میں داخل ہوا تو اس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ بھاگتا ہوا نرسنگ کاؤنٹر پہ آیا اور ایک مریضہ کے متعلق پوچھنے لگا۔ نرس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ آپ کی مریضہ اس کونے میں ہیں۔
نرس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اس کونے کی طرف دوڑ پڑا تھا۔ وہاں ایک نوجوان لڑکی بستر پہ دراز تھی۔ وہ اس کے پاس پہنچا تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلانے لگا۔ اس کی آواز گلے میں اٹک گئی تھی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ پھر رندھی ہوئی آواز میں بولا "میرا بچہ، کیا ہوگیا تمھیں۔ میری بٹیا رانی ہوش میں آ جاؤ۔ دیکھو تمھارا باپ آ گیا ہے نا۔ میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ تم آنکھیں تو کھولو، دیکھو تمھارا باپ آیا ہے"۔
اس کی آواز میں نمی اور درد کی آمیزش تھی لیکن اس کی آواز سن کر اس لڑکی کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔
میں دو بیڈ دور ایک مریض کو دیکھ رہا تھا، اس باپ کی تکلیف میں ڈوبی پکار سن کر بے ساختہ اس طرف دیکھا کہ وہ کس مریض کے ساتھ ہیں۔ پھر اس لڑکی کو دیکھ کر حیرت سی ہوئی کہ وہ باپ کی پکار پہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی۔
تقریباً گھنٹہ بھر پہلے ایمرجنسی کے شور و غل میں اس نوجوان لڑکی کو سٹریچر پہ ڈالے کچھ لوگ ہمارے پاس ہسپتال آئے تھے۔ بتایا گیا کہ اچانک ہی بیہوش ہوگئی ہے۔ ہم نے اسے پروٹوکول کے مطابق چیک کیا تو اس لڑکی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ صرف کسی پریشانی کی وجہ سے یا گھر والوں پہ کوئی دباؤ ڈالنے کے لیے بیہوش ہونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔
ہم نے پھر بھی ضرورت کے مطابق اس کو درد کی دوا دی اور ضروری ابتدائی علاج کر دیا۔ انجیکشن لگا تو انجیکشن کی تکلیف سے اس نے بالآخر اس نے آنکھیں کھول کر ہوش میں آنا ہی مناسب سمجھا۔ پھر کچھ دیر اپنے عزیزوں سے باتیں کیں اور ریلیکس ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ ہمارے پاس ہسپتال میں ایسے مریض آتے رہتے ہیں، جنھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور وہ بس بیمار ہونے کی ایکٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہی ہوتی ہے۔ ہم کچھ دیر انھیں ہسپتال میں رکھتے ہیں، ضروری دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہ یقین ہونے کے بعد انھیں کوئی مسئلہ نہیں، مریض کو گھر بھیج دیتے ہیں۔
ہم جانتے تھے اس مریضہ کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اسے گھر ہی بھیجنا ہے۔ لیکن رش زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دیر کے لیے وہیں چھوڑ کر دوسرے مریضوں کے ساتھ مصروف ہو گئے تھے۔ اب اس لڑکی کا باپ آیا تھا اور وہ دوبارہ سے ایکٹنگ کرنے لگ گئی تھی۔ باپ کے بلانے پہ خود کو بیہوش ظاہر کرکے ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی۔ باپ روتے ہوئے کبھی اس کے ہاتھ سہلاتا، کبھی سر پہ ہاتھ پھیرتا اور پھر رندھی ہوئی آواز میں اسے پکارنے لگتا لیکن وہ لڑکی ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔
اس آدمی کی تکلیف دیکھ کر مجھے اس لڑکی پہ غصہ سا آ رہا تھا اور میں نے سوچا کہ کچھ ضروری مریض دیکھ کر اس کی طرف جاتا ہوں اور اس کی ایکٹنگ ختم کرواتا ہوں۔ کچھ دیر بعد میں نے نوٹس کیا کہ اس آدمی کی اب آواز نہیں آ رہی۔ دیکھا تو مریضہ ابھی وہیں تھی لیکن وہ آدمی نہیں تھا۔ ساتھ موجود نرس سے پوچھا کہ وہ آدمی کہاں گیا تو اس نے بتایا کہ اس کی چھاتی میں درد ہونے لگ گیا تھا تو اسے سامنے دل کی ایمرجنسی میں لے گئے ہیں۔
میں دوبارہ سے مریضوں میں مصروف ہوگیا، وہ لڑکی اسی طرح آنکھیں بند کرکے اپنے بستر پہ پڑی ہوئی تھی اور اس کا روتا ہوا تکلیف میں ڈوبا باپ اپنا علاج کروانے چلا گیا تھا۔ کچھ دیر ہی گزری ہوگی کہ وہاں چیخ و پکار مچ گئی۔ اس چیخ و پکار میں سب سے اونچی چیخ اسی لڑکی کی تھی۔ میں نے دیکھا وہ بستر سے اٹھ کر چیختی ہوئی اپنے سر اور منہ پہ تھپڑ مار رہی ہے۔ اسی وقت نرس نے بتایا اس کا باپ جو چھاتی کی تکلیف کے ساتھ دل کی ایمرجنسی میں گیا تھا، وہ دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگیا ہے۔
میرے پورے بدن میں سرد لہر سی دوڑ گئی۔ اس لڑکی کی بیمار ہونے کی ایکٹنگ اس کے باپ کو کھا گئی تھی۔ اب یہ خبر سن کر وہ لڑکی چیخیں مار رہی تھی، اپنا آپ پیٹ رہی تھی۔ پھر وہ ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی سامنے دل کی ایمرجنسی کی طرف بڑھی۔ وہاں ایک سٹریچر پہ اس کے باپ کی میت ایمرجنسی سے باہر لائی گئی تھی۔ وہ اس سے لپٹ گئی اور دھاڑیں مار مار کر اسے پکارنے لگی۔ اس کی چیخیں پورے ایمرجنسی وارڈ میں گونج رہی تھیں لیکن اب اس کے رونے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا۔ اس کی نقلی بیماری اس کے زندہ باپ کو کھا گئی تھی اور یہ ایسا روگ تھا جو عمر بھر کے رونے پیٹنے سے بھی دور نہیں ہو سکتا تھا، جو کبھی اسے سکون سے جینے نہیں دے سکتا تھا۔

