Mujhe Azaan Sun Kar Be Had Khushi Hui
مجھے اذان سن کر بے حد خوشی ہوئی
اس کا جسم کچھ معذوری کا شکار تھا۔ پاؤں ٹیڑھے تھے، بولتے ہوئے اٹکتا تھا، چلتے ہوئے لنگڑاتا تھا اور انتہائی سست روی سے چل پاتا تھا۔ میں اسے دیکھتا تو ہمدردی جاگتی، پھر افسوس ہوتا کہ اس کی زندگی کیسی مشکل اور بے فائدہ ہے۔ میں سوچتا تھا کہ اگر کسی حوالے سے اس کی مدد کر سکا تو ضرور کروں گا۔
ان دنوں میرا کمرہ مسجد کے بالکل سامنے تھا اور مسجد کے اکلوتے سپیکر کا منہ میرے کمرے کی کھڑی کی طرف تھا۔ جب اذان ہوتی تو اس کی انتہائی بلند آواز میرے سارے حواس جگا کر رکھ دیتی۔ مسئلہ یہ تھا کہ اذان دینے والے انتہائی سخت لہجے میں چیختے ہوئے اذان دیا کرتے تھے۔ موذن سپیکرکے ساتھ منہ جوڑ کر پورا زور لگا کر اذان دیا کرتا تھا اور پوری اذان کے دوران مجھے سمجھ نہیں لگتی تھی کہ کہاں جا کر چھپ جاؤں۔
روز سوچتا تھا کہ جا کر موذن سے کہوں کہ مدھم آواز میں اذان دیا کرو یا سپیکرکے ساتھ منہ جوڑ کر نہ اذان دیا کرو لیکن پھر سوچتا لوگ کہیں گے اسے اذان سے تکلیف ہوتی ہے۔ ایمان پہ شک کریں گے اور کیا خبر گستاخی کا فتویٰ لگا کر میرے جسم کے چیتھڑے ہی اڑا کر رکھ دیں۔ ویسے بھی انھیں کون سا روز روز اپنا ایمان پکا کرنے کا موقع ملنا ہے۔ پس یہ سب خیال آتے ہی چپ کر جاتا تھا اور اگلی اذان تک اپنے آپ کو دوبارہ سے اس کرخت آواز کے لیے تیار کر لیتا۔
ایسے ہی دن گزر رہے تھے کہ ایک دن اذان شروع ہوئی لیکن اذان شروع ہوتے ہی خوشگوار حیرت ہوئی۔ اب کی بار آواز کرخت نہیں تھی، کوئی خوش الحانی سے بڑی خوبصورت آواز اور انداز میں اذان دے رہا تھا۔ ترنم کے ساتھ مدھم آواز سیدھی دل میں اترتی محسوس ہوتی تھی اور صرف آواز ہی نہیں، آواز کے ساتھ وجود میں سکون بھی اترنے لگتا تھا۔
مجھے اذان سن کر بے حد خوشی ہوئی اور پہلی بار مسجد کا اکلوتا سپیکر اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے ہونے پہ شکر کیا۔ اگلی نماز کا وقت ہوا اور اگلی اذان بھی اسی مدھر آواز میں تھی۔ پھر معمول بن گیا کہ ہر نماز میں اب وہی نیا موذن اذان دینے لگا۔ میں مسجد پہنچتا تو نماز کا وقت ہوتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اذان کس نے دی ہے۔
ایسے ہی جمعہ کا دن آ گیا۔ جمعہ کی نماز میں بیٹھا امام صاحب کی تقریر سن رہا تھا کہ وہی معذوری کا شکار انسان میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ تقریر ختم ہوئی، سنتیں ادا کر لیں تو وہ میرے ساتھ سے اٹھا، صفوں میں جگہ بناتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔
پہلی صف سے آگے جا کر کھڑا ہوا، مائیک ٹھیک کیا اور کانوں پہ ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ فضا میں اللہ اکبر کی ترنم سے بھری آواز گونجی اور میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
وہ جسے میں ناکارہ سمجھتا تھا، زمین پہ بوجھ سمجھتا تھا۔ اس نے کیسے میری تکلیف راحت میں بدل دی تھی۔ وہ جو بولتے ہوئے اٹکتا تھا، کیسی روانی اور ترنم کے ساتھ اپنی خوبصورت آواز کے ذریعے ہمارے اندر سکون اتارتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے اذان کو تکلیف سے راحت میں بدل دیا تھا۔