Gali Nahi Di
گالی نہیں دی

میں نے پیدائش کے بعد اپنی ماں کو انتہائی شفیق پایا، صرف اپنے لیے نہیں، اپنے اردگرد موجود سب لوگوں کے لیے بھی۔ یہاں تک کے محلے کی خواتین بھی ان کے پاس آ کر سکون پایا کرتی تھیں، انھیں اپنے دکھ سنایا کرتی تھی۔
میں زندگی کے کچھ شروعات سال ہی اپنی ماں کے ساتھ گزار پایا لیکن ان کچھ سالوں میں ہی انھوں نے کچھ چیزیں اس طرح میرے فطرت میں گھول دی تھیں کہ ان کے جانے کے بیس سال بعد بھی وہ میری فطرت سے نہیں نکل پائیں۔
میں نے انھیں دیکھ کر سیکھا کہ کسی کو کبھی تکلیف نہیں دینی، وہ تکلیف چاہے جسمانی ہو، جذباتی ہو، مالی ہو یا نفسیاتی۔ اس لیے میں دوسروں کے ساتھ معاملات میں ہمیشہ حد سے زیادہ نرمی دکھاتا ہوں۔ خود تکلیف لے لینا گوارا ہوتا ہے لیکن دوسروں کو تکلیف سے بچانا ہی ہمیشہ مدنظر رہا۔
اسی وجہ سے میں زندگی میں کبھی کسی کو گالی نہیں دے سکا۔ مجھے لگتا ہے گالی کسی انسان کو نفسیاتی اور جذباتی تکلیف دینے کے لیے دی جاتی ہے اور میں تکلیف دینے کے حق میں نہیں، اس لیے گالی دینے کا کبھی خیال بھی نہیں آیا اور جب کبھی ماں کی گالی سنتا ہوں تو میرے ذہن میں اپنی ماں آتی ہے اور میں کسی دوسرے فرد کی تیسرے فرد کو دی گالی پہ بھی شرمسار سا ہونے لگتا ہوں۔
بچپن میں ایک دفعہ کسی عزیز کی لڑائی ہوئی، لڑائی کے بعد آپس میں بیٹھے ہوئے تھے تو وہ مخالفین کی برائیاں کر رہے تھے، انھیں گالیاں دے رہے تھے، میں ان کا احساس کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالا اور اس مخالف کو گالی دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد مجھے اپنے آپ پہ ایسی شرمندگی ہوئی کہ وہ واقعہ آج تک بھول نہیں پایا اور دوبارہ کبھی ایسا موقع بھی نہیں آنے دیا۔
ایسا بھی نہیں کہ میں گالی دینے والوں کو برا سمجھتا ہوں یا ان کو کم تر سمجھتا ہوں۔ میرے بہت سے دوست ہیں جو گالی کو اپنی بات چیت کا عام حصہ بنا چکے ہیں، ان کو بات کرتے ہوئے احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک جملے میں تین دفعہ گالی نکال چکے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں ہوتا، وہ اس پنجابی کلچر کا شکار ہیں، جس کے تحت گالی کو روزمرہ کی باتوں کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جہاں گالی کو برا یا قابل توجہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔
البتہ میرے اکثر دوست میری اس فطرت کی وجہ سے میرے سامنے کسی بھی قسم کی گالیاں نکالنے سے پرہیز کرتے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے کہ وہ میری فطرت کا خیال رکھتے ہوئے میرے کمفرٹ زون کو چھیڑتے نہیں۔
ماں بہن بیٹی قابل عزت، قابل احترام ہیں۔ کسی کو اختیار نہیں پہنچتا کہ اپنی معمول کی باتوں میں ان کی تذلیل کرکے اپنی تسکین کا سامان کرتے پھریں۔ گالی بری چیز ہی ہے لیکن جن کے لیے معمول کی چیز بن گئی ہے وہ غیرارادی طور پہ اس برائی کا شکار ہیں، انھیں اپنی گفتار کو بہتر کرنا چاہیے۔
اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں۔ میری تربیت کے فقط چند سال میری پوری زندگی کو خاص رخ دے گئے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کے شروعاتی سالوں میں ان کی تربیت کرکے نہ صرف ان کو بہتر انسان بنا سکتے ہیں بلکہ پورے معاشرے پہ ایک مثبت اثر چھوڑ سکتے ہیں۔ چھوٹے بچے مٹی کے کچے برتن جیسے ہوتے ہیں، آپ ان پہ جیسا نقش چھوڑیں گے وہ ساری عمر ان پہ جما رہے گا۔
اور ہاں یہ چھوٹے بچے سمجھانے سے، بتانے سے نہیں سیکھ رہے ہوتے۔ دیکھ کر سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ والدین ان کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں، جیسا آپ بولیں گے، ویسا ہی بولنا وہ سیکھیں۔ جیسا آپ رویہ رکھیں گے، ویسا ہی ان کا رویہ بنے گا۔ وہ آپ کی پرچھائی بنیں گے، انھیں اچھا انسان بنانا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے اپنا بہترین روپ رکھیے، ان کے سامنے اپنے الفاظ کا، اپنے خیالات کا، اپنے برتاؤ کا بہترین عملی نمونہ پیش کیجیے تاکہ وہ بھی بہترین انسان بن سکیں، وہ بھی معاشرے کے لیے مثال بن سکیں۔

