Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Naveed Khalid Tarar
  4. Faizabad Ka Stop

Faizabad Ka Stop

فیض آباد کا سٹاپ

یہ راولپنڈی میں فیض آباد کا سٹاپ تھا۔ میں میٹرو بس سے اترا تو میرے ساتھ اترنے والے لوگوں میں ایک چودہ پندرہ سال کا لڑکا بھی تھا۔ میں نے اس وقت اس پہ زیادہ غور نہیں کیا۔

سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تو مجھ سے چند قدم پیچھے پیچھے وہ بھی آ رہا تھا۔ ان بس اڈوں پہ جیب کتروں کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اس لیے عموماً اپنے آگے پیچھے والوں پہ نظر رکھنی چاہیے۔

جب وہ مجھ سے پیچھے میرے ساتھ ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا تو میں نے ایک دفعہ مڑ کر اس کا بغور جائزہ لیا۔ پرانا سا لباس، سانولا سا رنگ، عام سے نین نقش اور چہرے پہ ڈھیر ساری پریشانی، ایسا لگا ان پریشانیوں کے بوجھ سے جھکا وجود زبردستی ساتھ لیے پھر رہا ہو۔

میں خاموشی سے سیڑھیاں اتر کے اپنی راہ چل دیا۔ کچھ آگے جا کر ویسے ہی خیال آیا تو پلٹ کر دیکھا، وہ ابھی تک وہیں سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا۔ گردن گھما کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا جیسے سمجھ نہ لگ رہی ہو کہ کہاں جانا ہے۔

اب میں پلٹا اور اس کے پاس جا کر پوچھا "کوئی مسئلہ یا پریشانی ہے کیا؟"

اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا، لیکن کچھ کہنے کے بجائے چپ رہنے پہ اکتفا کیا۔ میں نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تو بولا "گھر جانے کا کرایہ نہیں ہے پاس"

میں سمجھ گیا کہ یہ اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ایسے مصروف اڈوں پہ لوگوں سے گھر جانے کے کرائے کے نام پہ جدید انداز میں بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ کسی کے بائیک کا پٹرول ختم ہوا ہوتا ہے، کسی کی جیب کٹ گئی ہوتی ہے اور کوئی مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے گھر جانے کا کرایہ نہیں اکٹھا کر پا رہا ہوتا۔ یہ سب دراصل ان کے ناٹک ہوتے ہیں اور یہ سب بھیک مانگنے کا نیا انداز ہوتا ہے بس۔

میں بھی چپ کرکے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ فیض آباد اڈے پہ ایک دوست آیا ہوا تھا۔ میں اس سے ملنے آیا تھا، تو مطلوبہ مقام پہ جا کر اس کو ڈھونڈنے لگ گیا۔ دوست آیا تو اسے وہیں سے گھنٹے بعد آگے کہیں جانا تھا تو کچھ دیر ہم ویٹنگ روم میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر اٹھے اور کھانا کھانے کے لیے نکل گئے۔

ویٹنگ روم کے پاس کوئی ہوٹل دیکھنے لگے تو معلوم نہیں کیوں خیال آیا کہ یہاں نہیں سڑک کے دوسری طرف والے ہوٹلز میں جا کر کھانا کھائیں، وہاں اچھا کھانا ملے گا۔ حالانکہ میں نے اس سے پہلے کبھی وہاں سے کھانا نہیں کھایا تھا لیکن یہ خیال اتنا پرزور تھا کہ میں دوست کو لے کر آگے بڑھ گیا کہ سڑک کے دوسری طرف چلتے ہیں۔

جہاں سے سڑک کے پار جانا تھا، وہاں پہنچے تو وہی لڑکا مجھے پھر سے نظر آگیا۔ اسی طرح پریشان حالت میں کھڑا۔ رات کے شائد دس بجنے والے تھے، میں دوست کو وہیں روک کر کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کسی سے پیسے نہیں مانگے، بس چپ کرکے سر جھکائے کھڑا تھا۔

میں دوبارہ اس کے پاس چلا گیا اور پوچھا ابھی تک کرایہ نہیں ملا کیا؟

اس نے میری طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔ کہنے لگا "میں گھر سے بھاگ کر آیا ہوں آج صبح یہاں۔ سارا دن گزر گیا ہے، شہر کی خاک چھانتے۔ اب نہ کچھ کھانے کو پاس ہے نہ واپس گھر جانے کا کرایہ پاس ہے"۔

پھر ایک ہائی ایس کی طرف اشارہ کرکے بولا "وہ آخری گاڑی ہے شنکیاری کی، جہاں میرا گھر ہے۔ اس کے بعد کوئی گاڑی نہیں جائے گی۔ مجھے شائد یہی سزا ملنی چاہیے کہ میں گھر واپس ہی نہ جا سکوں"۔

میں نے دیکھا تو وہ ہائی ایس اڈے سے نکل کر سڑک کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میں نے اسے کہا "جاؤ اگر گاڑی میں سیٹ ہے تو ہائی ایس کو روکو، میں کرایہ دیتا ہوں"۔

اس نے یہ سنا تو گاڑی کی طرف بھاگا، ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر پوری جان لگا کر بھاگا۔ گاڑی اڈے سے نکل کر سڑک پہ آ چکی تھی۔ وہ اپنے حلق کی ساری طاقت سمیٹ کر آوازیں دیتا گاڑی کی طرف بھاگ رہا تھا اور میں دوست کو ساتھ لیے اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

ہائی ایس والے نے گاڑی تیز کی لیکن پھر شائد کسی نے بتایا کہ کوئی آوازیں دے رہا ہے تو ایک طرف کرکے گاڑی روک لی۔ لڑکا پھولے ہوئے سانس کے ساتھ گاڑی کے پاس پہنچا تو اس کا دروازہ پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ شائد اسے ڈر لگ رہا تھا کہ دروازہ چھوڑا تو گاڑی والا بھاگ جائے گا۔ میں پہنچا تو ڈرائیور سے پوچھا کوئی سیٹ خالی ہے کیا؟

کہنے لگا "ایک ہی سیٹ خالی ہے"۔

میں نے اس لڑکے کو گاڑی میں بٹھایا، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور لڑکے کو کچھ اضافی پیسے بھی زبردستی دے دیے کہ رستے میں کہیں رکو تو کچھ کھا لینا۔

وہ لڑکا جواب میں کچھ نہیں بولا، بس آنکھیں بند کر لیں اور دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دو لمحے بعد چہرے پہ پھیر لیے جیسے خدا کا شکر کر رہا ہو۔

شائد اسے یقین تھا کہ اس کا خدا اس کی مدد کرے گا، شائد اسے پتا تھا کہ شکریہ میرا نہیں اس خدا کا بنتا ہے جس نے وسیلہ بنا کر بھیجا۔

پھر ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی تو وہ نم آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا اور جب تک گاڑی نظروں میں رہی وہ پلٹ کے ان نم آنکھوں سے میری طرف دیکھتا ہی رہا۔۔

خدا جانے اس کی دعا تھی یا اس کی ماں کی دعا کہ آخری گاڑی کی آخری سیٹ اسی کے لیے بچی رہ گئی۔ میں کھانا کھانے کے لیے سڑک پار کرنے پہ مجبور ہوا اور اسی میٹرو بس میں بیٹھ کر آیا، جس میں وہ سوار تھا تاکہ میں اس کے وجود کو دیکھوں، اس کی پریشانی کو محسوس کروں۔

جانے کسی کی دعا تھی یا خدا کا اپنا نظام کہ اس نے اس لڑکے کے لیے ترتیب سے وسائل بنا دیے تاکہ وہ بڑے شہر کے انسانی جنگل میں گم نہ ہو، خیریت سے گھر چلا جائے۔ تاکہ اسے اپنی چھوٹی غلطی کی بڑی سزا نہ ملے۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez