Dhoka Dar Dhoka
دھوکہ در دھوکہ

بڑے شہر کی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ تو لے لیا لیکن کیا معلوم تھا یہاں کیا کیا معاملات درپیش ہوں گے۔ سب سے بڑا سردرد تو اخراجات تھے، گھر میں جاری حالات کی سختی کا بخوبی اندازہ تھا، تو پیسے بھی سوچ سوچ کر مانگنے پڑتے تھے۔
ایسے میں ہاسٹل میں رہتے رہتے ساتھی دوستوں کو جانے ایک دم کیا خیال آیا کہ انھوں نے فلیٹ کرائے پہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے سمجھایا کہ اخراجات ہاسٹل کے برابر ہی ہوں گے، اس لیے اخراجات کی فکر نہیں کرنی اور پھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک فلیٹ لے لیا لیکن جس ایجنٹ نے ڈھونڈ کر دیا تھا، اس نے نصف کرایہ اپنے کمیشن کے طور پہ وصول کر لیا۔ یہ نصف کرایہ ہمارے بجٹ میں نہیں تھا تو پہلا دھچکا لگا۔ پھر فلیٹ کے لیے سامان لینا شروع کیا تو اخراجات معلوم نہیں کیسے بڑھتے ہی چلے گئے اور دھچکے لگتے چلے گئے۔
جب اخراجات حد سے بڑھے تو میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ گھر سے کیسے منگواؤں، وہ تو پہلے ہی مشکل سے مہینے کا خرچہ اور یونیورسٹی کی فیس دیتے ہیں۔ کسی دوست نے مشورہ دیا کہ آنلائن کام کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈو اور پیسے کما لو۔
مشورہ دل کو لگا تو انٹرنیٹ پہ آنلائن کام کھوجنے لگا۔ کھوجتے کھوجتے بہت سے لنک ملے لیکن جس سے بھی بات کی وہ پیشگی پیسے مانگتا تھا۔ میں فراڈ کے ڈر سے سب کو انکار کرتا چلا گیا۔ ایسے میں ایک آنلائن لنک سے ملے نمبر سے رابطہ کیا تو اس نے کہا آپ فکر ہی مت کریں، میں آپ کو بغیر پیسے لیے گروپ میں شامل کر دیتا ہوں۔
اس نے مجھے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈ کر دیا۔ اب ہوتا یوں کہ اس گروپ میں وہ روزانہ بتایا کرتا کہ کس کس ممبر نے کتنا کام کیا ہے اور اس کے کتنے پیسے بن گئے ہیں۔ پھر ان سب کو پیسے بھیجنے کی رسیدیں گرول میں بھیج دی جاتیں۔ گروپ میں صرف ایڈمن ہی میسج کر سکتا تھا۔ اس لیے جس جس کو رسید بھیجی جاتی وہ صرف رسید کو لائیک کرکے پیسے وصول ہونے کی نشاندہی کر دیتا۔
کچھ دن تک میں یہ سب دیکھتا رہا، مجھے یہ کام بڑا خالص اور ٹھیک لگا تو میں نے اس آدمی کو دوبارہ میسج کر دیا کہ میں بھی کام کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بھی کام میں شامل کر لیں۔
اس نے مجھے کال کی اور تفصیل سے بتایا کہ کس طرح لنک دیے جائیں گے، جنھیں روزانہ کھول کر ان کا ڈیٹا کاپی پیسٹ کرنا ہے۔ ایک دن میں جتنا کام کر لیں گے، اتنے پیسے مل جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے پہلے رجسٹریشن ضروری ہے۔
پھر اس نے مجھے رجسٹریشن کا طریقہ کار سمجھایا اور بتایا کہ رجسٹریشن کے لیے دو ہزار روپے بھی بھیجنے ہوں گے۔ مجھے آنکھوں کے سامنے لہراتے ڈالرز نظر آ رہے تھے تو اگلے ہی دن کسی سے ادھار لے کر اسے دو ہزار روپے بھیج دیے اور باقی رجسٹریشن کا طریقہ کار بھی پورا کر لیا۔
اب مجھے کام کے لیے لنک کا انتظار تھا، جسے ملتے ہی میں کام شروع کر دیتا۔ میں نے سوچ رکھا تھا ساری رات جاگ کے بھی کام کروں گا اور جلدی اپنے ادھار اور اخراجات پورے کرنے کے پیسے اکٹھے کر لوں گا۔
دو دن گزر گئے لیکن کام کے لیے لنک نہ آنا تھا نہ آیا۔ میں نے اس شخص کو دوبارہ فون کیا تو اس نے بتایا کہ دو ہزار فیس ہے، اس کے ساتھ پندرہ سو ٹیکس بھی ہوتا ہے۔ وہ دینا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر رجسٹریشن مکمل نہیں ہوتی، اس لیے لنک نہیں آ رہا ہوگا۔
میرا ماتھا ٹھنکا کہ ہاتھ ہوگیا ہے میرے ساتھ۔ میں نے اسے فون کیا اور کہا کہ
"دیکھو میں سٹوڈنٹ ہوں اور پہلے ہی بہت مشکل میں ہوں۔ تمھیں اللہ کا واسطہ ہے میرے ساتھ فراڈ نہ کرنا۔ اتنے سے پیسوں کے لیے اپنا ایمان خراب نہ کرنا"
وہ بولا "آپ نے اللہ کا واسطہ دے دیا ہے تو بالکل بے فکر رہیں۔ مجھے ایمان سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں۔ جتنا آپ کا اللہ پہ یقین ہے، اتنا میرا بھی ہے۔ میں آپ کے ساتھ کسی قسم کا دھوکہ نہیں کروں گا۔ آپ کے ٹیکس کے پیسے ملتے ہی میں آپ کی رجسٹریشن مکمل کرکے آپ کو کام بھجوانا شروع کر دوں گا"۔
اس کی یہ بات سن کر میرے سارے شکوک دھل گئے کہ جو اللہ کی بات کر رہا ہے وہ دھوکہ تو نہیں دے سکتا۔ مجھے اس پہ مکمل اعتبار آ گیا۔
میں نے کسی سے مزید پندرہ سو لے کر اسے بھیج دیے اور رسید میسج کر دی۔ دو گھنٹے گزر گئے لیکن اس کا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ مجھے تشویش ہونے لگی تو پھر سے اسے کال کر دی۔
اس نے کہا میرے پاس پیسے نہیں پہنچے، پہنچتے ہیں تو بتاتا ہوں۔ میں نے دوبارہ رسید بھیج کر کہا کہ میں بھیج چکا ہوں، آپ چیک کر لو۔
اس نے کچھ دیر بعد پھر سے میسج کر دیا کہ
"آپ کے پیسے نہیں پہنچے، آپ ایسا کرو دوبارہ بھیج دو"۔
اب کی بار اس کی بات سن کر میرا دل چاہا کہ میں اپنا سر کسی دیوار میں دے ماروں۔ میرے ساتھ صرف دھوکہ نہیں ہوا تھا، دھوکے کے اوپر مزید دھوکہ ہوا تھا۔ اس شخص نے دو دفعہ مجھے لوٹ لیا تھا اور وہ بھی اللہ کا نام لے کر۔
میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں اور مجھے اپنے اوپر اتنا شدید غصہ آ رہا تھا کہ دل کر رہا تھا اپنے منہ پہ دو چار تھپڑ مار دوں۔ دل میں بار بار یہ شکوہ بھی آ رہا تھا کہ اللہ جی میں نے تو آپ کے نام پہ بھروسہ کر لیا تھا، آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ بات ایسی تھی کہ کسی کو بتا کر بھی اپنا ہی مذاق بنتا، اس لیے چپ سادھ لی۔ بس خاموشی اور پریشانی سے منہ چھپائے ایک کونے میں بیٹھا رہا۔
جانے کتنے ہی گھنٹے ایسے بیٹھے بیٹھے گزر گئے تھے کہ کسی عزیز کا فون آ گیا۔ اسے کچھ کام تھا اور اس نے فون کرکے مجھ سے درخواست کی کہ اس کا کام کر دوں۔ میں اٹھا، موٹر سائیکل تھامی اور نکل گیا۔ آدھا گھنٹہ گزرا ہوگا کہ اسے کام مکمل کرکے فون کر دیا کہ آپ کا کام ہوگیا ہے۔ اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں ہمیشہ کام کہہ دیتا ہوں، آج میرا دل کر رہا ہے کہ کچھ انعام بھی دوں۔ پھر میری بات سنے بغیر ہی فون کاٹ دیا۔
دو لمحے بعد ہی مجھے میسج آ گیا کہ میرے اکاؤنٹ میں دو ہزار روپے بھیج دیے گئے ہیں۔ میں نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولا
"مولا تری شان انوکھی ہے"۔
دکھ کچھ کم ہوگیا تھا لیکن ختم نہیں ہوا تھا۔ خدا نے اچانک اور غیر متوقع طور پہ ہی نقصان کا کچھ ازالہ کر دیا تھا۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوا واپس فلیٹ پہ جا پہنچا۔ وہاں پہنچا تو ایک دوست ملنے آیا ہوا تھا اور میرے ہی انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ مجھ سے ملا اور پھر مجھے تین ہزار روپے تھما دیے۔ میں نے پوچھا یہ پیسے کس چیز کے؟
تو بولا "یاد ہے تم نے فلاں وقت پہ میری مدد کی تھی ادھار دے کر، اب میرے پاس پیسے ہیں تو وہی لوٹانے آیا ہوں"۔
خدا گواہ ہے کہ اس کو دیے تین ہزار تو مجھے یاد بھی نہیں تھے اور جب دیے تھے تو واپسی کی امید رکھ کر دیے ہی نہیں تھے، اس لیے ان کے ملنے کی تو کوئی توقع ہی نہیں تھا۔
میں حیران نظروں سے اسے دیکھے جا رہا تھا اور وہ مجھے بار بار کہہ رہا تھا کہ نہیں انکار مت کرنا۔ مجھے ضرورت تھی تو لے لیے تھے، اب ضرورت نہیں، اسی لیے واپس کر رہا ہوں۔
میں اسے کیا جواب دیتا، مجھے تو اپنی آنکھیں بھیگتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ خدا نے اپنے نام کی لاج رکھی تھی، میں نے اس کے نام پہ بھروسہ کیا تھا اور اس نے میرا بھروسہ رائیگاں نہیں جانے دیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ کیا کروں، کیا کہوں۔
پھر جانے ایک دم کیا ہوا کہ میری آنکھوں سے ڈھیر سارے آنسو بہہ نکلے، میں نے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا دیا اور حیران دوست کو حیران چھوڑ کر خاموشی سے روتا چلا گیا، روتا چلا گیا۔۔
(ایک دوست کے ساتھ پیش آیا سچا واقعہ)۔