August Ka Mahina Aa Chuka Hai
اگست کا مہینہ آ چکا ہے
ہم اسی نسل ہیں جنھیں وطن سے محبت دودھ میں گھول کر پلائی گئی تھی۔ جن کے لیے پاکستان اتنا ہی معتبر اور عزیز تھا جتنے اپنے والدین۔ ہم اس نسل سے ہیں جو سڑک پہ فوجی ٹینک اور گاڑیاں دیکھ کر رک جاتے تھے اور ٹھک سے سیلیوٹ مارا کرتے تھے اور سیلیوٹ والے ہاتھ تب تک نیچے نہیں آتے تھے جب تک آخری ٹینک نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا۔
ہم اس نسل سے ہیں، جن کی شامیں کشمیری بہن بھائیوں پہ ہوتے ظلم کا سوچ کر غمگین ہو جایا کرتی تھیں۔ جو دعا کے لیے جب بھی ہاتھ اٹھاتے، دعا میں کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی سربلندی کی پکار خود ہی چلی آتی تھی۔
ہم اس نسل سے ہیں جن کے بچگانہ ذہن میں پاکستان اور اسلام ایک ہی شے کے دو نام تھے۔ جن کے نزدیک شہادت سے بڑھ کر زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا اور شہادت یہی تھی کہ کشمیر کی آزادی یا پاکستان کی بقا کے لیے بھارت سے جنگ لڑتے ہوئے مر جائیں۔
ہم اس نسل سے ہیں جو پندرہ اگست کی صبح گلیوں میں گری ہوئی جھنڈیاں اٹھانے کے لیے نکلا کرتے تھے۔ ایک ایک جھنڈی کو زمین سے اٹھا کر چومتے اور کسی مقدس صحیفے کی طرح محفوظ کر لیتے۔
اگست کا مہینہ ہمارے سینے پہ پاکستانی پرچم کا بیج سجا رہتا تھا۔ ہمارے گھروں پہ پرچم لہراتا تھا۔ عیدوں کے علاوہ چودہ اگست جن کے لیے ایک تہوار کی حیثیت رکھتا تھا۔ سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھ کر جن کے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔ ملی نغمے سن کر جن کا خون ابلنے لگتا تھا۔
ہم اس نسل سے ہیں جنھوں نے پاکستان سے اندھی محبت کی ہے، جن کے لیے پاکستان کسی معشوق جیسا تھا۔ جو پردیس جا کر بڑھاپے میں ٹھنڈے وجود کو اپنی مٹی کی گرمائش دینے کے لیے واپس نہیں آنا چاہتے تھے بلکہ اپنی جوانی اپنے وطن کے لیے نثار کرنا چاہتے تھے۔
مگر اب۔۔ یہ نسل اس ملک سے فرار ہو رہی ہے۔ جس کا بس چل رہا ہے یہاں سے بھاگ رہا ہے۔ وہ اس وطن سے اتنے مایوس اتنے بیزار ہو گئے ہیں کہ ایک لمحہ یہاں رکنے کو تیار نہیں۔
اگست کا مہینہ آ چکا ہے، گیارہ دن گزر چکے ہیں۔ جشنِ آزادی آنے میں فقط دو دن رہ گئے ہیں لیکن کہیں کوئی جوش و خروش نظر ہی نہیں آ رہا۔ نہ سینوں پہ لگے سبز ہلالی بیج نظر آ رہے ہیں۔ نہ ریڑھیوں پہ چاند ستارے والا پرچم لہراتا نظر آ رہا ہے۔ نہ ہی سپیکروں پہ ملی نغموں کی پکار سنائی دے رہی ہے۔ گلیاں جھنڈیوں سے خالی ہیں، چھتیں سبز ہلالی پرچم سے محروم نظر آ رہی ہیں۔ لوگوں میں اپنے وطن سے محبت بڑی تیزی سے زوال کا شکار ہوئی ہے۔
آپ اسے میرے خراب ذہن کی پیداوار کہہ سکتے ہیں، مجھ پہ غداری کے فتوے لگا سکتے ہیں۔ میرے وطن سے عشق کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں لیکن میں وہی کہہ رہا ہوں جو محسوس کر رہا ہوں۔ یہ محسوسات عمران خان کی گرفتاری کی وجہ سے نہیں ہیں نا ہی نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ سے ہیں۔
مجھے لگتا ہے یہ سب عام انسان کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، جس کی موجودگی میں عام انسان محفوظ اور اپنائیت محسوس کرتا ہے۔ لوگ یہاں اپنے آپ کو محفوظ ہی نہیں سمجھ رہے۔ یہاں ہر روز اتنے المیے جنم لیتے ہیں کہ ان المیوں پہ دل نے دکھنا چھوڑ دیا ہے۔ حادثے عام سی خبر بن کر رہ گئے ہیں۔ لوگ اپنی جان، اپنا مال یہاں محفوظ ہی نہیں سمجھ رہے۔ انھیں معاشی طور پہ کوئی تحفظ حاصل ہے نا سماجی طور پہ۔
صرف زمین کا ٹکڑا وطن نہیں ہوتا، وہاں رائج نظام، وہاں موجود لوگوں سے تعلق اسے ایک وطن بناتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہاں دہائیوں سے رائج تباہ کن نظام نے لوگوں کا ایک دوسرے سے تعلق چھین لیا ہے، اس زمین کے ٹکڑے سے تعلق چھین لیا ہے۔ وہ اس زمین کے ٹکڑے سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے اقدامات کی شدید ضرورت ہے جن میں ریاست عام انسان کو، عام شہری کو اپنائے، وہ عام شہری اس ریاست سے یہاں بسنے والے لوگوں سے دوبارہ کوئی تعلق محسوس کرنا شروع کر دے۔
اللہ کرے کہ پاکستان دوبارہ سربلندی کی طرف سفر شروع کرے، اللہ کرے کہ ہمارے مردہ عشق میں دوبارہ سے جان پڑ جائے۔ اللہ کرے کہ یہاں موجود قبضہ گروپ کا جبر اپنے اختتام کو پہنچے، ظلم انجام کو پہنچے۔ پاکستان دنیا پہ راج کرے، ہم سبز ہلالی پرچم کو بلندیوں پہ لہراتا دیکھیں اور اسے دیکھ کے ہمارے سینے میں ٹھنڈ پڑے۔