Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Naveed Khalid Tarar
  4. Agent Mafia Aur Pardes Ke Dukh

Agent Mafia Aur Pardes Ke Dukh

ایجنٹ مافیا اور پردیس کے دکھ

"ڈھائی سو لوگوں کا کھانا بنانا ہوتا تھا، دن میں دو بار، ڈھائی سو لوگوں کا۔

کھانا بنانے والا میں اکیلا تھا لیکن میں خوش تھا کہ خدا نے روزگار دیا ہے۔ بہت محنت کرنی پڑتی تھی لیکن میں نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا، کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔

پوری محنت اور دیانت داری سے اپنا کام کرتا تھا، اچھا کھانا بناتا تھا۔ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا، کبھی کسی نے معیار پہ، ذائقے پہ انگلی نہیں اٹھائی"۔

ہم مکہ مکرمہ میں صحنِ حرم کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں یہاں عمرہ کرنے آیا ہوا تھا اور وہ مزدوری۔ ہم دونوں کا ملنا اتفاق تھا اور پھر اس اتفاق نے مجھے اس کی کہانی سننے کا موقع دے دیا تھا۔

"میں اپنی محنت سے خوش تھا، اتنا خوش کہ میں نے اس ایجنٹ کو بھی معاف کر دیا تھا جس نے مجھ سے کئی جھوٹ بولے تھے، جس نے مجھ سے اس نوکری کے گیارہ ہزار ریال لے لیے تھے اور ان گیارہ ہزار ریال میں اقامے کی فیس نہیں تھی، کفیل کا خرچہ نہیں تھا۔ یہ سب مجھے یہاں آ کر پتا چلا تھا لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے پائی پائی جوڑ کر پیسے اکٹھے کیے ہوئے تھے، پھر بھی گیارہ ہزار ریال نہیں بنتے تھے۔ بس پھر جاننے والوں سے ادھار لیا اور گیارہ ہزار ریال پورے کرکے ایجنٹ کو دے دیے۔ اس نے کہا تھا اقامہ اور کفیل کے سب معاملات اسی گیارہ ہزار میں شامل ہیں۔

یہاں آیا تو پتا چلا، اس نے جھوٹ بولا تھا۔ بس آزاد ویزہ تھا اور اس پہ یہ کھانا پکانے کی نوکری۔ اب اگر میں کفیل اور اقامے کا بندوبست کرتا تو نو ہزار ریال اور دینے پڑ جاتے۔

اس سب کے باوجود میں نے اس ایجنٹ کو معاف کر دیا تھا کہ چلو نوکری تو مل گئی نا مجھے۔ اب میں جی جان سے محنت کرکے اس نوکری میں اپنا مقام بنانا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا، اپنا قرضہ اتاروں، پھر پیسے جوڑ کر اقامے اور کفیل کے معاملات پورے کروں اور پھر گھر پیسے بھیجنا شروع کروں"۔

اتنا کہہ کر وہ چپ ہوگیا، اس کے لہجے میں شکستگی اور چہرے پہ تکلیف ابھر آئی تھی، معلوم نہیں کون سی کڑوی یاد ذہن کے دریچے میں گھس آئی تھی۔ رحیم یار خان کے پاس کسی چھوٹے سے گاؤں سے پیسے کمانے کے لیے سعودیہ آنے والا وہ مزدور چپ ہوگیا تھا۔ یہاں آتے ہوئے وہ آنکھوں میں سہانے سپنے سجا کر آیا تھا لیکن اب آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ پردیسی کچھ لمحے ایسے ہی چپ بیٹھا خلا میں گھورتا رہا، پھر بولا۔۔

"میں خوش تھا، اس لیے کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ نوکری کرتے تین مہینے ہو گئے تھے اور میں نے اس نوکری کو ان تین مہینوں میں اپنے آرام اور آسائش کا ہر لمحہ دے دیا تھا اور تین مہینے بعد انھوں نے کہا کہ چلو تمھاری نوکری ختم، اب تم چھٹی کرو۔ یہ بات میرے لیے تو کسی قیامت کے ٹوٹنے جیسی ہی تھی۔ میں تو اس نوکری کو اپنی زندگی کا محور بنا کر شکرانے کے نفل بھی پڑھ چکا تھا۔ پیسے اکٹھے کرکے کئی کام کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا اور وہ کہنے لگے کہ تمھاری نوکری ختم۔۔

انھوں نے کہا کہ یہ نوکری تو تمھاری تھی ہی نہیں، جس کی تھی وہ تین مہینے کی چھٹی پہ گیا تھا۔ اس لیے ہم نے اس ایجنٹ سے تین مہینے کے لیے کسی بندے کو بھیجنے کا کہا تھا۔ اب اصل بندہ واپس آ رہا ہے تو ہمیں تمھاری ضرورت نہیں رہی۔ میں نے بہت احتجاج کیا لیکن میری کون سنتا اور کیوں سنتا"۔

اس کی آواز سے بیتے لمحات کا دکھ چھلک رہا تھا۔ شائد لہجے میں نمی بھی ہو جو اردگرد کے شور میں دب کر محسوس نہ ہو رہی ہو۔

"کسی کے ساتھ ایسا ظلم کون کرتا ہے بھائی۔ اس ایجنٹ نے مجھ سے پیسے لے لیے، مجھے کمپنی کا ویزہ کہہ کر آزاد ویزے پہ بھیج دیا لیکن نوکری تو پکی دیتا نا۔ یا مجھے بتا تو دیتا کہ یہ تین مہینے کی نوکری ہے بس۔

میرے پاس تو اور کچھ بھی نہیں تھا۔ میں تو پردیس میں بے یارو مددگار اور بے گھر ہوگیا تھا۔ اس ایجنٹ نے میرے ساتھ بہت ظلم کر دیا تھا۔

میں نے پھر سعودیہ میں اور کوئی نوکری ڈھونڈنے کی کوشش شروع کی۔ ایجنٹ کہتا تھا وہاں نوکریوں کی بھرمار ہے، تمھیں کبھی نوکری کا مسئلہ ہی نہیں ہوگا۔ میں بہت مارا مارا پھرا لیکن مجھے آزاد ویزہ پہ کوئی نوکری نہیں ملی، کوئی ایک نوکری بھی نہیں ملی۔ میں سعودیہ کے دوسرے شہروں میں بھی پھرتا رہا لیکن روزگار کا کوئی وسیلہ نہیں بنا ہی نہیں۔ میرے پاس تو یہاں سے واپس جانے کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو میں واپس کیا منہ لے کر جاتا، میرا تو ابھی پورا قرضہ بھی نہیں اترا تھا۔ واپس پاکستان میں بھی کون سی دولت، کون سی نوکری میرے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے بہت مشکل وقت گزارا، بہت خواری سہی، لوگوں کی منتیں کیں، لیکن کہیں نوکری کا کوئی بندوبست ہوا ہی نہیں۔

پھر مجھے کسی نے بتایا کہ یہاں عمرہ کرنے کے بعد جب لوگ باہر نکلتے ہیں تو انھیں بال کٹوانے ہوتے ہیں۔ بال کاٹنے کے لیے کلاک ٹاور کے ساتھ والی بلڈنگ میں بہت سے نائی دکانیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سب نے اپنے لوگ بھیجے ہوتے ہیں جو بال کٹوانے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی دکان پہ لے جاتے ہیں اور پھر ہر گاہک کے بدلے دکان دار سے اپنا کمیشن لیتے ہیں۔ مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ یہی کام شروع کر لو۔

میں جانتا تھا کہ اس میں مجھے کسی کمپنی کا ویزہ نہیں ملے گا، نہ ہی میں یہاں زیادہ عرصہ قانونی طور پہ رہ پاؤں گا کیونکہ میرا ایک سال کا آزاد ویزہ تو ختم ہو جائے گا لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ اس لیے میں نے یہی کام شروع کر دیا۔

اب سارا دن یہاں صحنِ حرم کے باہر کھڑا رہتا ہوں اور ہر آنے والے سے پوچھتا رہتا ہوں بال کٹوائیں گے کیا، بال کٹوائیں گے کیا۔ بس جتنے لوگ مل جائیں، شام کو اتنا کمیشن اکٹھا ہو جاتا ہے۔ شام کے بعد یہاں پولیس والے زیادہ گہری نظر رکھتے ہیں تو ہم یہ کام نہیں کر پاتے، اس لیے یہانتک سے واپس چلے جاتے ہیں۔ بھائی دھوپ دیکھی ہے نا آپ نے؟ یہاں ایسی قیامت خیز دھوپ میں ہم سارا دن کھڑے لوگوں سے بال کٹوانے کا پوچھتے رہتے ہیں، پاؤں شل ہو جاتے ہیں لیکن اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔

آئیں، آپ کو کچھ دکھاتا ہوں "اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور ساتھ لے کر چل دیا۔ یہ مغرب اور عشاء کا درمیانی وقت تھا۔ چاروں طرف رات کے اندھیرے مٹانے کے لیے روشنیاں ہی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ عمرہ کرنے والے ڈھیروں لوگ احرام باندھے ہمارے پاس سے گزر رہے تھے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر واش روم نمبر چھ کی پچھلی طرف چلا گیا۔ وہاں لوگ تھے، بہت سے لوگ۔ لیکن یہ عمرے کے لیے آئے نہیں لگ رہے تھے۔ مزدور طبقہ، پرانے کپڑوں اور اترے چہروں کے ساتھ زمین پہ لیٹے ہوئے ڈھیر سارے لوگ۔

وہ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگا "یہ سارے ایسے ہی آزاد ویزہ پہ آ کر یہاں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ سارا دن کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شام کو یہاں سو جاتے ہیں۔ نہ ان کے پاس رہنے کو گھر ہے نہ کھانے کا کوئی مستقل ذریعہ۔ یہاں کئی جگہوں پہ مفت کا لنگر بانٹا جاتا ہے، یہ سب وہاں جا کر کھانا کھا لیتے ہیں اور رات یہاں گزار کر اگلے دن پھر کام ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے ہی ایجنٹس کے دھوکے کھا کر آئے ہوئے ہیں۔ ایجنٹ انھیں ورغلاتے ہیں کہ آزاد ویزہ لے کر سعودیہ چلے جاؤ، وہاں نوکریاں ہی نوکریاں ہیں۔ یہاں آ تو جاتے ہیں لیکن نوکری کوئی نہیں ملتی۔ ان میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے ویزہ ختم ہوئے مدت ہو چکی ہے، لیکن ان کے پاس واپس جا کر کرنے کو کچھ نہیں۔ اس لیے بس یہیں کام کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جس دن پکڑے گئے، اس دن ڈی پورٹ کر دیے جائیں گے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس بھیج دیے جائیں گے لیکن پھر بھی چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہاں سے کچھ کما کر، کچھ جوڑ کر اپنے ساتھ لے جائیں"۔

اب اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا یا شائد کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن ہمت جواب دے گئی تھی، اس لیے چپ ہوگیا۔ ان پردیسیوں کا دکھ ہم دونوں محسوس کر رہے تھے اور اس پردیسی کے اپنے دکھ بھی۔

صحنِ حرم میں عشاء کی ازان کی صدا بلند ہونے لگی تھی۔ ہم دونوں چپ چاپ اذان سنتے رہے اور پھر بغیر کچھ کہے دھیمے قدموں سے ساتھ بنی مسجد کی طرف چل دیے۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari