Zuban Par Qudrat, Zuban Ke Pooore Aalam Ki Hai
زبان پر قدرت، زبان کے پورے عالم کی سیر ہے

جب تک نام موجود ہیں، چیزوں کو حیات ابدی حاصل ہے۔
جنھیں نام نہیں ملے، وہ فنا کے ایک ہی تیز جھکڑ میں، تنکے کی مانند معدوم ہوگئیں۔
لیکن، رسول، میرے شاعر، ابدیت پانے کے بعد چیزوں پر کیا گزرتی ہے؟
نام، چیزوں کو ابدی تو بناتے ہیں، مگر اس کی ضمانت نہیں دیتے کہ ابدی حیات، بہشت ہوگی یا دوزخ۔
کون نہیں جانتا کہ کچھ نام ابدی سزا کے طور پر باقی رہتے ہیں اور کچھ دائمی قدرو منزلت کے طور پر۔
کچھ چیزیں، نام پاتے ہی، پھانسی پر لٹک جاتی ہیں۔ قرن بیت جاتے ہیں کوئی ان کے گلے سے طوق نہیں اتارتا۔
کچھ چیزیں، نام پاتے ہی، بہشت بریں میں پہنچ جاتی ہیں۔ اس بہشت میں داخل ہونے کا دروازہ ہوتا ہے، نکلنے کا نہیں۔
لیکن رسول، میرے پیارے شاعر، کون کہہ سکتا ہے کہ ابدی پھانس بڑی سزا ہے یا فصیل بند بہشت کی قید۔
نام کی دی ہوئی ہر شناخت، بالآ خر ایک قید کیوں بن جاتی ہے؟
کچھ قید خانے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان میں آدمی کھڑا ہو سکتا ہے نہ سو سکتا ہے۔
کچھ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ اس کی دیواریں نظر نہیں آتیں، بس ایک بے کنار نیلی چھت، تنی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
آدمی کو اگر ان دونوں میں ایک قید خانے کا انتخاب کرنا ہو تو اسے چھوٹے قید خانے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ جب چھت سر سے اور دیوار پاؤں سے بار بار ٹکرائے گی تو آدمی اس قید خانے کی چھت توڑنے، دیوار میں شگاف ڈالنے یا زیر زمین سرنگ بنانے کا فیصلہ کرے گا۔ وہ قیدی کی زندگی بسر کرنے سے انکار کرے گا۔
بڑے قید خانے، آدمی کو قید کا عادی بنادیا کرتے ہیں۔
کچھ تو بھول ہی جایا کرتے ہیں کہ وہ قید میں ہیں۔
جنھوں نے آزاد فضا دیکھی ہو نہ اس کی کوئی کہانی سنی ہو، انھیں کہاں احساس ہوتا ہے کہ وہ قید میں ہیں۔
زبان کی دی ہوئی شناخت، ایک بڑا قید خانہ ہے۔ اس کا احساس اسی کو ہوتا ہے جو زبان کے پورے عالم کی سیر کرتا ہے۔
لیکن رسول، میرے عزیز، زبان کے پورے عالم کی سیر کون کر سکا ہے؟
شاعر زبان پر قدرت کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ اسے شاعرانہ مبالغہ ہی سمجھو۔
وہ چند ہزار الفاظ پر قدرت کو، زبان پر قدرت کہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ بچوں کا ایک کھیل کھیلتے ہیں، جس میں مختلف رنگوں کے چوکور ڈبوں سے مختلف شکلیں بنائی جاتی ہیں۔
زبان پر قدرت، زبان کے پورے عالم کی سیر ہے۔ الفاظ اور ان کی ترتیب، اس عالم کا فقط ایک جزیرہ ہے۔
زبان کے قوانین، قواعد، رسمیات، ایک دوسرا جزیرہ ہے۔ زبان، محدود آوازوں اور چند لاکھ الفاظ سے، کروڑں جملے اور اس سے زیادہ معانی کیسے وضع کرلیتی ہے، یہ ایک براعظم ہے۔
زبان، کس طرح، اسی دنیا سے کٹ جاتی ہے، جس دنیا نے اسے پیدا کیا اور پھر ایک اپنی نئی، خود مختار دنیا بنالیتی ہے اور پھر اس میں لوگوں کو باقاعدہ رہنے بسنے کی مکمل فضا اور سہولتیں مہیا کرتی ہے، یہ زبان کے عالم کا ایک اور براعظم ہے۔
زبان یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ دنیا کی ترجمانی کرتی ہے اور وہ ایک غیر جانب دار ترجمان ہے، مگر بعد میں کھلتا ہے کہ زبان ڈنڈی مارتی ہے۔ وہ مکمل جانب دار ہوا کرتی ہے، وہ دنیا کے نام پر اپنی ہی ترجمانی کرتی ہے، وہ دنیا کے عکس جمع کرکے، اپنی دنیا کے نقش و نگار بناتی ہے اور پھر انھیں ایک اپنی، مکمل دنیا میں بدل دیتی ہے۔
رسول، میرے دلارے شاعر، اب بتاؤ، کون زبان کے اس عالم کی سیر کرسکا ہے اور اس پر قدرت حاصل کرسکا ہے؟
بجا کہ میری زبان کی حد، میری دنیا کی حد ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میری زبان کی حد، میرے قید خانے کی حد بھی ہے۔
رسول، سوال یہ ہے کہ کیا اس بڑے قید خانے سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے؟
(زیر اشاعت: "میرا داغستانِ جدید" سے اقتباس)

