Tahar Ben Jelloun, Circus Aur Mary Ann Bevan
طاہر بن جیلون، سرکس اور میری این بیون
ہم سب کی زندگیوں میں اتفاقات ہوتے ہیں۔ عجب، انوکھے، پراسرار۔ وہ روزمرہ کی منطق کو شکست دیتے ہیں مگر خود اپنی ایک منطق رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے، دوسروں کے لیے اتفاقات کی منطق کی اہمیت نہ ہو، مگر متعلقہ شخص کے لیے ہوتی ہے۔
چند روز پہلے طاہر بن جیلون کے ناول "ریت کا دروازہ" پڑھا۔ ناول میں مرکزی کردار کے باپ کو یہ ڈر ہے کہ اگر اس کی اولاد نرینہ نہ ہوئی تو اس کا بھائی، اس کی آنکھ بند ہوتے ہی اس کی جائیداد پر قابض ہوجائے گا۔ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ تقدیر اس کے مقاصد کے سلسلے میں بے رحم ہے تو وہ خود بھی بے رحم ہوجاتا ہے۔
اپنی آٹھویں بیٹی کی پیدائش پر اعلان کرتا ہے کہ بالآ خر اسے اپنا وارث مل گیا ہے، یعنی بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس راز کا علم اس کی بیوی، دائی اور اسے ہوتا ہے۔ اسے احمد کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ختنوں کا ناٹک بھی کامیابی سے کھیلا جاتا ہے۔ احمد کی زندگی میں کئی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سب واقعات کا تعلق، والد کی طرف سے مسلط کردہ شناخت کے کرب، اور اس سے عہدہ برا ہونے سے ہے۔
وہ اپنے آخری ایام ایک سرکس میں گزارتا/گزارتی ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے مرد بن کرتماشائیوں کے سامنے آئے گا، پھر پانچ منٹ بعد عورت بن کر۔ اصلی عورت، زہرا کے نام سے۔ وہ اپنے جسم کے بعض حصوں کی بھی تھوڑی بہت نمائش کرے گی۔ گویا سرکس میں وہ پہلے اپنے والد کی مسلط کردہ شناخت، اس کے بعد فطرت کی شناخت کی رونمائی کرے گی۔
وہ لوگوں کو باور کرائے گی کہ وہ مرد بھی ہے اور عورت بھی! یعنی ایک عجوبہ۔ تضادات سے بھرپور۔ وہ ڈرامے اور حقیقت کا فرق مٹائے گی، یا لوگوں کو یقین دلائے گی کہ ڈرامے اور حقیقت میں بال برابر فرق ہوتا ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ آج ایک دوست نے مجھے میری این بیون سے متعارف کروایا، جس نے "دنیا کی بدصورت ترین خاتون" کے مقابلے میں حصہ لیا، مقابلہ جیتا، اور سرکس کے سائیڈ شو اور فریک شو میں کئی برس کام کیا۔ اس اتفاق کی ایک منطق ہے۔ اس منطق کا دوسرا نام "سرکس" ہے۔
طاہر بن جیلون کی احمد/ زہرا اور برطانیہ کی میری این بیون میں سرکس مشترک ہے۔ ایک فکشنی کردار اور ایک حقیقی شخصیت میں سرکس کا مشترک ہونا، ایک عام سی بات نہیں ہے۔ کم از کم میرے لیے۔
لیکن سوال یہ ہے کیا سرکس صرف ان دو عورتوں میں مشترک ہے؟
اگر آپ نے واقعی سرکس دیکھ رکھی ہے تو آ پ اتفاق کریں گے کہ سرکس، ابسرڈ تھیئٹر ہی کی مانند، ہماری دنیا کے لیے سب سے مانوس چیز ہے۔
ہم دنیا کی اصل کا بہت کم علم رکھتے ہیں۔ پھر جو علم رکھتے ہیں، وہ بھی مسخ شدہ ہوتا ہے۔ ہم میں ایک ازلی کاہلی ہے، جس کا فائدہ مقتدرہ اٹھاتی ہے، اور ہمیں اپنے وضع کردہ سچائیوں کا کنزیومر بناتی ہے۔ ہم اپنی اور اپنی دنیا کی اصل کے بہت سے حصوں سے غافل یا منکر یا لاتعلق رہتے ہیں، سرکس ہمیں انھی کے روبرولاتی ہے۔
کبھی کبھی پردہ ہٹ جاتا ہے، اور دنیا خود ایک سرکس بن جاتی ہے۔ ایک پورا ملک، سرکس کا پنڈال بن جاتا ہے۔ آپ بڑے بڑے فنکاروں کی پرفارمنس، سدھائے ہوئے، خوں خوار جنگلی جانوروں کے وہ کرتب جن میں وہ اپنی جبلت کو مسخ کرتے ہیں، مسخروں کی اچھل کود، غازہ ملے لڑکوں، خواجہ سراؤں کے بے ہنگم مگر شہوت انگیز رقص، اور ورطہ حیرت میں ڈالنے والی فضائی قلابازیاں، یعنی ایرو بیٹکس کے کمالات۔ بس اس سب کو استعارہ بنا لیجیے۔ لیکن یہ سب آپ کو مفت دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آ پ کو ایک معاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہ آ پ اپنی سائیکی کا ایک حصہ، اس سرکس کے لیے مختص کریں گے، اور ضرورت پڑنے پر کوئی کردار بھی ادا کریں گے۔
سرکس زندگی میں اس وقت ضرور ظاہر ہوتی ہے، جب زندگی حقیقت میں ابسرڈ ہوجایا کرتی ہے۔ یہی کچھ میری این بیون کے ساتھ بھی ہوا۔
میری این بیون 1874 میں مشرقی لندن میں پیدا ہوئیں۔ نرس کا پیشہ اختیار کیا۔ طامس بیون سے شادی تک وہ ایک پر کشش یورپی خاتون تھیں۔ چار بچوں کی ماں بنی۔ 1914ء میں ان کے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا۔ مگراس سے بڑا صدمہ باقی تھا۔ اچانک ایک بیماری کی زد پر آئیں، جس کا علاج اس زمانے میں دریافت نہیں ہوا تھا۔ اسے طب کی اصطلاح میں Acromegaly کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ کبر الجوارح کیا گیا ہے۔
اس بیماری میں ہارمونز میں عجب تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ایک بالغ آدمی، بچے کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے، جب اس کی ہڈیاں اور اعضا بڑھنے لگتے ہیں۔ چناں چہ میری این بیون کے چہرے، ہاتھوں، پاؤں اور باقی جسم کی ہڈیاں بڑھ گئیں اور اس کی صورت کچھ ایسی ہوگئی، جیسی کئی کہانیوں میں عفریتوں کی دکھائی گئی ہے۔
انھی دنوں، جب اس کا خوبصورت جسم ایک عفریت کی صورت اختیار کرگیا تھا، اس کی نظر سے ایک اشتہار گزرا۔ اشتہار دنیا کی بدصورت ترین عورتوں کے مقابلے سے متعلق تھا۔ ہم نے حسینہء عالم کے انتخاب کے مقابلے سنے اور دیکھے ہیں، مگر "قبیحہءعالم" کا مقابلہ، وہ بھی یورپ میں، آدمی کو عالم حیرت میں ڈالتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس مقابلے کو کسی سیاہ فام نے جیتا ہوگا مگر یہ دیکھ کر حیرت مزید بڑھ گئی کہ یہ مقابلہ میری این بیون نے جیتا۔ ایک سفید فام، گوری، یورپی عورت، عالم کی بد صورت عورتوں میں پہلے نمبر آئی۔
آپ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے تالی ضرور بجایئے جو حسن اور قبح، دونوں کو قابل فروخت شے میں بدلنے کی معجزاتی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہر مقابلہ تفریح، تماشے، عبرت اور دولت کا عجیب وغریب امتزاج ہوتا ہے۔ یہ مقابلہ بھی اس زمانے کے برطانوی اور امریکی سرکسوں کے سائیڈ شو کے لیے عجیب الخلقت انسانوں کو مہیا کرنے کا مقصد رکھتا تھا۔ ہم سب نے اپنے یہاں بھی ایسے سائیڈ شو دیکھے ہیں جس میں چہرہ عورت کا، اور باقی دھڑ مچھلی کا دکھا یاگیا ہوتا ہے۔ یا دوسروں والا کوئی انسان، یا بڑھے ہوئے سر کا آدمی۔
میری این بیون نے کئی برس برطانیہ اور امریکا کے سرکسوں کے سائیڈ شو میں کام کیا۔ محض اپنے چار بچوں کی پرورش کی خاطر۔ اس نے تقدیر کی پھٹکار کو اپنے لیے ایک موقعے، کے طور پر قبول کرلیا۔ اس کے لیے سرکس، ہسپتال ہی کی مانند تھی، جس میں وہ بطور نرس کام کرتی رہی تھی۔ اس فرق کے ساتھ کہ ہسپتال میں اسے اپنی کارکردگی پرتحسینی کلمات سننے کو مل جایا کرتے تھے، مگر یہاں صرف طنز، تمسخر، تضحیک۔
لوگ اس سچ کو مشکل سے قبول کرتے ہیں کہ دوسروں کی حقارت آمیز تضحیک سے آدمی، واقعی تفریح پاتے یعنی خوش ہوتے ہیں، اور ان کے دلوں میں، دوسروں کی تکلیف کا معمولی سا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ آدمی کے دماغی خلیوں میں Mirror neurons ہیں، جو باہر کی دیکھی دنیا کا عکس پیدا کرتے ہیں، اور جن کے سبب آدمی دوسروں کی حالتوں کو اپنی حالت بنا لیتا ہے۔ مگر سرکس کے سائیڈ شو میں یہ خلیے کام نہیں کرتے۔ آدمی، عام طور پر ان کے عجیب الخلقت ہونے کو تو محسوس کرتا ہے مگر ان کی ذلت اور بے چارگی کو نہیں۔
میری یہ سب ذلت، تحقیر، تضحیک اس لیے خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتی تھی کہ وہ اپنے سینے میں دلِ مادر کی لو کو روشن رکھتی تھی۔ شروع کے کئی سال، وہ ایک ماں کے دل کے ناقابل تسخیر ہونے کی علامت بنی۔ اس نے ثابت کیا کہ ماں، اپنے بچوں کی خاطر مشقت ہی نہیں ذلت اور حقارت بھی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ تاہم ایک عجب واقعہ یہاں بھی ہوا، جب اس کے سینے میں عورت کا دل ایک بار دھڑکا۔ اسے زرافے کا خیال رکھنے والے ایک مرد سے محبت ہوگئی۔ اس نے سرکس چھوڑ دی۔ اس نے چہرے کی بد صورتی کو غازے سے چھپانے کی کوشش کی مگر مزید مضحکہ خیز ہوگئی۔ وہ واپس سرکس کی دنیامیں لوٹ گئی۔ 1934 میں اس کا انتقال ہوا۔
جو ایک بار سرکس کی دنیا کا حصہ بنتا ہے، وہ لوٹ نہیں سکتا۔ طاہر بن جیلون کااحمد یا زہرا بھی سرکس سے واپس نہ آسکی، نہ میری این۔
کیا ہم اس وقت کے سرکس سے واپس کبھی آ سکیں گے؟