Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Shikasta Dil Ki Do Sadayen Hoti Hain

Shikasta Dil Ki Do Sadayen Hoti Hain

شکستہ دل کی دو صدائیں ہوتی ہیں

وہ آخری بارچھ ماہ پہلے مجھے ملا۔ ان دنوں وہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے مسخرے کا کردار اپنائے ہوئے تھا۔ اس بار میں نے ا س کے رویے میں بے اعتنائی محسوس کی۔ اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ صرف تقریریں کرتا ہے۔ وہ مجھ سمیت سدا کے ان سب شاعروں کو بر ابھلا کہتا ہے جن کی نظمیں عام لوگ پڑھتے ہیں اور سدا سے باہر جنھیں سراہا جاتا ہے۔

وہ لوگوں کا مجمع اکٹھا کرتا ہے، پہلے انھیں کوئی لطیفہ سناتا ہے، انھیں ہنساتا ہے۔ اس کے بعد اپنی نظمیں گاتا ہے، پھر میری اور دوسرے شاعروں کی نظموں کے ٹکڑے مسخرانہ انداز میں پڑھتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ دیکھو، یہ سب تمھیں بے وقوف بناتے ہیں۔

یہ ماسکون، لندن، پیرس جاتے ہیں، وہاں کے شاعروں کی نظموں کے ترجمے آوارمیں کرتے ہیں۔ تم معصوم ہو، تم نے سدا سے باہر کی دنیا دیکھی ہی کہاں ہے۔ تم ایک کنویں میں رہتے ہو۔ کنویں کے مینڈک کو باہر کے کچھووں کے قصے زیادہ لبھاتے ہیں۔ کنویں کا مینڈک ہونا برا نہیں ہے۔

دنیا میں کون ہوگا جو اپنے گھر کو، خواہ کتنا ہی وہ چھوٹا، کتنا ہی تاریک ہو، اسے برا کہے گا۔ لیکن کنویں کے مینڈک کو سمجھنا چاہیے کہ جو مینڈک اس کنویں سے نکل کر سمندری کچھووں سے جا ملتا ہے اور ان کے قصے، اپنے قصے بنا کر پیش کرتا ہے، وہ ان سے غداری کرتا ہے۔

اور لوگ اس کی باتیں ماننے لگے ہیں۔ میں نے جس بے اعتنائی کو چھ ماہ پہلے اس کے یہاں محسوس کیا تھا، وہ سدا کےکچھ لوگوں میں بھی مجھے محسوس ہونے لگی ہے۔ کل تک جو لوگ میری نظموں کو اپنی تنہائی میں گنگنایا کرتے تھے، وہ اپنی سادگی پر پچھتاتے ہیں اور مجھے اپنی دھرتی سے بے وفائی کا مرتکب تک قرار دیتے ہیں۔

میں نے بہت گالیاں سنی ہیں۔ اکثر نظر انداز کردیتا ہوں، لیکن اگر کوئی مجھے ماں کی گالی دے تو میں بھول جاؤں گا کہ میں ایک شاعر ہوں، میں قلم پھینک کر خنجر اٹھالوں گا اور اس کی زبان کاٹ ڈالوں گا۔ اپنی دھرتی سے غداری، مجھے اپنی ماں کی گالی سے بھی بڑی گالی لگتی ہے۔ میری ماں نے تومجھے اور میرے بھائی بہنوں کو جنم دیا ہے، لیکن داغستان نے تو اب تک کروڑوں لوگوں، پرندوں، جانوروں، حشرات، درختوں اور خود میری ماں کو جنم دیا اور پالا ہے۔

جس وقت پہلی بار میں نے یہ الزام سنا، میں پہلے مشتعل ہوا۔ میر اجی چاہا، میں ابھی اسے مجمع میں گریبان سے پکڑوں اور اس پر گھونسوں کی بارش کردوں اور ابوطالب سمیت داغستان کے سب معتبر لوگوں سے کہوں کہ وہ اسے کہیں کہ ثابت کرے کہ میں نے کہاں غداری کی ہے۔ کچھ دیر بعد میرا غصہ فرو ہوا تو مجھے اس پر رحم آیا۔

میں نے سوچا کہ اسے شاعری کرنا آئی، نہ گلوکاری، نہ اداکاری، مگر مسخراپن اور تقریر کا فن آگیا ہے۔ وہ اب مجھ سے نہیں ملتا، وگرنہ میں اسے بتا تا کہ اب وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، ایک شکستہ اور شکست خورہ دل سے کہہ رہا ہے۔ میں اسے کہتا کہ کاش، وہ اتنا سمجھ لے کہ لوگ اس کی باتوں کو کیوں ماننے لگے ہیں؟ میں اسے اپنے ایک چرواہے دوست کا قصہ ضرور سناتا۔

میرے ایک چرواہے دوست کے پاس دوتارہ تھا۔ وہ روز شام کوسورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ پہلے، ایک ندی کے کنارے، اس جگہ بیٹھ کر دوتارہ بجاتا، جہاں سورج کی سنہری کرنیں ندی کے پانی میں لرز رہی ہوتیں اور یوں لگتا، جیسے ندی نہیں، پگھلا سونا بہہ رہا ہو۔ وہ کہتا کہ وہ پورا دن بھیڑیں چراتا ہے۔

بھیڑوں کے سوا کسی سے بات کا موقع نہیں ملتا۔ سہ پہر کو اس کا دل بندہوتا محسوس ہوتا ہے۔ وہ بھیڑوں کو گھر پہنچا کر ندی کنارے پہنچتا ہے اور دوتارے کے ذریعے، پورے سدا سے، سدا کے سورج، سدا کے آسمان سے بات کرتا ہے۔ ایک بار اس کے دوتارے کا ایک تار ٹوٹ گیا۔ اس نے اپنا دل ٹوٹا ہوا محسوس کیا۔

سدا میں سازوں کی مرمت کی ایک دکان موجود تھی، مگر کم از کم دو دن، اسے دوتارے کو دکان پر چھوڑنا پڑتا۔ یہ اسے قبول نہیں ہوا۔ اس نے اپنے ٹوٹے دل کے ساتھ ٹوٹے ہوئے ساز کو بجایا۔ اس نے مجھے پر جوش انداز میں بتایا کہ اس روز، اس نے کچھ پرندوں کو اپنے آس پاس دیکھا جو اس ساز کی موسیقی سننے میں محو تھے۔ رسول، میں ایک چرواہا ہوں، میں کبھی سدا سے باہر نہیں گیا۔ میں بس آوار کے شاعروں کی محفلوں میں جاتا ہوں۔

کتابیں بھی پڑھ نہیں سکتا، کچھ لوگوں سے بس انھیں سنا ہے۔ مگر میرے دوست، رسول، مجھ پر اس روز کھلا کہ ٹوٹا ہوا دل، ایک تار، ایک لفظ، ایک بول، ایک صدا میں بھی اپنا مکمل اظہار ہی نہیں کر لیتا، بلکہ ان سب کو بھی بدل دیتا ہے۔

لیکن میں اپنے ناکام و شکست خورہ شاعر کو بتانا چاہتا ہوں کہ ٹوٹے ہوئے دل کی دو صدائیں ہوتی ہیں۔ ایک اس دل کی اپنی، خالص صدا۔ اس صدا میں دل پر گزرنے والی حالت یا قیامت سمائی ہوتی ہے۔

یہ اپنے لیے زبان سے موزوں ترین الفاظ کسی کاوش کے بغیر منتخب کرلیتی ہے اور ان میں ایک عجب برق بھر دیتی ہے۔ پہلے یہ لفظ سب دنیا کے ہوا کرتے ہیں، اب یہ صرف اس شکستہ دل کی ملکیت ہوجاتے ہیں، جیسے اسی کے لیے وہ بنے ہوں اور صدیوں سے، اس دل کی صدا کے منتظر رہے ہوں۔

میں اسے یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صدا اپنے راستے کے سب کنکر، کانٹے، دیواریں، پتھر خود ہٹاتی چلی جاتی ہے۔ یہ راست سینوں، زمانوں اور سیدھی آسمانوں کی طرف پہنچ جایا کرتی ہے۔

شکستہ دل کی دوسری صدا، آدمی کی اپنی ناکامیوں کی بازگشت ہوتی ہے۔ شکستہ دل آدمی، اکثر پہلی صدا میں دوسری صدا کی آمیزش کر لیا کرتا ہے۔ وہ سچ میں دروغ ملالیتا ہے۔ دروغ ملا سچ، خالص دروغ سے زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے۔ ہر وہ چیز خطرناک ہوتی ہے، جو لوگوں کے دلوں میں اس لمحے وہم اور تذبذب پیدا کرے، جب وہ سچ کے لیے متوجہ اور مضطرب ہوں۔

میں اس شکستہ دل شاعر سے یہ بھی کہنا چاہتاہوں کہ ہرشکستہ دل کو اپنی شکستگی کا اظہار کرنے کا حق ہے، دوسروں سے، اپنی ناکامیوں کے انتقام لینے کا نہیں۔ شکستہ دل سے نکلی ہوئی ہر بات، خواہ وہ کتنی ہی جھوٹی ہو، لوگوں کو ہم نوا بنا لیا کرتی ہے۔ لیکن مجھے سدا کے لوگوں پر رحم آتا ہے، جنھیں یہ بات دیر سے سمجھ آئے گی کہ ہر جھوٹی بات کا ایک بوجھ ہوتا ہے، جو سیدھا دل پر پڑتا ہے اوردل کو بالآ خر ناتواں کرتا ہے۔

میرا باپ حمزہ کہا کرتا تھا کہ ٹوٹے دل کو بین، نوحے، شکوے، فریاد کا حق ہے، سازش، انتقام اور تہمت کبھی حق کی ذیل میں نہیں لائے جاسکتے۔ جس بات کا حق نہ ہو، وہ بات حق تصور کرکے، جب دہرائی جانے لگے تو وہ ظلم کہلاتی ہے۔

کیا آئرنی ہے کہ شکستہ وناکام دل کو ظالم ہونے میں اکثر دیر نہیں لگتی!

کیسی عجیب بات ہے کہ مظلوم، اپنی مظلومیت کا قصہ بیان کرتے کرتے، ظالم بن جایا کرتا ہے!

نوٹ: زیر اشاعت رسول حمزہ توف کی خیالی یادداشتوں، سے اقتباس۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari