Selab, Ghar, Cheezen, Yaadein
سیلاب، گھر، چیزیں، یادیں

ان دنوں پنجاب، بدترین سیلاب کی زد میں ہے۔ پانی، جو زندگی کی بنیاد اور ضمانت ہے، اب یہی پانی، زندگی سے بدترین عداوت پر اتر آیا ہے۔ (اس میں بڑا ہاتھ مقتدر طبقوں کی حماقتوں اور لالچ اور ترقی کے جدید تصور کا ہے) حیات کی سب صورتوں کو اپنے سیلِ وحشت میں برباد کر رہا ہے یا بگاڑ رہا ہے۔ ایک تند اور غصیلے دیوتا کی مانند۔
انسانو ں کی بنائی گئی چیزیں، اس کی تندی مزاج کے آگے، تنکوں کی صورت ہیں۔ حقیر اور کم زور۔ انسان کو دنیا میں بہت کچھ عزیز ہوتا ہے۔ اپنے خاندان کے بعد، اس کا گھر، سب سے زیادہ عزیز ہوا کرتا ہے۔ سیلاب کو انسانوں کی بنائی گئی چیزوں سے کوئی غرض ہے، نہ ان چیزوں سے انسان کے جذباتی تعلق کی پروا ہے۔
وہ بلاخیز موجوں کی صورت، تانڈو رقص کیے جارہا ہے۔
اپنے گھر کو پانی میں بے نشان ہوتے دیکھنا، ایک عام سا واقعہ نہیں ہے۔ اسے بیان کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ بربادی، موت، زخم اور صدمے کو بیان کرنا، کہاں آسان ہوا کرتا ہے!
گھر محض سرچھپانے کی جگہ نہیں ہے۔ گھر، کچی پکی اینٹوں سے بنی ایک عمارت بھی نہیں ہے۔ گھر اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آدمی کا پہلا ٹھکانہ، ماں کی کوکھ ہے، دوسرا مستقر اس کا گھر ہے۔
گھر، آدمی کو پناہ دیتا ہے، تحفظ دیتا ہے، شناخت دیتا ہے، اس کے مضطرب و وحشی دل اور تشویش کی شکار روح کو قرار فراہم کرتا ہے۔ گھر کی ایک ایک جگہ، آدمی کے لیے، اہم ہوا کرتی ہے۔
گھر کے دروازے، کھڑکیاں، روشن دان، چھتیں، چھجے، ٹیرس، سیڑھیاں، غرض ہر شے، ایک جدا معنی کی حامل ہوتی ہے۔ آدمی کی روح کا کوئی نہ کوئی حصہ، ان میں سے ہر چیز میں مقیم ہوا کرتا ہے اور وہ گھر سے چلا جائے تو اس کی واپسی کا منتظر رہا کرتا ہے۔
گھر کے ہر کمرے، کونے میں آدمی کی بسر کی گئی زندگی اور اس کی یادوں کی ایک دنیا ہوا کرتی ہے، بہ یک وقت دل فریب اور افسردہ۔ گھر میں، آدمی دوسرے آدمیوں سے گہرے، ان مٹ جذباتی رشتے قائم کرتا ہے، یا ان کی شکست کا تجربہ کرتا ہے۔ کئی بار گھر میں تنہائی بھی جھیلتا ہے۔ گھر، آدمی کی تنہائی کا بوجھ بھی اٹھاتا اور بانٹتا ہے۔
آدمی کی کہانی کا سب سے بڑا مقام اور سب سے بڑا میدان، اس کا گھر ہے۔
اسی طرح گھر کی چیزیں، محض چیزیں نہیں ہوا کرتیں، آدمی کی ذات کا حصہ بن جایا کرتی ہیں۔
گھر کی ایک شیلف سے لے کر، برتنوں، میزوں، کرسیوں، چارپائیوں، کپڑوں، کھلونوں، تصویروں، نوٹ بکس، پنسلوں، یہاں تک کہ ترک کی گئی، پرانی ناکارہ چیزوں، سب سے آدمی کی گہری دلی نسبت ہوا کرتی ہے۔
گھر اور اس کی چیزوں کا سیل وحشت خیز کی نذر ہوتے دیکھنا، گویا اپنے ہی وجود کے حصوں کو بکھرتے دیکھنا ہے۔ افتخار عارف کا شعر ہے:
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
صرف خانہ بدوش ہی نہیں، سیلاب زدہ بھی اپنے گھروں کو پلٹ پلٹ کے دیکھتے، آہیں بھرتے، آنسو بہاتے اور ٹوٹتے بکھرتے جاتے ہیں۔ کچھ آخری لمحے تک، اپنے گھروں اور چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی جان کی پروا نہیں کرتے۔
وہ جانتے ہیں کہ گھر اور اس کی ایک ایک چیز میں وہ خود بھی موجود ہیں۔ اپنے ہی وجود کے ایک حصے کو جدا کرنا آسان نہیں ہواکرتا۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے لوگ دوبارہ اپنے گھر تعمیر کرسکیں گے۔ کتنوں کو امدا د ملے گی اور کتنوں کے حصے میں خیرات بھی نہیں آئے گی۔ کسی طرح نئے گھر بن بھی گئے تو پرانے گھروں میں موجود یادیں، ساری عمر ان کا پیچھاکریں گی۔ نئے گھر میں پرانے گھر کو بسانا، آسان نہیں ہوا کرتا۔
کوئی اپنے پہلے گھر کو نہیں بھول سکتا۔ کوئی شخص، جگہ سے دلی تعلق قائم کرنے، مٹی کی اولین مہک اور وسیع و بے مہر دنیا سے تحفظ کے اوّلین تجربے کو فراموش نہیں کرسکتا۔

