Mir Ka But Kada, Maani Aur Masnooi Zahanat
میر کا بت کدہ، معنی اور مصنوعی ذہانت
اقبال نے ایک فارسی نظم میں دو ہرنوں کا مختصر مکالمہ لکھا ہے۔ ایک ہرن عافیت پسند ہے، دوسرا خطر پسند ہے۔ عافیت پسند کہتا ہے کہ وہ شکاری کی گھاتوں سے بچنے کے لیے حرم میں بسیرا کرے گا۔ وہ دل کی ایسی کیفیت کے ساتھ زندگی جینا چاہتا ہے، جس میں کوئی اندیشہ نہ ہو۔
رفیقش گفت ای یار خرد مند
اگر خواہی حیات اندر خطرزی
یعنی اس کے خطر پسند دوست نے کہا کہ اے میرے دانا دوست! اگر تمھیں زندگی چاہیے تو خطروں میں جی۔ کیوں کہ خطرہ سکت کا امتحان ہے اور "عیار ممکنات جسم و جان است" (جسم وروح کے امکانات کی کسوٹی ہے)۔
عافیت پسند ہرن، جنوبی ایشیا کا ضعف و غلامی کا شکار با شندہ تھا جسے اقبال ہمت دلارہے تھے۔
تاہم خطر پسند ہرن، جدید عہد کے انسان کی طرف دھیان منتقل کرتا ہے، جسے مسلسل ایجاد سے ایک لمحہ فرصت نہیں، خود کو ایجاد کرنے سے لے کر نئے عالم اور نئے خطرات ایجاد کرنے تک۔ مصنوعی ذہانت، اس کی قوتِ ایجاد کا مظہر ہے، تازہ ترین اور خطرناک ترین۔ جدید آدمی کو خطرے پیدا کرنے، خطروں سے کھیلنے اور اپنی جان ہی کو نہیں، ایک عالم کی جان کو داؤ پر لگانے سے مفر نہیں۔
کل اقوام متحدہ کی ایک عجب ہائبرڈ نیوز کانفرنس کی خبر پڑھی۔ اس میں ایک طرف روبوٹس (humanoid robots) تھے، دوسری طرف آدمی۔ آدمی کے مقابل، اس کا اپنا بنایا ہوا مثل۔ آدمی کی ذہانت کی پیدوار اور نقل، بہ یک وقت۔
ان روبوٹس میں سات سالہ سوفیا، یعنی سماجی انسان مثل روبوٹس، کچھ دوسرے روبوٹس کے ہمراہ موجود تھی۔ ایک مصری ملکہ کی صورت پر ڈھالی گئی سوفیا یو این کے ترقیاتی پروگرام کی ایمبیسیڈر ہے۔ ان انسان مثل روبوٹس نے کہا کہ وہ دنیا کو انسانوں سے، (یعنی اپنے خالق سے) بہتر طریقے پر چلا سکتے ہیں۔ اس دعوے کو اصولا دنیا کے تمام میڈیا چینل کی ہیڈ لائن بننا چاہیے تھا!
خیر، یہ کم وبیش وہی دعویٰ ہے جو انسان اپنے خالق کے سلسلے میں کرتا آیا ہے۔ لیکن مصنوعی ذہانت کی صورت، آدمی نے جو اپنے لیے ایک نیا خطرہ پیدا کر لیا ہے، اس پر اب سب فکر مند ہیں۔ خود اس کے بنانے والے۔
آج مصنوعی ذہانت پر ایک مضمون پڑھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ آدمی چیٹ جی پی ٹی اور مصنوعی ذہانت کی دوسری صورتوں سے ایک بڑا خطرہ یہ محسوس کررہا ہے کہ وہ نظمیں، ناول لکھ سکتے ہیں۔ آدمی سے اس کا سب سے بڑا شرف چھین سکتے ہیں۔
آدمی علم و معلومات پر تخلیق کو اوّلیت دیتا آیا ہے۔ اس نے اپنے اندر جس وراے بشر صفت کا مشاہدہ کیا ہے، وہ یہی صفتِ تخلیق ہے۔ اس کی حسی، عقلی، منطقی حدوں سے کہیں بعید اور ارفع عالم۔ اس کی اپنی ایجاد، اس سے یہ شرف چھینے جارہی ہے تو وہ خوفزدہ، افسردہ اور دل شکستہ ہے۔ کیا آدمی کا یہ خوف اور افسردگی، واقعی کسی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہوسکتے ہیں؟
میرا خیال ہے کہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ کوئی ایسی بلا نہیں جس کا شکوہ فلک سے کیا جاسکتا ہو۔ یہ آدمی کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اس کا بیج آدمی کی اپنی صورت کو ہر جگہ دیکھنے کی قدیمی اور سب سے گہری آرزو میں ہے۔
دو یہ کہ خود آدمی نے یہی کچھ کیا ہے، اپنے خالق کے ضمن میں۔
تین یہ کہ آدمی نے اپنی ذہانت کا مثل یا نقل تو بنائی ہے، آدمی نہیں بنایا۔ وہ برقی مثل ہے، کیمیائی مثل نہیں۔ اس مضمون میں ایک اہم بات لکھی ہے کہ آدمی علم و معلومات سے نہیں، معنی سے ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پاس علم و معلومات تو بہت جمع کردی گئی ہیں، جن کا حجم بڑھتا جائے گا مگر وہ معنی پیدا نہیں کرسکے گا۔ کیوں؟ اس سوال پر سوچتے ہوئے، میر صاحب یاد آتے ہیں۔
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے، صورتِ آدم بہت ہے یاں
ہمیں اپنے آس پاس آدمی نہیں، آدمی کے بت نظر آتے ہیں۔ انسانی عالم، ایک بت کدہ لگتاہے۔ آدمی وہ ہے، جو معنی خلق خلق کر سکے۔ جب کہ ہمارے ارد گرد آد م نہیں، آدم کے بت ہیں۔ بت، آدم کی صورت پر ضرور ہے مگر وہ معنی پیدا نہیں کرسکتا۔ معنی تو آدم ہی پیدا کرسکتا ہے۔
معنی، علم اور معلومات سے یکسر مختلف ہے۔ علم و معلومات سب کی ملکیت ہوسکتے ہیں، معنی نہیں۔ معنی، جذبے، جذباتی تصادم، شکستِ دل اندیشوں، بے معنویت، لایعننیت، خوابوں سے آدمی کے نبرد آزما ہونے سے پید اہوتا ہے۔ معنی کی پیدائش میں حافظے کا کردار ہوسکتا ہے مگر حافظے پر کلی انحصار نہیں۔ روبوٹس کو موت اور بے معنویت کار تجربہ نہیں ہوگا۔ تجربہ خالص انسانی چیز ہے۔
نطشے نے کہا تھا کہ خوابوں ہی نے ساری مابعدالطبیعیات، یعنی ایک دوسری دنیا کو پیدا کیا ہے۔ یہ دوسری دنیا معنی کی دنیا بھی ہے۔
یادداشت کا ریپلیکا ہوسکتا ہے، خواب، خوف، تجربے اور معنی کا نہیں۔