Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Milan Kundera Ka Deewar Ke Peeche, Kafkaiyat Aur Taqat Ki Ilhayat

Milan Kundera Ka Deewar Ke Peeche, Kafkaiyat Aur Taqat Ki Ilhayat

میلان کنڈیرا کا دیوار کے پیچھے، کافکائیت اور طاقت کی الہیات

1979ء میں جب پاکستان میں جنرل ضیا کے مارشل لا کا سورج نصف النہار پر تھا، اعجاز راہی کے مرتبہ افسانوی مجموعے "گواہی" پر پابندی لگ چکی تھی، جس میں ادب کو اپنے زمانے کے سب سے بڑے گواہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، بھٹو کو پھانسی دی جاچکی تھی، چیک ناول نگار میلان کنڈیرا نے ایک مضمون لکھا: Somewhere Behind اس مضمون میں کچھ ایسی باتیں لکھی گئی تھیں، جن کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔

کنڈیرا نے یہ مضمون، اپنے ہم وطن فرانزکافکا کی افسانوی دنیا کی اس روح کو سمجھنے سمجھانے کے لیے لکھا، جسے اب کافکائیت کے نام سے پہچاناجاتا ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کافکائیت، صرف کافکا سے مخصوص ہے، نہ محض فکشن کے ایک مخصوص اسلوب وتکنیک سے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں دنیا کا نظم کیسے چلایا جارہا ہے، اس سے مخصوص ہے۔

اجمل کمال نے اس کا ترجمہ دیوار کے پیچھے، کے عنوان سے کیا۔

کافکا نے دیوار کے پیچھے جو کچھ دیکھ لیا تھا، اس پرنظر بعد میں 1970ء ہی کی دہائی میں میثل فوکو اور ایڈورڈ سعید کی گئی۔ ہمارے یہاں کسی حد تک اقبال احمد کی۔ یہ سب ہم خیال ہیں کہ جسے ہم سچائی، اخلاقیات، اقدار کہتے ہیں، وہ دیوار کی پیچھے موجود طاقت کی کارفرمائی ہے۔ کلاسیکی تصور تھا کہ سچائی، طاقت ہی نہیں تاریخ کے دھارے کا رخ متعین کرتی ہے، یہ سب لوگ باور کراتے ہیں کہ طاقت، سچائی کی نقش گر ہے۔ طاقت کی وضع کردہ سچائی کو طاقت خود منواتی اور رائج کرتی ہے۔

میلان کنڈیرا کا مئوقف ہے کہ کافکا انیسویں صدی کی دنیا سے مختلف دنیا کو پیش کرتا ہے۔ انیسویں صدی میں دستو فسکی کا ایک کردار اپنے احساس جرم کے بوجھ کے آگے بے بس ہوجاتا ہے اور اپنی سزا قبول کر لیتا ہے۔ کافکا جرم وسزا سے متعلق، ایک دوسری منطق پیش کرتا ہے۔ اس کے کردار سزا پاتے ہیں مگر سزا کی وجہ نہیں جانتے۔ چناں چہ ان کی سزا لایعنی ہے۔ وہ سزا کو برداشت کرسکتے ہیں، مگرسزا کی لایعنیت نہیں۔ اس لیے وہ بے بس ہوکر خود ہی ایک جرم تلاش کر لیتے ہیں۔

دی ٹرائل کا کے، سزا پہلے پاتا ہے، بعد میں اپنے جرم کی تلاش کرتا ہے۔ بہ طورا نسان اگر وہ کچھ دن جینے کے قابل ہوسکتا ہے تو صرف اس صورت میں کہ وہ اپنی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب کرے، اور اپنے سزا کے مطابق جرم شناخت کرے۔

دستوفسکی کے یہاں جرم، سزا کی تلاش کرتا ہے، کافکا کے یہاں سزا، جرم کو تلاش کرتی ہے۔ کافکا کے یہاں گویا گنگا الٹی بہتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ گنگا تو پہلے سے الٹی بہہ رہی تھی، اس کی طرف توجہ کافکا نے دلائی۔ کافکا کی حکایت قانون کے دروازے کے سامنے، یاد کیجیے جو اس کے ناول دی ٹرائل، میں شامل ہے۔

"ایک فریادی قانون کے دروازے پر آتا ہے۔ اسے دربان روک لیتا ہے۔ وہ دربان سے پوچھتاہے کہ کیا وہ کبھی اندر جاسکے گا، دربان ہاں میں جواب دیتا ہے۔ وہ غریب انتظار کھینچتا ہے۔ وہ اٹھ کر دروازے کے اندر یا کہہ لیجیے، دیوار کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ دربان اس جسارت پر اسے بری طرح ڈانٹ دیتا ہے۔ دربان اسے ڈراتا ہے کہ اندر دربان سے کہیں زیادہ طاقتور لوگ موجود ہیں۔ فریادی کا قانون کے دروازے انتظار طویل ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی عمر کی نقدی ختم ہونے کو آتی ہے۔ وہ دربان کی منت سماجت کے بعد اسے رشوت بھی دیتا ہے مگر اسے باریابی نہیں ملتی۔ وہ جب آخری سانسیں کھینچ رہا ہوتا ہے، تو وہ پوچھتا ہے کہ ایک عمر گزر گئی کوئی اور قانون کے اس دروازے پر کیوں نہیں آیا؟ دربان جواباً کہتا ہے کہ یہ دروازہ صرف تمھارے لیے تھا۔ تم مررہے ہو تو میں یہ دروازہ بند کررہا ہوں"۔

لیکن کیا واقعی وہاں قانون کا دروازہ تھا یا محض ایک دیوار تھی؟ حکایت میں اس جانب کوئی اشارہ نہیں۔ دیوار حقیقت ہے۔ اس کا ہونا مشکوک نہیں ہوسکتا، مگر دیوار میں دروازے کا ہونا مشکوک ہوسکتا ہے۔

دربان اور فریادی میں کوئی فرق ہے؟ کافکا کے مطابق کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا تعلق ایک ادارے سے ہے، مگر مختلف قسم کا۔ دونوں ادارے کو دراصل برقرار رکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دربان کی واحد ذمہ داری یا مقصد حیات، دروازے پر فریادی کو روکے رکھنا ہے، اور فریادی کی پوری زندگی، اس دروازے پر انتظا ر کرتے جان دینا ہے۔ دونوں کی تقدیر اس ادارے، نے لکھی ہے۔ دونوں کو ادارے نے ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔

لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہ ادارہ کیسے کام کرتا ہے؟ اس کا جواب ذرا کنڈیر ا کی زبانی سنیے: "ادارہ، ایک ایسی کل ہے جو اپنے ہی قوانین کی پابند ہے۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ یہ قوانین کس نے بنائے تھے، نہ یہ کہ انھیں کب بنایا گیا تھا۔ ان قوانین کا انسانی مفادات سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے یہ ناقابل فہم ہیں"۔

کنڈیرا کی ادارے کے لیے مشین کی تمثیل کچھ زیادہ موزوں نہیں۔ مشین کہیں نہ کہیں، مشین ساز اور مکینک کی محتاج رہتی ہے، نیز مشین کی ایک حد ہے، طے شدہ۔ پھر آدمی لاکھ چاہے، وہ کل کا پرزہ نہیں بن سکتا۔ کل کا پرزہ، اتنا خطرناک نہیں، جتنا کسی ادارے کا وہ آدمی ہوسکتا ہے، جو ادارے کے قوانین کو جانتا اور ان کی من مانی تعبیر کا اختیار رکھتا ہے، یعنی ادارے کی تفویض کردہ طاقت سے کہیں زیادہ طاقت، محض اپنے علم یا انا کی مدد سے کشید کرسکتا ہے۔

تاہم کنڈیرا کی یہ بات درست ہے کہ جدید دنیا کے ادارے، انسانی مفادات سے تعلق نہیں رکھتے، وہ طاقت کے مفادات سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان سب کے لیے ناقابل فہم رہتے ہیں جو ان اداروں کو انسانی مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ کافکا کی افسانوی دنیا کے فریادی، دربان، پولیس، منتظم، منصف، وکیل سب اس کے تصور کردہ ادارے کے قوانین کے پابند ہیں۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کئی جانتے ہوں کہ یہ قوانین کب بنائے گئے تھے، مگر کم از کم فریادی اور دربان بالکل نہیں جانتے کہ کب بنائے گئے تھے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان قوانین کا انسانی مفادات سے کوئی تعلق نہیں، اسی لیے وہ فریاد سے باز نہیں آتے۔ وہ دیوار کے پیچھے کی دنیا کی حقیقت سے لاعلم رہتے ہیں، اس لیے آخری سانس تک امیدیں لگائے رکھتے ہیں۔ یہی کچھ ان کی آل اولاد بھی کرتی ہے۔ اگر کافکا کی مذکورہ بالاحکایت کا دوسرا حصہ لکھا جائے تو صرف ایک جملے پر مشمل ہوگا: فریادی کا بیٹا، دربان کے بیٹے سے اندر جانے کی التجا کرتا کرتا بوڑھا ہوگیا اور وہیں مرنے کے بجائے، اپنی جھونپڑی کی طرف چلا آیا، جس کا ملبہ بھی اٹھالیا گیا تھا۔

کنڈیرا کے مطابق، کافکا فقط یہ نہیں بتاتا کہ اداروں کے قوانین، عام انسانی مفادات کے سلسلے میں کس طور مطلقاً لاتعلق ہوتے ہیں، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ قانون، ادارے، اورآمر کی طاقت کس طور کام کرتی ہے۔

وہ ایک ایسی بات کہتا ہے، جس پر کھل کر بحث کرنا، ہمارے لیے آسان نہیں۔ وہ کہتا ہےکہ "مقتدر قوت جب خدا کی طرح خود کو نافذ کرتی ہے تو خود بہ خود اس کی الہیات بھی پیدا ہوجاتی ہے، جہاں کہیں وہ خدا کی طرح پیش آتی ہے، وہاں اس کے بارے میں مذہبی محسوسات بیدار ہونے لگتے ہیں"۔

اتنا ہر شخص جانتا ہے کہ ہر طاقت کو عام طور پر اور طاقت کی اس صورت کو خاص طور پر اپنے جواز (legitimacy) کا سوال درپیش ہوتا ہے جو اپنی مقررہ حد سے باہر جاتی ہے۔ طاقت اپنی حد خود ہی مقرر کرتی ہے، پھر خود ہی اسے روندتی ہے۔ تاہم اسے اس کا جواز ضرور پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا سبب بھی یہ ہے کہ کوئی بھی طاقت، خلا میں کام نہیں کرتی، طاقت کی دوسری صورتیں ہر وقت، ہر جگہ موجود ہوتی ہیں، جن سے کہیں اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے، کہیں مصالحت، کہیں گریز اور کہیں گفت و شنید۔ کوئی طاقت، طاقت کی دوسری صورتوں کو کرش کرسکتی ہے، مگر ان سے بیگانگی اختیار نہیں کرسکتی۔

بہ قول فوکو طاقت، اسم نہیں فعل ہے۔ یعنی طاقت ہرجگہ، ہر وقت ہے اور جامد نہیں ہے۔ لیکن جب کسی طاقت کے ذہن میں، اپنے متعلق خدائی امیج قائم ہوجاتا ہے تو وہ اپنے جواز کے سوال کو ایک نئی صورت دیتی ہے، جسے کنڈیرا الہیات کا نام دیتا ہے۔ آپ کہہ لیجیے: خدائی طاقت کا غرور اپنے ساتھ اپنی نئی الہیات لاتا ہے۔ اس الہیات کو ٹھیک ٹھیک نام دینا آسان نہیں۔ خطرات ہی خطرات ہیں۔

یہ آسمانی مذاہب کی الہیات(کو نہیں، ان) کی منطق کو خالص سیاسی مقاصد کے لیے بروے کار لاتی ہے، اس لیے یہ دیکھنے میں سوفٹ، حقیقت میں لیتھل، ہوتی ہے۔ چناں چہ یہ تیزی سے فروغ پاتی ہے، اور اسے قبولیت عامہ ملتی ہے۔

طاقت کی تمام صورتیں قبولیت عامہ ہی کو اپنا منشا بناتی ہیں۔ ا س میں آئرنی یا اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ قبولیت عامہ، طاقت کی سب مہا بھارتوں کا میدان بنی رہتی ہے، جہاں انسانی مفادات کی تلاش بے سود ہوتی ہے۔

Check Also

Jadeed Maharton Ki Ahmiyat, Riwayati Taleem Se Aage

By Sheraz Ishfaq