Meri Zuban He Meri Dunya Hai
میری زبان ہی میری دنیا ہے

میں بتانا چاہ رہا تھا کہ میں لسانی فلسفے سے رغبت پیدا نہیں کرسکا، مگر آسٹریائی لسانی فلسفی، وٹگنسٹائن کاقول، میرے ذہن میں اکثرگونجتا رہتا ہے۔ "میری دنیا کی حد وہی ہے، جو میری زبان کی حد ہے"۔ پہلی بار یہ قول میں نے جرمنی میں ایک کانفرنس میں سنا۔ مجھے لگا، جیسے کسی نے میرے اندر موجود ایک چیز، مجھ پر منکشف کردی ہو۔
میری طرح آپ سب کا یہ تجربہ ہوگا کہ کچھ باتیں ہمیں، خود سے باہر کی، کسی اجنبی اور بیگانہ دنیا کی باتیں لگتی ہیں۔ ہم انھیں سنتے ہی، اندر کے کوڑادان میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن کچھ باتیں، شاعری کے کچھ ٹکرے، کسی کہانی کا کوئی کردار اور اس کا کوئی مکالمہ، فلسفے، سائنس، تاریخ کی کسی کتاب کا کوئی جملہ، ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ہمار ے ہی گھر میں موجود کوئی چیز ہو، جو ہمیں اپنے پرکھوں سے ملی تھی، مگر ہمیں اس کی طرف دھیان دینے کا موقع ملانہ فرصت۔
کسی اور نے ہمیں، اپنے ہی گھر کی چیزوں سے متعارف کروا دیا۔ ایسی چیزوں کو ہم حاصل کرنے کے لیے لپک پڑتے ہیں، اپنے اندران کے لیے ایک گہرا جوش محسوس کرتے ہیں۔ انھیں باقاعدہ محسوس کرتے ہیں، ان کی گرد جھاڑتے ہیں اور اب اپنے گھر میں ایک خاص جگہ پر، پوری احتیاط سے، انھیں رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی کا احساس، ہمیں، ان کئی اندیشوں اور خطروں سے بچایا کرتا ہے، جو ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہوتے، مگر ہم پر، اپنی مبہم موجودگی کے سبب، گھبراہٹ طاری کیے رکھتے ہیں۔
مجھے وٹگنسٹائن کا یہ جملہ بھی ایسا ہی لگا تھا۔ میں نے اسے سنتے ہی، اس سے ایک گہری، دیرینہ اپنائیت محسوس کی تھی اور اس لمحے ایک اور خیال بھی مجھے شدت سے آیا تھا۔ یہ کہ ہمارے عزیز اور آباؤ اجداد صرف وہی نہیں ہوتے، جن سے ہمارا خونی رشتہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ بھی ہمارے رشتہ دار اور ہمارے بزرگ ہوتے ہیں، جن سے ہم کچھ بھی سیکھتے ہیں۔
میں نے کئی بار محسوس کی ہے کہ میں نے جس سے ایک لفظ بھی سیکھا ہے، وہ مجھے، اپنے ابا حمزہ کا بھائی لگا ہے۔ میں نے دل میں اس کے لیے گہرا احترام محسوس کیا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے ابا حمزہ کے بھائیوں کا شمار ہی نہیں ہے۔ ان میں اکثر ابا سے بڑے ہیں۔ کوئی سو سال بڑا ہے تو کوئی پانچ سو سال اور کچھ تو ہزاروں برس بھی، ابا سے عمر میں بڑے ہیں۔ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہے، جس کے بزرگوں، یعنی شجر ہائے سایہ دار کی اتنی بڑی تعداد ہو۔ سایہ دار شجر، سب کا مشترک ہوا کرتا ہے۔
ہمارے داغستان کے سب جلیل القدر درخت، سب کے مشترک ہیں۔ آدمیوں اور چرند پرند، حشرات سب کے۔ میں یہ سب لکھتے ہوئے، ایک بار خود کو یاد دلاتا ہوں کہ رسول، تم وٹگنسٹائن کے قول پر لکھنے بیٹھے تھے۔ خود ہی سے کہتا ہوں کہ ہاں اسی قول ہی پر تو لکھ رہا ہوں۔ سب باتیں، اسی کے تعلق سے ہیں۔ کیا ہم اپنے کسی ایسے تعلق کا تصور کرسکتے ہیں، جو حساب کے قاعدے کا پابند ہو، یعنی دو ہندسوں پر مبنی ہو۔ دوجمع دو، چار تک ہو۔ خیر ہندسوں میں بھی کئی طرح کے تعلقات ہیں۔ دو کو دو میں صرف جمع نہیں کیا جاسکتا، ان میں نفی، ضرب، تقسیم کا تعلق بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔
لیکن انسانی دنیا میں تعلق، شاعری کے استعارے کی طرح ہوا کرتا ہے۔ ایک استعارہ، ایک انجانی وسیع کائنات کا در ہم پر کھول دیا کرتا ہے۔ اسی سے نئے استعارے پیدا ہوسکتے ہیں۔ پھر نئے تلازمات۔
تو سچ یہ ہے کہ میں یہ کتاب، ایک استعارے کے انداز میں لکھ رہا ہوں۔
(زیر طبع میرا داغستان جدید سے اقتباس)

