Meri Kahani Ki Kahani, Meri Zubani
میری کہانی کی کہانی، میری زبانی
میں نے اپنے کسی افسانوی مجموعے کا پیش لفظ لکھا نہ کسی سے کوئی تحریر لکھوائی۔ کتابوں کی اشاعت کے بعد جو تبصرے، مضامین شائع ہوئے، انھیں بھی اپنے چاروں (پانچواں زیر اشاعت ہے) مجموعوں میں سے کسی کا حصہ نہیں بنایا۔ اب سنگ میل کے افضال احمد صاحب میرے پانچوں مجموعوں کو یک جا شائع کررہے ہیں تو ایک تفصیلی تحریر "میری کہانی کی کہانی: میری زبانی" کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس تحریر کا ایک ابتدائی ٹکڑا احباب کی نذر ہے۔
"میٹرک میں تھا کہ ایک فلمی رسالہ ہاتھ لگا۔ یہ بھی اتفاق تھا۔ اس میں قلمی دوستی کا کالم ہوا کرتا تھا۔ میں نے بھی اپنی تصویر کے ساتھ اپنا پتا اس کالم میں چھپنے کے لیے بھیج دیا۔ اس رسالے کی اشاعت کو ایک ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ محاورتاً نہیں حقیقتاً میرے نام خطوط کاتانتا بندھ گیا۔ پورے ملک سے روزانہ دس سے بیس خطوط آنے لگے۔ یہ میرے لیے بالکل نئی چیز تھی۔
پرائمری سکول سے ہائی سکول تک کئی ہم جماعت دوست بنے، مگر یہ قلمی دوستی چیزے دیگر تھی۔ یہ جانی پہچانی، روزمرہ کی دنیا سے الگ، اجنبی اور کچھ کچھ ماورائیت میں لپٹی دنیا سے رابطے کا ذریعہ تھی، بلکہ محض رابطے ہی کا نہیں، غیر حقیقی مگر معصومانہ عہد و پیمان کی حامل دنیا تھی۔
اس قلمی دوستی کے آغاز کا نکتہ، نیم سری نوعیت کے تجربے سے عبارت تھا۔ میں تنہائی میں بار بار رسالہ اٹھاتا۔ اس میں اپنا چھپا ہوا نام دیکھتا۔
پہلی بار اپنا چھپا ہوا نام دیکھنا ایک واقعہ بھی تھا اور تجربہ بھی۔ واقعات گزر جاتے ہیں، وقت اور تاریخ کی دھند میں گم ہوجاتے ہیں، مگر تجربات ہمارے جسموں، دلوں، حافظے، ذہن کے تصوراتی منطقے میں جیسے لکھ، دیے جاتے ہیں، ایک اپنی ہی زبان میں، جسے صرف ہم اکیلے پڑھ سکتے ہیں اور ان کےمعانی کو سمجھ سکتے اور انھیں سو سو طرح سے دہراسکتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں، میری تصویر سے زیادہ میرے نام پر مرکوز ہوتی تھیں۔ وہ تصویر تو میری ہی بھیجی ہوئی تصویر کی نقل تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ پہلی بار اپنی تصویر دیکھنا بھی ایک تجربہ تھا۔ وہ پہلی تصویر بھی میری یادداشت ہی نہیں، میرے ہاتھوں کی اس کپکپاہٹ میں اب تک موجود ہے، جو میں نے پاسپورٹ سائز کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر ایک چھوٹے سفید لفافے سے نکالنے کے بعد دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں تھامنے کے وقت محسوس کی تھی۔ جسم نہیں بھولتا۔
اس تجربے کی دو خاص باتیں اور تھیں۔ میں نے اپنے چہرے کو اس تصویر کی مدد سے پہچاننا شروع کیا۔ آئنے میں اپنا عکس دیکھنا جداگانہ بات تھی، مگر تصویر میں نقوش منجمد ہوگئے تھے، انھیں دیر تک اور غور سے دیکھا جاسکتا تھا، اور سوچا جاسکتا تھا کہ اچھا یہ میری آ نکھیں، ابرو، ماتھا، ناک، ہونٹ، ٹھوڑی، گال، گردن ہے، اور میں ان کا مجموعہ ہوں۔ دوسری بات یہ کہ مجھے لگا کہ میں اس تصویر میں امر ہوگیا ہوں، ایک نکتے، ایک حالت، ایک فضا میں ہمیشہ کے لیے قائم وموجود ہوں۔
اس کے باوجود اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنا، تصویر دیکھنے سے کہیں گہرا تجربہ تھا۔ پرکیف، دہرائے جانے کی آرزو سے لبریز، نیم سری تجربہ۔
ان دونوں تجربوں کا اس سب سے گہر اتعلق ہے، جو کچھ میں نے بعد میں لکھا۔ تصویر اور نام، حقیقت کو پیش کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ان عام سے تجربوں میں حقیقت اور اس کی تصویری ولسانی نمائندگی کے پیچیدہ فلسفے کے بنیادی نکات موجود ہیں۔
سب سے اہم نکتہ یہ کہ حقیقت کے واقعی، حسی تجربے اور اس کی تصویری ولسانی نمائندگی کے تجربے میں فرق ہے، اور خاصا بڑا فرق۔ ہر نمائندگی، حقیقت سے ایک فاصلہ اختیار کر لیا کرتی ہے۔
تصویر، آدمی سے دور کھڑی رہتی ہے۔
نام، آدمی سے الگ مقام پر ایستادہ رہتا ہے۔
آدمی جب مصنف بنتا ہے اور اس کانام کتابوں کے سرورق پر چھپتا ہے تو وہ آدمی سے جدا، ایک مستقل حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
مصنف کے مرجانے کا سو فیصد یقین ہے مگر اس کے نام کے ہمیشہ زندہ رہنے کا قوی امکان ہوا کرتا ہے"۔