Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Mere Liye Ustad Hone Ka Matlab Kya Hai

Mere Liye Ustad Hone Ka Matlab Kya Hai

میرے لیے استاد ہونے کا مطلب کیا ہے

میں پہلے دو ایک جگہ لکھ چکا ہوں کہ مجھے تقدیر اور حالات نے استاد بنایا۔ میں جب استاد بناتو میں نے پہلی بار شدت سے محسوس کیا کہ زندگی میں آدمی کو سب کچھ، اس کی مرضی کے مطابق نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ آدمی کو کئی بار وہ بھی نہیں ملتا، جس کے لیے اس نے مدت سے آرزو کی ہو، اس کے لیے جدوجہد کی ہو اور اس کے لیے زمانے، حالات اور اپنے بڑوں سے جنگ بھی کی ہو۔

میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ آدمی کو جس دنیا میں فطرت اور تقدیر نے لاپھینکا ہے، وہاں آدمی کے جسم و جاں کی طاقت اور خیال و تخیل کی استعداد سے کہیں بڑی قوتیں موجود ہیں۔ میں نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ سمجھا ہے کہ آدمی کو ان سب قوتوں کو پہچاننا ضرور چاہیے۔ ہر ایک کے خلاف صف آرا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو یہ سمجھتے ہوں کہ آدمی کو جو اس کی آرزو اور کوشش کے باوجود نہیں ملتا، وہ لازماً اس کے حق میں، یعنی اس کے لیے بہتر ہوا کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا سوچنے والے، کچھ بزدل، کچھ مصلحت پسند اور کچھ تقدیر پسند ہوا کرتے ہیں۔ تقدیر ایک حقیقت ہے، مگر اپنی بزدلی ومصلحت پسندی سے، اسے الگ کرکے دیکھنا چاہیے۔

سچ یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ اس کی آرزو اور سعی کے باوجود نہیں ملتا، کبھی وہ آدمی کے حق میں ہوا کرتا ہے، کبھی نہیں ہوا کرتا۔ وہ ایک حقیقی بدقسمتی بھی ہوسکتی ہے اور کبھی ہم اسے اپنے حق میں کرنے کی مساعی کرتے رہتے ہیں۔

میں نے اس سوال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ آدمی کے حق میں اچھا ہونے سے مراد کیا ہے؟ کیا آدمی کے حق میں اچھا وہی ہوتا ہے، جس سے اس کی معاشی حالت بہتر ہوجائے، سماجی مرتبہ بڑھ جائے، وہ کچھ خصوصی مراعات، کچھ شہرت، کچھ طاقت، دوسروں پر تھوڑی بہت برتری حاصل کرلے؟ ان سب چیزوں کی، اپنی اپنی جگہ اہمیت سے، مجھے انکار نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اپنے حق میں اچھا ہونے سے بس یہی کچھ مراد لیتا ہے تو وہ اپنے، یعنی اپنے آدمی ہونے کے بارے میں بہت معمولی اور سطحی تصور رکھتا ہے۔

دنیا آدمی کی توہین کئی بار کرتی ہے، مگر آدمی کو خود اپنی توہین نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے بارے میں سطحی اور معمولی تصور قائم کرکے آدمی اپنی توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آدمی کو اپنا کوئی متکبرانہ تصور کرنا چاہیے۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آدمی آرزو کرنے والی مخلوق ہے اور اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس کے وجود و شعور کی حد، اس کی آرزؤں ہی سے طے ہوتی ہے۔

لازم نہیں کہ آدمی کو دنیا، اس کے حسبِ منشا ملے، مگر حسبِ منشا نہ ملنے والی دنیا کو سمجھنا ترک کردینا، آدمی کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔ سمجھنا اور جاننا، زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے۔ میں نے اتنے برسوں میں، سمجھنے اور جاننے ہی کو زندگی کی سب سے بڑی قدر سمجھا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آدمی کے حق میں اچھا وہی ہوتا ہے جو اسے اس سب کو سمجھنے اور جاننے میں مدد دے، جس سے آدمی کا حقیقی یا ذہنی واسطہ رہتا ہے۔

یعنی دنیا، سماج، تاریخ، فطرت، کائنات، خدا اور خود کو اور ان سب کو جس طرح ادب وآرٹ اور علوم نے پیش کیا ہے، ان سب کو۔ استاد بننے کے بعد مجھے یہ موقع زیادہ نصیب ہوا کہ میں چار کام مسلسل کر سکوں: ہر شے کو حساسیت سے محسوس کرنا، مطالعہ کرنا، تفکر کرنا اور ان سب کی ترسیل کرنا۔ اس لیے، میں آج اپنی عمر کی چھ دہائیاں اور تدریس کے بتیس برس گزارنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہوں کہ استاد بننا میرے حق میں اچھا ثابت ہوا۔

لیکن میں نے اس سوال کو کبھی نظر انداز نہیں کیا کہ جو کچھ میرے حق میں مفید ثابت ہوا ہے، کیا وہ دوسروں یعنی طالب علموں کے حق میں بھی بہتر ثابت ہوا کہ نہیں؟ اس سوال کو کسی اور پیشے سے متعلق شخص نظر انداز کر سکتا ہے، وہ اپنے پیشے کا تصور دولت، مرتبے، اختیار کی مثلث کی روشنی میں کرسکتا ہے، ایک استاد نہیں۔

میں ہرگز نہیں کہہ رہا کہ استاد کو کلاسیکی زمانے کا فقر اختیار کرنا چاہیے، میں صرف اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ استاد کو اپنی آرزوؤں اور مقاصد کی فہرست مرتب کرتے ہوئے، اپنے طالب علموں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ طالب علموں سے ہم دلی، ان کے ہر طرح کے سوالات ہی نہیں، ان کے ہر طرح کے مسائل کے سلسلے میں گہری اور سچی ہمدردی، ایک استاد کے لیے لازم ہے۔ استاد کے خمیر میں جتنا حصہ علم کا ہے، اتنا ہی احساس کا۔ گہرے داخلی احساس کے بغیر علم کی ہر ترسیل، مشینی اور مشقت ہوا کرتی ہے۔ استاد کو مشین ہونا چاہیے، نہ کوئی مشقتی۔

میں مانتا ہوں کہ استاد کی بھی ایک نجی زندگی ہے، جہاں وہ اپنے وجود کی بیابیانی کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور جہاں وہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ محسوس نہیں کرتا، جہاں وہ زندگی کے بھیانک پن اور تقدیر کے مذاق پر کبھی قہقہہ لگاتا ہے، کبھی شکوہ کرتا اور کبھی بچوں کی مانند رو پڑتا ہے، کبھی کسی کو گلے لگاتا ہے اور کبھی سارے جہاں سے خود کو الگ کر لیتا ہے۔

ایک استاد ہونے کا مطلب، اپنے آدمی ہونے کی بنیادی خصوصیت کی قربانی نہیں ہے، جیسا کہ قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن استاد کی نجی زندگی کی سرحد وہیں ختم ہوجاتی ہے، جہاں کمرہ جماعت یااس کے دفتر کی حد شروع ہوتی ہے۔

مجھے ہمیشہ احساس رہا ہے کہ کمرہ جماعت، ایک خاص اور منفرد جگہ ہے۔ یہ محض ایک کمرہ یا ایک عام سی جگہ نہیں ہے۔ بات چیت، خیالات کے اظہار، بحث مباحثے، خاموشی سے تفکر کرنے، عبادت اور مراقبہ کرنے کی، دنیا میں کئی جگہیں ہیں۔ کچھ قدیم، کچھ جدید۔ یعنی کافی ہاؤس، تکیے، کانفرنس روم، خانقاہیں، ویہار، گروکل، مساجد، مندر، گرجے، صومعے، غاریں، یہ سب انوکھی جگہیں ہیں، ان میں سے کچھ کے لیے میشل فوکو ہیٹر وٹوپیا کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا رہا ہے کمرہ جماعت ان سب سے مختلف جگہ ہے۔ تدریس کے لیے ایک جگہ ہمیشہ سے مخصوص رہی ہے۔

کبھی یہ جگہ کھلی رہی ہے، کبھی بند۔ کبھی کسی جنگل کا کوئی قلب یا کسی پہاڑی کی چوٹی رہی اور کبھی کوئی عمارت۔ یہ سب جگہیں، آبادی سے کچھ فاصلے پر موجود رہی ہیں یا ایسے مقام پر جہاں آبادی کی روزمرہ کی کوئی شے خلل انداز نہ ہو۔

اگرچہ کچھ جگہیں، تدریس اور عبادت دونوں کے لیے مخصوص رہی ہیں اور ان کا باہر کی دنیا سے بے خلل رہنا مشترک رہا ہے، مگر ایک بنیادی فرق بھی برابر موجود رہا ہے۔ یہ کہ عبادت میں خاموشی اور تدریس میں کلام کو مرکزیت حاصل رہی ہے۔ عبادت کے لیے ہر طرف سے بند، یکسر خاموش فضا کی حامل جگہ، جب کہ تدریس کے لیے کھلے پن اور کشادگی کی حامل جگہ پسندیدہ رہی ہے۔ کمرہ جماعت، کھلے پن اور کشادگی کو اس کی ممکنہ حدوں تک لے جانے کی سپیس ہے۔

میں جب کمرہ جماعت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے ذہن میں کچھ خاص تصورات جمع ہونے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے خانقاہ کا تصور آتا ہے۔ اس کا بنیادی مفہوم ولی ساز کارخانہ کا ہے۔

تسلیم کہ کمرہ جماعت میں ولی نہیں بنائے جاتے، نہ بنائے جاسکتے ہیں، مگر کمرہ جماعت اسی طرح شخصیت کی تبدیلی کا مقام ضرور ہے، جس طرح کوئی خانقاہ ہوا کرتی ہے۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوتا رہا ہے کہ سماج کی تبدیلی کا نکتہ آغاز اگر کہیں سے ہوسکتا ہے تو وہ کمرہ جماعت ہے۔ تاہم میں کمرہ جماعت میں استاد کو مرشد کے طور پر تصور کرنے میں متامل رہا ہوں۔

مرشد کا مقام کسی اور جگہ ہے، کم از کم یونیورسٹیوں میں نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے کچھ مرشدوں نے، غضب ڈھایا ہے۔ کمرہ جماعت کے تعلق سے مجھے دوسرا تصور، جرمن فلسفی، رڈولف اوٹوکے Numinous کا آتا ہے۔ اس سے مراد ایک ایسی کیفیت ہے، جو آدمی کو اس کی ذات سے بالا لے جاتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج تک کوئی شخص، ذات کی کامل نفی نہیں کرسکا۔ یہاں تک کہ صوفیا بھی نہیں۔ وہ صرف ذات کے ایک محدود تصور سے، ذات کے دوسرے لامحدود تصور کی طرف سفر کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا نفیِ ذات، دراصل ذات کے ایک تصور کی نفی رہی ہے۔ کمرہ جماعت، ذات کی ایک نئی شناخت کا مقام ہے۔ طالب علم، کمرہ جماعت میں داخل ہونے سے پہلے، ایک شناخت لے کر آتا ہے۔

وہ جب یہاں سے نکلتا ہے تو ذات کی ایک نئی شناخت کے ساتھ نکلتا ہے۔ یعنی وہ ایک نیا جنم لیتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ کمرہ جماعت، Numinous place بن ہی نہیں سکا۔ کمرہ جماعت میں یہ جگہ بننے کا مکمل امکان ہے، یہ امکان بروے کار نہیں آسکا تو اس کا ایک، بڑا سبب استاد ہے۔ نصاب، یونیورسٹی کا نظام بھی اسباب ہیں، مگر ایک استاد ان اسباب کے ہوتے ہوئے بھی، کمرہ جماعت کو، طالب علموں کے لیے ایک نئے جنم کی جگہ بناسکتا ہے۔

مجھے یہ احساس رہا ہے کہ کچھ طالب علم بھی ایسے ہوا کرتے ہیں، جنھیں ایک نئی، اپنی شناخت، نیا جنم نہیں، بس ایک سند چاہیے ہوتی ہے۔ حالاں کہ سند تو سب کو مل ہی جایا کرتی ہے۔ میں کمرہ جماعت کا تصور کرتے ہوئے، مجھے یونانی اگورا اور میشل فوکو کا ہیٹروٹوپیا کا خیال بھی آتا ہے۔ اگورا بحث مباحثے کی عوامی جگہ ہے، جب کہ ہیٹرو ٹوپیا، ایک ایسی سپیس ہے، جہاں ممنوع موضوعات ومسائل و سوالات پر آزادانہ بحث کی جاسکتی ہے۔

جو خیالات و سوالات، طالب علموں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور جنھیں وہ گھر، خاندان میں، عوامی جگہوں پر، سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں کرسکتے، انھیں یہ حق ہے کہ وہ کمرہ جماعت میں ان کا اظہار کریں۔

بہ ظاہر خانقاہ، Numinous اور ہیٹر وٹوپیا، متضاد تصورات ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ انھی کے ذریعے، انھیں ان کے اپنے اپنے مقام پر کارفرما ہونے کا موقع دیتے ہوئے، کمرہ جماعت، ایک خاص اور منفرد جگہ بن سکتی ہے، ایسی جگہ جو دنیا میں موجود سب جگہوں سے یکسر جدا ہے۔ یعنی Wholly Other.

میں پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ میں کمرہ جماعت کو ایسی جگہ بناسکا کہ نہیں، مگر میں نے اس کے لیے کوشش ضرور کی۔ اسی کوشش کے سبب، کئی طلبا مجھے سخت گیر استاد کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

کمرہ جماعت کے ذکر سے پہلے، میں یہ عرض کررہا تھا کہ میں استاد بننے کے فیصلے کو طالب علموں کے حق میں مفید بناسکا کہ نہیں۔

چناں چہ بہ طور استاد میں نے جسے اپنے حق میں مفید سمجھا، اسے اپنے طالب علموں کے حق میں مفید بنانے کی پوری کوشش کی۔ میں نے سمجھنے اور جاننے کی جس جستجو کو اپنے اندر جس تڑپ کو محسوس کیا ہے، اسے طالب علموں تک تک پہنچانے کی کوشش کی۔

مجھے اعتراف ہے کہ جاننے اور سمجھنے کی جستجو کی اہمیت کو طالب علموں تک پہنچانا آسان ہے، مگر جستجو کی تڑپ پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ طالب علموں کے ذہنوں تک رسائی کا راستہ، ہر استاد کو جلد یا بدیر مل جایا کرتا ہے، مگر ہر طالب علم کے دل کا راستہ، صرف اسی طالب علم ہی کو معلوم ہوسکتا ہے، کسی اور کو نہیں۔ کئی لوگوں کو خود عمر بھر معلوم نہیں ہو پاتا کہ خود ان کے دل کی جانب جانے والی پگڈنڈی کس جنگل سے ہوکر گزرتی تھی۔

ایک استاد کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ طالب علم کو بتائے کہ علم صرف حقائق اور ان کی صداقت کو جان لینا نہیں ہے، انھیں پرکھنا بھی ہے۔ حقائق کو جان لینا، ایک ذہنی عمل ہے، انھیں محفوظ کر لینا، حافظے کا کمال ہے، مگر انھیں پرکھنے کے لیے سوال کرنے کی جرأت چاہیے۔ سوال کی جرأت، علم کی جستجو کی تڑپ کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔

جستجو کی تڑپ کیا ہے؟ ہم دنیا میں کتنی ہی چیزوں کی تڑپ رکھتے ہیں۔ ہم محسوس کیا کرتے ہیں کہ اگر ہمیں فلاں چیز، فلاں شخص، فلاں عہدہ، فلاں منزل حاصل نہ ہوئی تو گویا ہمارا سانس بند ہو جائے گا۔ جب تک وہ ہمیں حاصل نہیں ہوجاتی، ہم تڑپتے رہتے ہیں۔ ایک گہرا ضطراب، دل کو چیر کے رکھ دینے والی بے چینی، ہمیں لاحق رہتی ہے۔

اسی اضطراب، اسی بے چینی اور اسی تڑپ کا رخ چیزوں کو جاننے کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ ایک استاد ہونے کا مطلب، پہلے اس تڑپ کا خود حامل ہونا، پھر اپنے طالب علموں میں اس تڑپ کی آبیاری کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔

(الحمرا ادبی بیٹھک میں اپنے عزیز طالب علموں کی طرف سے منعقدہ تقریب، 25 اپریل 2025ء کو پڑھے گئے مضمون کا ایک حصہ)۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam