Mere Dil Ka Surkh Register
میرے دل کا سرخ رجسٹر

لینن کے پاس نیلی نوٹ بک تھی، جس میں اس نے ریاست اور انقلاب کے اشارات لکھے۔ وہ نوٹ بک دنیا کے لیے تھی۔ میرے پاس سرخ رجسٹر ہے۔ مجھے معلوم ہے، میں کوئی انقلاب نہیں لاسکتا۔ میں اس رجسٹر میں محض اپنے لیے کچھ باتیں لکھتا ہوں، مگر اب چاہتا ہوں کہ اس کے کچھ صفحات، اپنی یادداشتوں کا حصہ بناؤں۔
زندگی، سزا ہے۔ اس کا عرفان مجھے کسی فلسفی سے ملا ہے، نہ کسی صوفی سے، نہ کسی شاعر سے۔ اس شخص سے ملا، جو میرے روز وشب میں شریک تھا۔ جو میری سانسوں کو گن سکتا اور ا ن کی گرمی کو محسوس کرسکتا تھا۔ جسے معلوم تھا کہ میرے سینے کے بالوں میں تل کہاں ہے اور سینے کے کتنے بال ابھی تک سیاہ ہیں۔
سب سے گہرا زخم، سب سے کم دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات وہی جانتا تھا، جو میری تنہائی میں میرا واحد رفیق تھا۔
وہی جانتا تھا کہ گہرا زخم لگانے کے لیے تیر وتفنگ چاہیے، نہ تلوار وخنجر، محض ایک لفظ اور کبھی فقط ایک نگاہ، ایک تیوری ہی کافی ہواکرتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ گہرے زخم کو کسی عدالت میں، اپنے حق میں، بہ طور ثبوت نہیں پیش کیا جاسکتا۔ ان کی شکایت کہیں درج نہیں کرائی جاسکتی۔
اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ایک گہرازخم مزید گہرا اور خراب ہوسکتا ہے، مندمل نہیں۔
اس سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ گہرے زخم، پورے آدمی کو نگل جایا کرتے ہیں۔
وہی میری خاموشی کی زبان سمجھتا تھا اور وہ زبان بھی جسے سرگوشی کی زبان کہنا چاہیے۔
آدمی اپنے سب راز انھی دوطرح کی زبانوں میں بیان کرتا ہے۔
راز، آدمی کے محافظ ہوتے ہیں۔ راز، صرف دنیا سے چھپائی گئی، نجی باتیں نہیں ہیں۔ یہ دنیا سے متعلق وہ باتیں بھی ہیں، جنھیں آدمی ایک خاص وقت پر ظاہر کیا کرتا ہے۔
دنیا کی کثیف تیرگی کو دور کرنے کا نور، آدمی کے وجود میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اسے اپنے وقت پر اور اپنی پوری سچائی اور طاقت کے ساتھ ظاہر ہونا چاہیے۔
ایک آدمی کے وجود کے نور کا دشمن، دوسرے آدمی کےو جود کی تاریکی ہوا کرتی ہے۔
ہم زندگی میں وہ سب نہیں کہہ پاتے، جو کہنا چاہتے ہیں۔
کبھی ہمیں کہنے کا موقع نہیں ملتا، کبھی الفاظ نہیں ملتے۔
کئی بار ہمیں وہ لوگ نہیں ملتے، جن کے سامنے ہم اپنا سینہ کھول سکتے ہوں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن کے سامنے ہم نے سینہ کھولا ہوتا ہے، وہی سینے کے سب سے نازک مقام پر ایک خنجر اتار دیتے ہیں اور ہم انھیں محض دیکھتے رہتے ہیں، ہماری زبان پر تالا پڑ جاتا ہے اور ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اس صحرا میں پہنچ گئے ہوں، جہاں دنیا کی سب زبانوں کے الفاظ ریزہ ریزہ ہو کر، ریگستانی ذرو ں کی مانند پڑے ہوں۔
ہم بے زبانی کے بیابان میں ایک بگولہ بن جاتے ہیں۔ آسمانوں کی جانب اڑتے ہیں اور وہاں سے دھتکار لے کر لوٹتے ہیں۔
رسول، میں خود سے پوچھتا ہوں، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہماری ان کہی اور خاموشی بھی بڑھتی ہے۔
دنیا میں کتنے بوڑھے ہیں، جو قبر میں پہنچنے سے پہلے، کسی کونے میں سمٹتے جاتے ہیں۔ کبھی یہ گھر کا ایک کونا ہوتا ہے، کبھی گلی کا، کبھی کسی شہر کے سب سے مصروف بازار کا یا کسی کافی ہاؤس کا یا کسی اولڈ ہوم کا یا کسی بڑی لائبریری کا، یا کبھی ان کی اپنی ذات کے خاموش، سیلن زدہ حجرے کا!
قبر کی ابدی تنہائی وسکوت میں دھکیلنے سے پہلے، بوڑھوں کو، بھری پری دنیا میں تنہا اور خاموش کیوں کیا جاتا ہے؟
کیا ہماری تہذیب، کسی کو آخری الوداع کہنے کا سلیقہ تک دریافت نہیں کرسکی؟
میں اپنے سرخ رجسٹر سے کچھ مزید ناخواندہ اوراق سامنے لانا چاہتا ہوں۔
ویسے سب سے بڑا ورقِ ناخواندہ تو میں خود ہوں۔ اتنا کچھ لکھنے، کہنے، سنانے کے بعد بھی، میں، رسول، حمزہ تسادا کا بیٹا، ایک ورقِ ناخواندہ ہے۔ اس وقت جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں، مجھے محسو س ہورہاہے، جیسے میری عبارت کسی نے پڑھی، نہ زبان کسی نے سمجھی۔ خود کوبھی کہاں پور ا پڑھ سکا! خود مجھے اپنی زبان پوری کب سمجھ آسکی!
میں ورقِ ناخواندہ ہی نہیں، ایک ایسا گیت بھی ہوں، جسے پورا گایا نہ جاسکا۔
اور جتنا گایا گیا، اسے پورا سنا کب گیا؟
میں بیابان میں دی گئی ایسی پکار ہوں، جو آسمانوں تک پہنچی، مگر ان سنی ہی لوٹا دی گئی اور واپس میرے ہی دل میں گہرا شگاف کرگئی۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ گھر کے ایک تاریک، ترک کیے گئے کونے کے طاقچے میں دھری، ایک کہنہ بوسیدہ کتاب ہوں۔
مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ میں خود سے سوال کرتا ہوں۔ مجھے اپنی قصبے تساد ا سے لے کر داغستان تک، ماسکو سے پیرس تک، ایشیا، افریقا تک۔۔ سنا گیا، پھر بھی میں کیوں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے پڑھا اور سنا نہیں گیا؟
کیا میں حریص واقع ہوا ہوں؟
میں مانتا ہوں کہ اپنی شہرت و پذیرائی کے سلسلے میں مجھ میں حرص ہے، مگر یہ وہ حرص نہیں ہے جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے ہوتی ہے یا دوسروں سے، ان کی محنت کا پھل ہتھیانے کے لیے۔
میں مانتا ہوں کہ میں نے چاہا ہے کہ لوگ میرا نام جانتے ہوں اور میری شاعری کے لیے، ان کے دلوں میں قدر ہو اور میرا نام جب پکارا جائے تو اسے کئی لوگ سن رہے ہوں اور میری طرف اشتیاق اور رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوں۔
میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ جب میرے ساتھ یا میرے علاوہ کسی دوسرے شاعر کا ذکر ہوا ہے تو مجھے تھوڑی سی بے چینی ہوئی ہے، مگر میں نے اسی لمحے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ میرا دل، دوسروں کی تحسین کے لیے کشادہ کیوں نہیں ہے؟
اسی لمحے مجھے محسوس ہوا ہے کہ اصل مسئلہ خود کو خدا کی مانند محسوس کرنا ہے، یعنی ہر جگہ، ہر وقت خود ہی کو دیکھنے اور اپنی تمجید و تحسین کی لاشعوری آرزو پید اکر لینا ہے۔
لیکن میں نے خود کو سمجھایا ہے کہ دیکھ رسول، ایک آدمی کے لیے، ا س سے زیادہ شرم ناک بات کوئی نہیں کہ وہ اپنے بشر ہونے کی نفی کرے، اپنی حدوں سے ماورا ہونے کی کوشش کرے اور خود کو وہ کچھ سمجھے جو وہ نہیں ہے۔ خدا کی مملکت میں، آدمی نے جب بھی پہنچنے کا دعویٰ کیا ہے، اس نے سب سے زیادہ ستم آدمیوں ہی پر ڈھائے ہیں۔
کسی صاحبِ کمال کی، ٹھیک وقت پر تحسین نہ کرنا، صرف اس سے ناانصافی نہیں ہے، ایک عہد شکنی بھی ہے۔ خود سے اور سماج سے کیا گیا عہد۔ یہ عہد کہ ہم فن کی صداقت پر مصلحت سے کام نہیں لیں گے۔ ہم اس طرح کے کتنے ہی خاموش عہد خود سے اور دنیا سے کیا کرتے ہیں۔
میں نے اپنے دل کو دوسرے سب انسانوں کے کارناموں کے لیے کشادہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
اور میں نے محسوس کیا ہے کہ دوسروں کی بر محل تحسین نے ہر بار مجھے ایک قید سے بازیاب کرایا ہے۔ اپنی ہی تعریف کی ہر وقت آرزو آدمی کے لیے قید خانہ بن جایا کرتی ہے۔
کسی کے کارنامے کے لیے ایک ناروا کلمہ، رسول کے لیے، جرم رہا ہے۔
جرم کے احساس سے، بھاری کوئی احساس نہیں۔
(زیر اشاعت: "میراداغستانِ جدید" سے ایک ورق)

