Masnoi Zahanat, Shaoor, Taaqat, Mazrat, Sharmindagi
مصنوعی ذہانت، شعور، طاقت، معذرت، شرمندگی

مصنوعی ذہانت، مکمل انسانی دماغ کی نہیں، محض اس کی ایک خصوصیت: ذہانت کی نقل ہے۔ اس کے پاس بے مثل و بے انتہا ذہانت ہے، لیکن شعور کی کوئی رمق نہیں ہے۔ سادہ وجہ یہ ہے کہ ذہانت کی نقل کی جاسکتی ہے، شعور کی نہیں۔
ذہانت کی استعداد کی کمی کا إحساس انسان کو ہوا کرتا ہے اور اس کی تلافی کی کئی صورتیں انسان ایجاد و اختیار کرتا ہے، مگر شعور کی کمی کی تلافی ممکن نہیں۔
ذہانت، چیزوں کی تفہیم کرتی ہے، انھیں منطقی ترتیب میں لاتی ہے، ان کے جدا خصائص کو پہچانتی ہے، ہر ایک خصوصیت کا تجزیہ کرتی ہے اور یہ تجزیہ خالص منطقی یعنی عقلی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے اور ان چیزوں کی افادیت، ضرورت اور مستقبل کے امکانات کا احاطہ کرتی ہے اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔
منطق، تعقل اور فیصلہ، ذہانت کے اہم اجزا ہیں۔ ذہانت کے درجے ہیں۔ یہ درجے، ذہانت کی کارکردگی کی بنا پر ہیں۔
یہ کہ چیزوں کی تفہیم کس سرعت سے، کتنے وقت میں کی جاتی ہے اور یہ تفہیم کتنی درست ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ذہانت میں غلطی، نقص، کمی کا امکان ہوا کرتا ہے۔
ذہانت اوسط درجے سے اعلیٰ درجے تک کی ہوسکتی ہے۔ انھی درجوں کے حساب سے، چیزوں کی تفہیم محدود یا وسیع، درست یا ناقص ہوا کرتی ہے۔ ذہانت اپنی غلطیوں کو پہچاننے اور ان کی اصلاح کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بنا ہر انسانی علم کی ترقی میں ذہانت کا نہایت اہم کردار ہے۔
دوسری طرف شعور، اپنے ہونے، ایک مقام پر ہونے اور ایک خاص وقت میں ہونے، ایک خاص طرح پر ہونے، دوسروں سے متعلق ہونے، اپنے اور دوسروں کے لیے مخصوص جذبات کا حامل ہونے اور اس سب کے ہونے کی آگہی کا نام ہے۔
ذہانت کے علم اور شعور کی آگہی میں فرق ہے۔ ذہانت کا علم بیرونی دنیا سے متعلق ہوتا ہے، منطقی و سائنسی ہوتا ہے اور کافی حد تک غیر جانب دار ہوتا ہے(مکمل غیر جانب داری اس لیے ممکن نہیں کہ ذہانت، جن معلومات پر انحصار کرتی ہے، ان میں تعصبات مضمر ہوسکتے ہیں)، جب کہ شعور کی آگہی آدمی کی کلی دنیا سے متعلق ہوتی ہے۔
یعنی وہ سب کچھ، جسے آدمی بہ طور دنیا محسوس کرتا، تصور کرتا، تخیل میں لاتا، خوابوں میں دیکھتا اور جس سے حقیقی طور پر متعلق ہوتا اور نبرد آزما ہوتا ہے۔
ذہانت کے علم کا رخ متعین اور واضح ہوتا ہے، جب کہ شعور کی آگہی کلی، تہ دار، ہمہ سمتی و ہمہ گیر ہوتی اور اسی سبب سے، مبہم، بھید و اسرار میں لپٹی ہوا کرتی ہے۔ یہ تمام قسم کے محسوسات وتخیلات کو محیط ہوا کرتی ہے۔ اس کا مکمل اظہار تو کہیں، کبھی ممکن نہیں، مگر اس کا سادہ مگر مئوثر اظہار، تجربے، میں ہوا کرتا ہے۔
تجربہ کیا ہے؟ ایک ایسی حالت، جس میں حدیں پگھل گئی ہوں، لہریں ایک دوسرے کو کاٹ رہی اور ایک دوسرے میں مدغم ہورہی ہوں اور ایک بالکل نئی دنیا کی طرف کوئی دروازہ، جیسے کھل گیا ہو، رنگ ونور، ظلمت و تاریکی کا ایک سیلاب سا آگیا ہو، فرشتے وشیاطین، ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہوں اور ایک خالص بشری تبسم کی موج، ہر شے سے مس ہوتی محسوس ہورہی ہو۔
جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈگر نے انسانی شعور و ذہن کی یک جائی کے ضمن میں ایک اصطلاح استعمال کی تھی: داسائن (Dasien)۔ جسے انگریزی میں being there کہا گیا ہے۔ انگریزی کا being، وجود سے زیادہ ہستی کا مفہوم رکھتا ہے۔
یعنی دنیا میں انسان کا بہ طور ہستی موجود ہونا، کسی تفریق و تجزیے کے بغیر موجود ہونا۔ یہ موجودگی، کسی شے کی مانند نہیں، بلکہ ایک ایسی ذات ہے جو مسلسل خودکو دنیا پر اور اپنے آپ پر منکشف کررہی ہے اور انکشاف کا یہ عمل منفعل نہیں، فعال ہے۔
واضح رہے کہ ہستی کسی اور(کسی خیال، تصور، عقیدے، آئیڈیالوجی) کو نہیں، خود ہی کو، اپنی اصل کو، اس اصل پر شرمندہ، متکبر یا متنفر ہوئے بغیر، منکشف کرتی ہے۔ شرمندگی وتکبر، انسان کو مکمل طور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔
ہائیڈگر، ڈیکارٹ کے مشہور قول"میں سوچتا ہوں، میں ہوں" کو ناقص سمجھتا ہے۔ اس سے انسانی ہستی، محض سوچنے والی مخلوق کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔
مصنوعی ذہانت، فلسفے میں اگر کسی نظریے سے رشتہ قائم کرتی ہے تو وہ یہی ڈیکارٹ کا نظریہ ہے۔
مشینی ذہانت سوچتی ہے، اس لیے وہ ہے۔ اس کا ہونا، سراسر سوچنے، دلیل دینے اور نتائج اخذ کرنے پر منحصر ہے۔ دوسری طرف جسے ہم نے شعو ر کہا ہے، ا س کا تعلق انسان کی ہستی سے ہے۔
اس ہستی کا اظہار تجربے کی صورت ہوتا ہے۔ ویسے تو دنیا میں آدمی کا ہونا، ایک مسلسل تجربہ ہے، مگر کچھ لمحات ایسے آتے ہیں، جب وقت، آدمی کے لیے رک جاتا اور بے معنی ہوجاتا ہے۔ وقت، سب چیزوں کو رفتار مہیا کرتا ہے، یا ان پر رفتار کو مسلط کرتا ہے، مگر کسی لمحے، وقت کا یہ کردار معطل ہوجاتا ہے، تب انسان اپنی کلی دنیا کا انتہائی مئوثرو طاقتور تجربہ کرتا ہے۔
اس تجربے کی ماہیت پر چند باتیں اوپر کہی جاچکی ہیں، یہاں صرف یہ کہنا ہے کہ اس نادر و نایاب تجربے میں، انسان خلق کرتا ہے: خود کو، ایک نئی دنیا کو۔
اہم بات یہ ہے کہ اس دنیا کی تخلیق میں دو چیزیں بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہیں: جمالیات اور اخلاقیات۔ مبادا غلط فہمی ہو، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ تخلیق میں اخلاقیات کو ایک بنے بنائے اصول کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا، بلکہ کسی خاص صورتِ حال سے دوچار انسان کے عمل کے امکانات کا جائزہ، عقلی نہیں، احساساتی بنیاد پر لیا جاتا ہے۔
انسان صرف راحت ورنج، غصہ، حسد، ہم دردی و ہم دلی اور ندامت و شرمندگی کے جذبات ہی محسوس نہیں کرتا، ان کے باہمی، الجھے ہوئے رشتوں کو بھی محسوس کرتا ہے۔ کئی بار انسانوں کے اخلاقی فیصلے، معروف اخلاقی اقدار کے برعکس بھی ہوا کرتے ہیں۔
سب سے اہم مثال منٹو کے افسانے ہیں۔ افسانے جانکی میں جانکی ایک سے زیادہ مردوں سے یکساں اخلاص کے ساتھ محبت کرتی دکھائی گئی ہے۔ وہ وفا اور بے وفائی کے روایتی اخلاقی تصور کو چیلنج کرتی محسوس ہوتی ہے۔ ٹھنڈا گوشت میں، ایشر شنگھ، جنسی وصل کے دوران، ایک زندہ جسم نہیں، لاش کا تجربہ کرتا ہے تو احساسِ ندامت کی زد پر آتا ہے۔
ایک سندر، جوان لڑکی کی لاش، اس کے پورے داخلی نظام کو درہم برہم کردیتی ہے۔ یہی صورت جمالیات کی بھی ہے۔
جمالیات محض ترفع بخش نہیں، ترفع شکن بھی ہوسکتی ہے۔ ایک گہرے نشاط کے ساتھ ساتھ، صدمے کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔
ذہانت کے علم پر درست و غلط کا اطلاق ہوتا ہے، جب کہ شعور کی آگہی پر سچائی وجھوٹ کا۔
تاہم درست وغلط کے پیمانے جس قدر واضح اور آفاقی ہیں یا ہونے کا قوی امکان رکھتے ہیں، صحیح وجھوٹ کے معیارات اتنے ہی شخصی، موضوعی اور اضافی ہیں۔
ذہانت پر اپنی غلطی کا کوئی جذباتی بوجھ نہیں ہوتا، جب کہ شعور پر جھوٹ کا ناقابلِ برداشت بوجھ ہوسکتا ہے اور سب سے بڑا بوجھ ندامت کا ہوا کرتا ہے۔ ذہانت، غلطی سے بچنے کی کوشش ضرور کرتی ہے، یعنی درست معلومات تک رسائی چاہتی ہے اور انھیں بہم پہنچانا چاہتی ہے، لیکن جب اس کے پاس درست معلومات نہ ہوں تو معلومات گھڑنے اور انھیں آگے پہنچانے سے، اسے دریغ نہیں ہوتا۔
ذہانت پر مبنی کھیلوں میں، طے شدہ، درست اصولوں سے روگردانی عام سی بات ہے۔
مصنوعی ذہانت بھی، کئی بار بالکل غلط معلومات دیتی ہے۔ یہ ہم سب کے تجربے میں ہے کہ جب چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک وغیرہ کے پاس کسی موضوع سے متعلق درست معلومات موجود نہ ہوں تو وہ اسی تیزی سے غلط معلومات مہیا کرتی ہے، جس تیزی سے، درست معلومات پہنچاتی ہے۔ وہ ہکلاتی نہیں ہے۔
یوں لگتا ہے کہ اس کے نظام میں روک ٹوک کی حامل کوئی قدر موجود نہیں ہے۔ وہ ایک خاص طرح کی معلومات کے پیٹرن کو سامنے رکھتے ہوئے، گویا معلومات گھڑلیتی ہے۔ وہ نشان دہی پر معذرت ضرور کرتی ہے، مگر شرمندہ نہیں ہوتی۔
شرمندگی کا تعلق، شعور سے ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ذہانت کا گہرا تعلق، طاقت سے ہے۔
اس کی معلومات اور علم بھی طاقت ہی کی ایک شکل ہے۔ طاقت، اپنی جگہ اور اپنی پوزیشن کو چھوڑنے پر مائل نہیں ہوتی۔ وہ مسلسل اور ہر حال میں عمل آرا رہنا چاہتی ہے۔
وہ یہ سمجھتی ہے کہ غلط معلومات بھی، اتنی ہی مئوثر ہوسکتی ہیں، جتنی درست معلومات۔ اس لیے کہ غلط معلومات بھی، درست معلومات کے پیٹرن کی پابندی کرتی ہیں۔ چناں چہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مصنوعی ذہانت معلومات کے جس سیلاب کو ہمارے سامنے لاتی ہے، وہ صحیح و غلط کا بہ یک وقت حامل ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔
بجا کہ مصنوعی ذہانت، معلومات وحقائق کے صحیح وغلط ہونے کا گہرا، سائنسی، فلسفیانہ علم رکھتی ہے، ایک پل میں، اس موضوع پر طویل تحریر ہمیں مہیا کرسکتی ہے، کئی بڑی کتابوں سے حوالہ جات بھی نقل کرسکتی ہے اور یوں ایک معتبر ذریعہ علم کے طور پر اپنی دھاک بھی بٹھاسکتی ہے، مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ ہمیں لازماً اور ہر موقع پر درست معلومات بہم پہنچائے گی۔ وہ اپنا تصور ایک دیو نما مشین کے طور پر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے کردار کو گہرائی میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی معذرت اور شعور کی شرمندگی میں فرق کو واضح کریں۔
مصنوعی ذہانت غلطی کی نشان دہی پر، کسی ردو کد کے بغیر، اپنی غلطی تسلیم کرتی ہے، معذرت کرتی ہے اور اپنی اصلاح کرتی ہے۔ اس کے لیے غلطی تسلیم کرنا، ایک قدر نہیں، اس کی پروگرامنگ کا ایک اصول ہے۔
وہ غلطی کے تمام لغوی، اصطلاحی، فلسفیانہ مفاہیم کا واضح علم رکھتی ہے اور اسی بنا پر غلطی کو پہچان لیتی ہے، مگر وہ غلطی کی نفسیات کی حامل نہیں ہے، یعنی غلطی وجود اور ذات، پر کیوں کر اثر انداز ہوتی ہے، غلطی سے خود اسے یا دوسروں کو کیا نقصان پہنچتا ہے اور اس نقصان کی جذباتی واحساساتی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے، وہ اسے ذرا بھر محسوس نہیں کرسکتی۔
اس کے لیے معذرت، ایک یکسر رسمی کلمہ ہے، جسے وہ ہر غلطی کی نشان دہی پر دہرالیتی ہے۔
اسے یہ تو یاد ہوسکتا ہے کہ اس نے کتنی بار غلطی کی، مگر اسے کوئی تاسف اور شرمندگی نہیں ہوتی۔
وہ شرمندگی وتاسف کے لغوی واصطلاحی مفہوم سے واقف ہے، یہ کس کیفیت وحالت سے عبارت ہیں، ان سے نہیں۔
تاسف وشرمندگی، صرف وہی وجود محسوس کرتے ہیں، جو شعور کے حامل ہیں۔
شرمندگی محض ایک خیال یا تصور نہیں ہے، ایک نفسیاتی وجذباتی حالت ہے جو کسی کے لیے پہاڑ کی مانند بھاری ہوسکتی ہے اور کسی کے لیے ایک ایسی تیز کٹار کی طرح، جو اس کے وجود کی ایک ایک رگ کو چیرتی محسوس ہوسکتی ہے۔
یہ حالت، آدمی کو اس کی اصل کے روبرو لاسکتی ہے اور اس سے کچھ بڑے فیصلے کرواسکتی ہے، جو خود آدمی کے خلاف ہوسکتے ہیں، یا اسے مکمل طور پر بدلنے والے ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا شرمندگی، ایک مصیبت، بحران، ایک نفسی بدنظمی ہے، جہاں سے دنیا کا بڑا آرٹ جنم لیتا ہے، جہاں آرٹ اور مذہب کی حدیں باہم ملتی ہیں، جب کہ غلطی، کسی نظام میں معمولی سا رخنہ ہے، جسے معذرت فی الفور پر کردیتی ہے۔
معذرت اور شرمندگی کا یہ فرق، طاقت اور اخلاقیات(فن، مذہب) سے گہرا رشتہ رکھتا ہے۔ اس نکتے کو آلڈس ہکسلے کے ناولBrave New World کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مصطفا مونڈ نام کا کردار، عالمی حکومت کا مطلق العنان حکمران ہے۔ وہ دنیا کو کسی رکاوٹ اور انتشار کے بغیر چلائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے سچائی نہیں، سیاسی استحکام اہم ہے۔ سچائی تک پہنچنے کے لیے جو آزادی درکار ہے، وہ اس کا بھی مخالف ہے۔
وہ لذت کام ودہن کو، آزادی پر ترجیح دیتا ہے۔ خدا، مذہب، آرٹ، ادب، موسیقی، اخلاقیات کو غیر ضروری ہی نہیں، اپنے نظامِ حکومت کے لیے خطرہ بھی تصور کرتا ہے۔
اس کے مقابلے میں جان دی سیویج نام کا ایک مقامی امریکی باشندہ ہے۔ اس کی تربیت روایتی ماحول میں ہوئی ہے، اسی لیے اسے وحشی (سیویج) کا نام دیا گیا ہے۔ ناول کے اٹھارویں باب میں مصطفا مونڈ اور جان دی سیویج کے درمیان ندامت و توبہ پر مکالمہ ہے۔
مونڈ کہتا ہے کہ "ندامت، سب سے غیر مطلوب جذبہ ہے۔ اگر تم نے کسی سے بدسلوکی کی ہے تو اس پر افسوس کرو اور یہ طے کرو کہ اگلی بار تم کسی سے بدسلوکی نہیں کرو گے۔ اپنی غلطی پر مت کڑھتے رہو۔ کسی غلاظت میں چکر کھانے سے، تم صاف نہیں ہوسکتے"۔
بہ ظاہر مونڈ کے یہ الفاظ، خیال انگیز اور قائل کرنے والے ہیں، مگر حقیقت میں یہ مونڈ یہ کہنا چاہتا ہے کہ عالمی حکومت کسی رکاوٹ کے بغیر، ہموار طریقے سے چلنا چاہتی ہے۔ ندامت سمیت، تمام روایتی اخلاقی اقدار، اس میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ لوگ، ریاست کا پرزہ بننے کے بجائے، اپنی ذات، اپنے شعور، اپنی آزادی اور سچائی کی جستجو میں منہمک ہوجاتے ہیں۔
مونڈ کے لیے ندامت، سیاسی ہم آہنگی میں مزاحم ہوتی ہے۔ دوسری طرف جان دی سیویج کہتا ہے کہ آدمی کو دکھ محسوس کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
مصیبت، جدوجہد، اخلاقی فیصلے ہی آدمی کو ایک باشعور وجود بناتے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ مصنوعی ذہانت، ہکسلے کے کردار مونڈ کی ایک نئی صورت ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ مونڈ کی مانند، دوسروں کو قائل نہیں کرنا چاہتی، مگر وہ مونڈ ہی کی مانند، طاقت وذہانت کے امتزاج کی حامل ہے۔
مصنوعی ذہانت کا یہ طریقہ زیادہ نفیس اور زیادہ مئوثر ہے۔
نوٹ: نمل، اسلام آباد کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار(15 اپریل 2025ء) میں پیش کیے گئے کلیدی خطبے سے اقتباس۔

