Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Manto Ki Qabar, Katba Aur Manto Ka Rat Jaga

Manto Ki Qabar, Katba Aur Manto Ka Rat Jaga

منٹو کی قبر، کتبہ اور منٹو کا رت جگا

منٹو میانی صاحب قبرستان میں دفن ہیں۔ میانی صاحب قدیم اور گنجان قبرستان ہے۔ کوئی ڈیڑھ سو ایکڑ پر پھیلا ہوا۔ اس کے باوجود قبر پر قبر چڑھی ہے۔ کچھ نئی قبروں نے پرانی قبروں کو نگل لیا ہے۔ دفن ہونے کے لیے دو گز جگہ چاہئے مگر یہاں اتنی جگہ بھی مشکل سے ملتی ہے۔ آدمی کو جیتے جی دنیا بھی جگہ نہ دے اور موت کے بعد قبرستان بھی۔۔ تو آدمی کہاں جائے؟

کس جہان کا رخ کرے؟ کیا وہ محض کسی کی یادوں میں دفن ہوسکتا ہے؟ کیا کسی کی یاد، آدمی کو اتنی جگہ دے دیا کرتی ہے؟

غلام اصغر اور عامر حسینی کے ساتھ منٹو کی قبر تلاش کرتے ہوئے یہی سوال ذہن میں تھا۔ ذہن میں اور بھی کئی باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ قبرستان ہیٹرو ٹوپیا ہے، ایک ایسی جگہ جو حقیقت کا حصہ ہوتی ہے اور اس حقیقت سے باہر بھی۔

سادہ لفظوں میں عام زندگی کا حصہ بھی ہے اور اس سے باہر اور الگ بھی۔ قبرستان شہر کا حصہ ہوتا ہے مگر شہر سے جدا اور باہر بھی۔ شہر کی چہل پہل اور نظم و اقدار، اسی شہر کے قبرستان میں گویا معطل ہو جاتے ہیں۔ قبرستان، شہر سے جدا اور عام طور پر فاصلے پر ہوتے ہیں مگر یہ زندگی کی سچائی کو مکمل کرتے ہیں۔ صرف جینا اور شورو غل، زندگی کی سچائی مکمل نہیں کرتے۔

منٹو کی تحریریں بھی ہیٹرو ٹوپیا تھیں، ممبئی اور لاہور کی روزمرہ زندگی کا حصہ بھی اور ان سے الگ بھی۔ منٹو کی تحریروں میں سماج کی کئی چیزیں، کئی خیالات، اخلاق، تصورات معطل ہو جاتے تھے۔

منٹو کی قبر پر وہ کتبہ اب موجود نہیں جو انھوں نے 1954 میں لکھا تھا۔ یہ کسی کو خواہ آٹو گراف دیا گیا ہو مگر یہ منٹو کی شخصیت کا عکس تھا۔ منٹو کو اپنی افسانہ نگاری کے خدا ہونے کا غرور تھا۔

منٹو جانتا تھا کہ وہ ہست و بود کے خدا کی لکھی تقدیر کے تحت خاک ہوجائے گا مگر اپنے افسانوی تخیل کے تقدیر کے آگے سرنگوں نہ ہونے کے عزم سے دست بردار نہیں ہوگا۔ اب بھی منٹو کی قبر پر جو کتبہ نصب ہے، اس میں منٹو کی روح، غالب کے لفظوں بول رہی ہے۔ لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں۔

جہاں میں آنے والے سب لوح جہاں پر درج نہیں ہو پاتے۔

کچھ دیر کے لیے محسوس ہوا کہ منٹو سفید کرتا پہنے اپنی قبر سے نکلا ہے۔ اس نے اپنی قبر پر نگاہ ڈالی ہے۔ آس پاس، دائیں بائیں دیکھا ہے۔ حیرت زدہ ہوا ہے۔ یہ کہتا محسوس ہوا ہے: کیا پورا شہر کسی حادثے میں مر گیا اور یہاں پہنچ گیا ہے؟

ہماری جانب دیکھتے ہوئے، بس مسکرایا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو، تم بھی یہیں کہیں پہنچو گے۔ میرا خیال تھا وہ سوگندھی، سکینہ، سلطانہ، ایشر سنگھ یا کمُ از کم بشن سنگھ کا ضرور پوچھے گا۔ مگر اس نے کوئی بات نہیں کی۔

مجھے لگا کہ اسے یقین ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خاک ہوگا نہ راکھ۔ اسی لیے وہ گہری افسردگی، جس کے کنارے پر تفاخر بھی تھا، مسکرایا، ایک ایسے دیوتا کی مانند جو خود خاک ہوجائے مگر اس کی تخلیق ابدیت پالے۔ میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ ابدیت پانے والے کردار، زندہ لوگوں کی روحوں میں حشر برپا کیے رکھتے ہیں اور کچھ تو مسلسل لوگوں کو بلکہ تاریخ کو کٹہرے میں کھڑا رکھتے ہیں، جیسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ۔

منٹو ہم جیسوں کی کہاں سنتا ہے۔ وہ ایک پل میں غائب ہوگیا۔ واپس آتے ہوئے مجھے خیال آتا رہا کہ منٹو قبر میں کب سوتا ہے، وہ تو مسلسل اپنی تحریروں میں ابدی رت جگا کاٹ رہا ہے، اپنی ہی بنائی گئی رات میں رت جگا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan