Main Zainab Ko Nahi Bhool Sakta
میں زینب کو نہیں بھول سکت

میں زینب کو بھول نہیں سکتا۔ داغستان کا کوئی شخص، زینب کو نہیں بھول سکتا۔
وہ سدا کی گلیوں میں پھرا کرتی ہے۔ جس وقت وہ سدا کی گلیوں میں دکھائی نہیں دیتی، تب اس کی موجودگی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
اس کے بغیر، سدا کی گلیاں بین کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ ان گلیوں کے گھروں کی عورتیں، زینب کی منتظر رہا کرتی ہیں۔
زینب نے ایک نہیں، دو نہیں، پانچ مردوں کو ٹھکرایا۔
کبھی کہتی ہے کہ وہ راستہ بھٹک کر داغستان میں آگئی ہے۔ وہ کسی اور جگہ کی رہنے والی ہے۔ وہ اپنے گھر کا پتا بھول گئی ہے۔
وہ سب کو حیر ان ہوکر دیکھتی ہے اور چیختے ہوئے کہتی ہے: تم کس مٹی کے بنے ہوئے ہو، ایک عورت کو گھر نہیں پہنچا سکتے؟
کبھی کہتی ہے کہ اس کے پاس بہت سامان تھا، سب یہیں کہیں کھوگیا ہے اور مل نہیں رہا۔ وہ سب گلیوں کی خاک چھان چکی ہے۔
کبھی کہتی ہے، یہ گلیاں اس کے سامان کو نگل گئی ہیں۔
وہ گلیوں کو اپنے ناخنوں سے کھودنے لگتی ہے اور خود کو زخمی کر لیتی ہے اور پھر بین کرتی ہے۔
کسی وقت کہتی ہے، ان گلیوں میں آدمیوں سے زیادہ بھوت پھرتے ہیں۔
کسی اور وقت کہتی ہے، میں بھی ایک بھوت ہوں، جوایک بار آدمی کی جون میں آنے کے بعد، واپس بھوت کی جون میں نہیں جاسکتا۔
کبھی کہتی ہے، پورا آوارستان، بھوتوں کی بستی ہے۔
روتے ہوئے کہتی ہے: بھوت آدمی بن جائیں تو اپنا ماضی بھول جاتے ہیں۔
کسی وقت کہتی ہے، زینب ماں کی کوکھ سے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ اپنی آواز میں گرج پید اکرکے کہتی ہے: تم نہیں جانتے، زینب کی عمر کئی سو سال ہے۔ تم سب بچے ہو، کل کے۔
پھر روتے ہوئے کہتی ہے: زینب کو زینب سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ ایک جگہ بیٹھ کر سر جھکائے رونے لگتی ہے۔
زینب اور بھی بہت کچھ کہتی ہے۔
اس کی اکثر باتیں شکستہ وبے ربط ہوتی ہیں، مگر کچھ باتیں، داغستان کے سب سیانوں کو حیران کر دینے والی ہوتی ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ وہ امام کی بیٹی ہے۔ امام کا گھر، ابوطالب کے گھر کے پاس ہے۔ امام کی دوبیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ امام نے اس کا نام زینب رکھا۔ وہ اتنی ہی خوب صورت تھی، جتنی ایک عورت ہوسکتی ہے۔ امام نے اٹھارہ سال کی عمر میں اس کا رشتہ، اپنے بھائی کے بیٹے سے طے کیا۔ زینب اس کے پاس پہنچ گئی۔ کہا: کیا تم اپنی بہن سے شادی کروگے؟ میں تمھاری بہن ہوں۔
اس کے بعد چار جگہ اس کے والد نے اس کی بات چلائی۔ اس نے سب کو انکار کیا۔ پچیس برس کی ہوئی تو کہنے لگی۔ میں کسی مرد سے شادی کروں گی۔ کہتی: پورے داغستان میں کوئی مرد نہیں ہے۔
ایک عورت سے زیادہ کون، مرد کو پہچان سکتا ہے۔ اس نے اپنے باپ کے سامنے کہہ دیا۔
اس کی ماں نے اسے دھکا اور بد دعا ایک ساتھ دی۔
وہ چیخ پڑی: اماں تم نے مرد اور عورت دونوں کو پہچاننے کی صلاحیت کھودی۔
اس نے پانچویں مرد سے کہا کہ وہ اس مرد سے شادی کرے گی، جسے خود بنائے گی۔
وہ مرد بنائے گی۔ لوگ اس کا مضحکہ اڑانے لگے۔ اس نے کسی کی پروا نہیں، لوگوں کے ٹھٹھو ل کی نہ ان کی لاتعلقی کی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی۔ ایک شخص، خواب میں ایک عورت کا مجسمہ کئی سال تک بناتا ہے۔ ایک دن وہی عورت، زندہ ہوجاتی ہے۔ وہ اس سے شادی کرلیتا ہے۔
مرد کسی ایسی عورت کو قبول نہیں کرسکتا، جسے اس نے برسوں خواب میں نہ دیکھا ہو۔ خواب میں دیکھا ہر نقش، پائیدار ہوتا ہے۔ زینب کہتی ہے کہ وہ بھی مرد کا مجسمہ خواب میں بنانے پر کام کررہی ہے، مگر اسے داغستان میں اس مجسمے کے لیے مٹی مل رہی ہے، نہ پتھر، نہ کانسی، تانبا، نہ کوئی اور دھات۔
اس لیے وہ کہتی ہے، وہ اس مٹی کی ہے ہی نہیں۔
امام، زینب کو دیوانی کہتا ہے۔ پہلے وہ اس کے گلیوں میں گھومنے پر مشتعل، رنجیدہ اور متاسف ہوتا تھا، مگر جب اسے یقین ہوگیا کہ کوئی مرد اس کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھ سکتا، نہ وہ کسی کی طرف دیکھتی ہے، تب سے اس نے اسے تقدیر کے حوالے کردیا ہے۔
زینب کہتی ہے، وہ اپنے خواب میں ایک مرد کا مجسمہ بنانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ وہ سدا کی گلیوں میں پرانے، آوارہ گرد شاعروں کی گیت گاتی ہے۔ ان گیتوں میں صرف شکوہ ہوتا ہے۔
سدا کی عورتیں کہتی ہیں کہ وہ ان کے دل کی باتیں، گلیوں میں سرعام کہتی ہے۔ سب عورتیں، اس کی دل سے عزت کرتی ہیں، مگر وہ کسی کے گھر میں قدم رکھتی ہے، نہ کسی سے کچھ قبول کرتی ہے۔ وہ سیاہ یا سرخ چوغے میں ہوتی ہے۔
(زیر اشاعت "میرا داغستان جدید" سے اقتباس)

