Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Kya Hum Zamana e Aman Mein Aa Gaye Hain

Kya Hum Zamana e Aman Mein Aa Gaye Hain

کیا ہم زمانہ امن میں آگئے ہیں

(11 مئی، 2025ء کے روزنامچے سے ایک ورق)

چار دنوں کے بعد، آج کا دن معمول کا دن ہے۔ لیکن کیا واقعی؟

چاردنوں کا ایک ایک لمحہ خوف، تشویش، اضطراب اور بے یقینی سے بھرا تھا۔ آج ان سب کا دباؤ کم ہوا ہے۔

اگرچہ شہر کھلے تھے، صرف تعلیمی ادارے اور فضائی راستے بند تھے، پھر بھی کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا، جب خوف اور بے یقینی نے نہ آن لیا ہو۔

گاڑی میں گھر سے کہیں جاتے ہوئے، یہ خوف ناک اندیشہ رہتا کہ اگر کوئی میزائل یا کسی ڈرون کا کوئی ٹکڑا آن گرا تو؟

میری بیوی اور میرے بچوں نے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ کی کوئی یادداشت نہیں رکھتے، انھیں کارگل کی جنگ کا پتا ہے جو شہروں تک نہیں پہنچی تھی، مگر ان کے اندر بھی جنگ کا ایک قدیمی خوف موجود تھا۔ ہم سب جنگوں کا نسل درنسل منتقل ہونے والا خوف رکھتے ہیں۔

میں خود سے یہی سوال کرتا ہوں کہ کیا واقعی یہ معمول کا دن ہے۔

کیا چار دنوں کے خوف کے بعد، کوئی پرانا معمول، اپنی اصلی صورت میں لوٹ سکتا ہے؟ کیا سیز فائر، گزشتہ چار دنوں میں رونما ہونے والے واقعات کے جذباتی وذہنی اثرات کو مٹاسکتا ہے؟

کیا ہم انسان، اس قابل ہوگئے ہیں کہ خوف اور صدموں سے، بس ایک دن میں نکل آئیں۔

بجا کہ اس بار جنگ اتنی دہشت انگیز اور تباہ کن نہیں تھی، جیسی کہ پہلی جنگیں تھیں، مگریہ پہلی جنگوں سے زیادہ خوف کی حامل تھی۔

خوف محض یہ نہیں تھا کہ کسی وقت کوئی ڈرون یا میزائل ہم پر آ ن گرے گا، اس بات کا بھی خوف تھا کہ اگر دونوں میں سے کسی ایک ملک نے ایٹم بم چلا دیا تو؟ جنگوں میں معاہدوں کی پروا کون کرتا ہے!

یہ خوف، ایک عام، معمولی خوف نہیں تھا۔ ایک ڈرون اور میزائل بھی تباہی لاتے ہیں، مگر ایٹم بم۔۔ اس کی تباہی کا تخیل باندھنا بھی آسان نہیں ہے۔

میں نے ایک سے زیادہ بار یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر ایٹم بم کسی ایک ملک نے چلا دیا تو کیا ہوگا؟

6 اگست 1945ء کو یاد کرتا ہوں کہ اس روز کیا ہوا تھا۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں روشنی کا گولاچمکا تھا۔ درجہ حرارت دس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

میں اسی پہلی بات پر رک جاتا ہوں۔ یہاں جون جولائی میں، جب درجہ حرارت پچاس ڈگری تک پہنچتا ہے تو میری جلد جلتی محسوس ہوتی ہے۔ میں چند منٹ سے زیادہ دھوپ میں نہیں چل سکتا۔ میں چھاؤں تلاش کرتا ہوں یا کوئی ٹھنڈی پناہ گاہ۔ دس لاکھ ڈگری؟ میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری یادداشت میں گرم ترین جگہ کون سی ہے؟

میں نے کچھ صحرا دیکھے ہیں اور ان میں سراب۔ درختوں پر زبانیں نکالے ہانپتے پرندے دیکھے ہیں اور پتلی چھاؤں میں زبانیں نکالے جانور۔ صحرا کی دھوپ، جھلساتی ہے۔ انسانوں اور جانوروں کی جلد کو۔ سب سے گرم جگہ کو یاد کرتے ہوئے، جہنم کی آگ ذہن میں آتی ہے۔

سورہ بقرہ کے مطابق، آدمی اور پتھر اس کا ایندھن ہیں۔ ایک اور جگہ بیان ہے کہ یہ آگ آدمی کی کھال اتار دیتی ہے۔ آتشِ دوزخ سے متعلق کئی احادیث ہیں، جن میں اسے مشرق سے مغرب تک جلانے والی آگ کہا گیا ہے۔ دس لاکھ ڈگری کی سفید آگ؟ زمین پر دوزخ ہے۔ ایک دوزخ خدا نے گناہ گاروں کے لیے بنایا ہے، ایک دوزخ زمین کے خداؤں نے، بے گناہ لوگوں کے لیے۔ خدا کا دوزخ کس نے دیکھا ہے، مگر زمینی خداؤں کے دوزخ کو کروڑوں لوگ دیکھ اور بھگت چکے ہیں۔

ہیروشیما میں صرف روشنی کا دوزخ نہیں پیدا ہوا تھا، دھماکے کی ایک لہر بھی چلی تھی، ہوا کی رفتار ایک ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگئی تھی۔ گویا روشنی کے دوزخ کا محیط پھیلا رہی تھی۔ صرف دس سیکنڈ میں، یعنی جتنی دیر میں، میں ایک جملہ لکھتا ہوں، چار کلومیٹر کے دائرے میں جو کچھ موجود تھا، جل گیا تھا۔

میرا خیال ہے کہ جلنے کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ دس لاکھ ڈگری کی آگ، جلاتی نہیں، نگل جاتی ہے۔ روشنی کی آگ نے سب کچھ نگل لیا تھا۔ ایک گھنٹے کے اندر تاب کاری کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ سیاہ بارش۔ زمین پر ایک نیا موسم شروع ہوگیا تھا، جسے سائنس کی زبان میں جوہری موسم (Neuclear Winter) کہتے ہیں۔ دھویں اور راکھ کا بادل فضا میں چھا جاتا ہے جو سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے۔ زمین کا درجہ حرارت، پانچ سے دس ڈگری کم ہو جاتا ہے۔ ہیروشیما میں ڈیڑھ لاکھ افراد مر گئے تھے۔ باقی مخلوقات کا شمار ہی نہیں۔

1945ء کے بعد کے جوہری بم، کہیں زیادہ طاقتور یعنی مہلک ہیں۔ مہلک لفظ بھی بہت چھوٹا ہے۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے: وہ ایک ایسی بربادی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو حدِتصور سے باہر ہے۔ جوہری بم تباہیوں کے طویل سلسلے کا نام ہے۔

وہ فوری تباہی کے ساتھ، طویل عرصے تک تباہی لاتا رہتا ہے۔ اس کی تاب کاری، رسنے والا مہلک پھوڑا ہے۔ پوری انسانی تہذیب، مٹ سکتی ہے۔ ایک زبان، ایک جگہ کے مٹنے کا تصور کس قدر جاں لیوا ہے؟ پوری انسانی تہذیب کے خاتمے کا تصور۔۔ آدمی کے پاؤں سے زمین کھینچ لیتا ہے۔

لیکن، جوہری بم کی تباہی، کیا واقعی انسانی حدِ تصور سے باہر ہے؟ سچ یہ ہے کہ وہ میرے تصور کی حد سے باہر ہے۔ میں اپنے بہترین لمحوں میں بے کنار وسعتوں، انتہائی گہرائیوں، ان گنت تنوع کا تصور باندھ سکتا ہوں۔ مجھے اپنی چھوٹی سی کھوپڑی میں بے کنار سپیس باقاعدہ دکھائی دیتی ہے، مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں جوہری بم جو دوزخ برپا کرسکتا ہے، ا س کا تصور نہیں کرسکتا۔ اس کا سبب، میری برداشت اور حوصلہ ہے، میں اتنی بڑی تباہی کے خیال سے لرزتا ہوں۔

لیکن مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ جوہری بم کی تباہی کا تصور، انسانی تصور کی حد سے باہر نہیں ہے۔ ہمیں انسانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس دوزخ کا تخیل باندھتے ہیں اور پھر اپنے تخیل سے وفادار رہتے ہوئے، اسے عملی صورت دیتے ہیں، اسے دیکھتے ہیں۔ وہ پورے کرہ ارض کو بھون ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس، زمین کا متبادل بھی موجود ہے۔ آسمان میں ڈولتا کوئی دوسرا سیارہ۔

اتنے بڑے بڑے خوف کی موجودگی میں کیا، آج کے دن کو معمول کا دن کہا جاسکتا ہے؟

بہ ظاہر جنگ ختم ہوگئی ہے اور اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ اس جنگ کے تجزیے ہیں۔ پاکستان میں اپنی فتح کا جشن ہے اور بھارت کے یہاں تاسف اور دفاع ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مکمل تباہی کا خوف ختم ہوگیا ہے؟ اور ہم زمانہ امن میں آگئے ہیں؟

امن کا زمانہ کیا ہوتا ہے؟ دو جنگوں کا درمیانی وقفہ؟

باقی دنیا نے امن کے زمانے دیکھ لیے ہیں، ہمارے لیے تو ابھی تک امن، دوجنگوں کا درمیانی وقفہ ہی ہے اور اس وقفے میں نئی جنگ کی تیاری کی جاتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ ہم جنوبی ایشیا کے باشندے، جس دنیا میں جی رہے ہیں، یہاں جنگیں بس کچھ دیر کے لیے ٹلتی ہیں۔ وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

پہلی وجہ ایک جنگ کے بعد، فاتح کے جشن کی نوعیت اور شکست خوردہ کاتاسف اور شرمندگی ہے۔ کوئی قوم فتح حاصل کرنے کے بعد، جب سڑکوں پر آتی ہے، گاتی ہے، رقص کرتی ہے اور نعرے لگاتی ہے، یعنی جشن مناتی ہے تو اس دوران کچھ جنگی ترانے بھی چلتے ہیں اور ان جنگی ہتھیاروں کی نمائش بھی ہوتی ہے، جن کی مدد سے جنگ جیتی گئی ہوتی ہے۔

ہتھیار سب سے مطلوب چیز بن کر ظاہر ہوتے ہیں، کچھ کچھ پرانے دیوتاؤں کے قریب۔ انھیں باقاعدہ تکریم دی جاتی ہے۔ ان کے لیے، اپنی بنیادی ضرورتوں تک کو قربان کرنے کا جذبہ محسوس کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔ ان دعاؤں میں، خدا کا شکر ادا کیا جاتا ہے اور دشمن کی مزید بڑی ذلت کی تمنا کی جاتی ہے۔ خدا کے حضور اپنی پیشی کے موقع کی مقدس فضا میں، ایک" مکروہ دشمن "کی شبیہ کاندھوں پر موجود ہوتی ہے۔

شکست کھانے والی قوم کے لیے تاسف اور شرمندگی کے جذبات بہت اہم ہوتے ہیں۔ انھیں ایک نئی دنیا کی تعمیر کے خواب کا مسالہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور انتقام کے نئے اور مہلک ترین طریقوں کی دریافت کا ذریعہ بھی۔ عام طور پر دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مزید ہتھیار، مزید نئی جنگی ٹیکنالوجی ایجاد کی جاتی یا خریدی جاتی ہے اور اس وقت کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے، جب شکست کا بدلہ لیا جاسکے۔

اپنے زخم کو بھلایا نہیں جاتا، اسے دوسروں کے وجود کو چیر پھاڑ ڈالنے کا سبب اور ذریعہ بنایا جاتا ہے۔

جب تک دنیا میں ہتھیاروں کی جذبہ آفریں نمائش کا سلسلہ موجود ہے، دشمن کی ذلت کا جشن اور بدلے کی تمنا دل میں موجزن ہے، زمانہ امن نہیں آسکتا۔

دوسری وجہ زیادہ گہری ہے۔ اسے دوزخ کی آرزو کا عارضہ کہنا چاہیے۔ یہ خالص انسانی عارضہ ہے اور کچھ جگہوں پر یہ عارضہ شدت سے موجود ہے اور ہمارے خطے میں خاص طور پر۔

کسی اور مخلوق میں، اپنی طبیعی بقا سے آگے کچھ نہیں ہے۔ انسانوں میں اپنی طبیعی بقا سے آگے بہت کچھ ہے اور اسی بہت کچھ میں جنگیں بھی شامل ہیں۔

باقی مخلوقات کا بقا کا تصور بھی سادہ ہے: خود کو اور اپنی اولاد کو باقی رکھنا۔

جانور، حشرات، پرندے بھی سازشیں کرتے ہیں، جال بچھاتے ہیں، لڑتے ہیں، لڑائی میں حد درجہ مہلک بھی ہوجاتے ہیں، مگر اس سب کا مقصود، اپنی اور اپنی نسل کی بقا ہے، محض طبیعی بقا۔ وہ اپنی موت اور گم نامی کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی سازشوں، لڑائیوں کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کرتے۔ وہ اپنے آباؤاجداد کے کارناموں کی کوئی یادداشت نہیں رکھتے اور اس بنا پر اپنی یا کسی دوسری نوع کا اپنا دشمن تصور نہیں کرتے۔

وہ واقعی دنیا کو ایک سٹیج سمجھتے ہیں۔ اپنا کردار ادا کرکے، ایک ابدی دھند میں گم ہوجاتے ہیں تا کہ دوسرے ان کی جگہ لے سکیں۔

ابدی دھند میں گم ہونے والوں کو خبر نہیں ہوتی کہ ان سے پہلے، کس نے کس قسم اور درجے کا کردار ادا کیا تھا اور نہ نئے آنے والے کو اپنے سے پہلے کی اداکاری سے مقابلے کا کوئی خیال ہوتا ہے۔

وہ سٹیج پر اپنی جگہ اور کردار کے سوا کچھ جانتے ہیں، نہ اس کی فکر کرتے ہیں۔

وہ حقیقی اداکار ہیں، جنھیں اپنے رول اور اس کی حد اور نوعیت سے باہر اور بالا کسی شے کی پروا نہیں۔

انسانوں کی کہانی دوسری ہے۔ ان کا بقا کا تصور پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے۔ انھیں اپنی اور اپنی آل اولاد کی بقا کے علاوہ بھی بہت کچھ مطلوب ہوتا ہے۔ وہ اپنے نام، کام اور اپنی ہر طرح کی کمائی کی بقا بھی چاہتے ہیں۔ صرف بقا ہی نہیں، ان میں لامحدود اضافہ بھی چاہتے ہیں، اپنی آخری سانس تک۔

انسان بھی دنیا کو سٹیج کہتے ہیں، مگر وہ اپنا کردار ادا کرکے، ابدی دھند میں گم ہو جانے سے ڈرتے ہیں۔ انسان واحد مخلوق ہے، جسے گم نامی کا باقاعدہ خوف ہے۔ یہ خوف، اپنی گہرائی، ہیبت اور اثر میں موت کے خوف سے کم نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے زمانے ہی میں نہیں، تاریخ اور آگے کئی زمانوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ زندہ رہنے کے تمام لغوی، استعاراتی اور علامتی مفاہیم میں۔

باقی سب مخلوقات کی اداکاری میں، فطری بے ساختہ پن ہوتا ہے۔ انسان، دنیا کے سٹیج پر اداکاری کرتے ہوئے بے ساختہ پن پیدا کرنے کی مشقت کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہر لمحہ اپنا مقابلہ، اپنے ساتھی، معاصر اور تاریخ میں نام ور ادکاورں سے کرتا رہتا ہے اور ان سے مختلف اور منفرد ہونے کی جاں لیوا مشقت کرتا ہے۔ انسانوں کے لیے دنیا کے سٹیج پر موجود رہنا، انتہائی تھکا دینے والا عمل ہے۔

انسان کے لیے اپنی، اپنی آل اولاد اور اپنے قبیلے اور قوم کی بقا، محض طبیعی بقا نہیں ہے۔ وہ ان سب کے بارے میں اپنے ہی قائم کیے گئے تصورات کی بقا بھی چاہتا ہے، جن میں سب سے اہم اپنی قوم کی شناخت کا تصور ہے اور یہیں سے وہ عارضہ پیدا ہوتا ہے، جسے ہم نے اوپر دوزخ کی آرزو کہا ہے۔

فرائیڈ پہلی عالمی جنگ کے اسباب کی تلاش میں، جبلتِ مرگ پر پہنچا تھا۔ جینے کی جبلت کے پہلو میں، موت کی جبلت بھی موجود ہے۔ زمینی اور آسمانی بہشت میں ابدی بقا، انسان کا عظیم خواب رہا ہے۔ اسی خواب کے پہلو میں اور اسی خواب ہی کے سبب، دوزخ کی تمنا بھی موجود ہے۔

انسان نے اپنے لیے بہشت اور دوسروں کے لیے دوزخ کی تمنا کی ہے۔ " دوسرے " کے تصور کے بغیر، دوزخ وجود نہیں رکھتا۔ سارتر یاد آتا ہے۔ اس کے ڈرامے No Exit کا تھیم ہی یہ ہے کہ "دوسرا" شخص، آدمی کا جہنم ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ ہر دوسرا شخص جہنم نہیں ہے، صرف وہ جو اتفاق سے، تقدیر یا تدبیر سے ہمارے مقابل آتا ہے اور ہمارا حریف بنتا ہے، وہ جہنم ہے۔

دوسرے شخص اور "دوسرے " میں بہت فرق ہے۔ دوسرا شخص ہمارا دوست، مددگار، راہ نما، مربی، عزیز بھی ہوسکتا ہے، مگر "دوسرا " ہمارا دشمن ہے۔ وہ ایک "مکمل غیر" ہے۔

دوسرے اشخاص فطرت کی پیداوار ہیں، مگر "مکمل غیر " خالص ہم انسانوں کی۔ یہ ہم ہیں جو اپنے آس پاس کے انسانوں کو اپنا"مکمل غیر "، بناتے ہیں۔ بڑی محنت اور تحقیق سے۔ اپنے حالیہ تعلقات، اپنی یادداشت، اپنی تاریخ سے تحقیق کرکے، ایسے عناصر جمع کرتے ہیں، انھیں مرتب کرتے ہیں، ان سے ایک ہیولا تشکیل دیتے ہیں اور پھر اسے دوسرے شخص کی شناخت بنادیتے ہیں۔

وہ ایک " مکمل غیر" بن جاتا ہے۔ ہمارا دوزخ۔

یہ جھگڑا کبھی ختم نہیں ہوسکتا کہ دو آدمیوں یا دو قبیلوں یا دوقوموں میں سے کون ہے جو دوسرے کو "مکمل غیر " بناتا ہے۔

خود یہ جھگڑا، "مکمل غیر " کے بننے کے عمل اور جاری رہنے کا حصہ ہے۔

لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہر بہشت کے پہلو میں دوزخ موجود ہے، ہر روشنی کی دوسری طرف گھنی تاریکی اور ہر گہری دوستی اور اتحاد کے پہلو میں، کسی اور سے دشمنی موجود ہے۔

اپنی بہشت کی تعمیر اور دوسروں کے لیے دوزخ کی تعمیر ایک ساتھ ہی ہوا کرتی ہے۔ دونوں میں محض ایک دیوار کا فاصلہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہشت سے دوزخ میں پہنچنے کا فاصلہ، پل بھر کا ہے۔

جس طرح دو آدمیوں میں دشمنی، ایک معمولی سے واقعے سے، بس پل بھر میں شروع ہوسکتی ہے، اسی طرح دو قوموں میں دشمنی، ایک عام سے واقعے سے شروع ہوسکتی ہے اور ان میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari