Khat Ke Aalmi Din Ke Ikhtitam Par, Khat Ki Yaad Mein
خط کے عالمی دن کے اختتام پر، خط کی یاد میں
پہلا خط کب لکھا تھا؟ کچھ یاد نہیں۔ یہ بھی یاد نہیں آتا کہ کس کو لکھا تھا۔ یہ کہنا نری شاعری ہوگا کہ پہلا خط اس وقت لکھا تھا، جب لکھنا سیکھا تھا۔ لکھنا سیکھنے اور خط لکھنے کی عمریں الگ الگ ہیں!
یہ کہنا تو سراسر مبالغہ ہوگا کہ پہلا خط اس شخص کو لکھا تھا، جس کا ہاتھ چھونے کا خیال، اس کے خیال سے پہلے آتا تھا اور بدن میں عجب برق سی بھر دیا کرتا تھا۔ (اب یہ برق جانے کہاں چلی گئی؟)
یہ بھی یاد نہیں کہ پہلا خط کب ملا تھا اور وہ کس نے لکھا تھا؟
شبیہیں، صورتیں، ہیولے ابھرتے ہیں، ان سب لوگوں کے جو آئے اور چلے گئے۔ کسی سبب سے آئے، کسی سبب کے بغیر چلے گئے۔ ان کے بھی جنھوں نے دنیا سے جھگڑ کر اپنی دنیا میں مجھے شامل کیا، پھر اسی دنیا ہی میں بھلا دیا۔ ان کے بھی، جن کے دل، دنیا کے ڈر اور میری محبت کی کش مکش کی نذر ہوگئے۔
انھوں نے مجھے کب کب خط لکھے۔ میں نے انھیں کب کب خط لکھے۔ پوری طرح یاد نہیں آتے۔ خط لکھنے اور وصول کرنے کا زمانہ کیا گزرا، ہم جیسوں پر قیامتیں تو نہیں مگر کئی بڑی اذیتیں ضرور گزری ہیں۔
بس دو باتیں یاد آتی ہیں: خط لکھنے اور خط وصول کرنے کا تجربہ۔
خط لکھنا، گویا کسی مخفی پراسرار دنیا میں داخل ہونا تھا، وہ دنیا جو خود اپنے ہی اندر کہیں موجود تھی، مگر صرف اس وقت ظاہر ہوتی، جب ایک گوشہ تنہائی تلاش کرتا، قلم ہاتھ میں پکڑتا، کاغذ سامنے رکھتا تھا اور پہلا لفظ سوچتا تھا۔ پہلا لفظ، اس لغت سے تو بالکل برآمد نہیں ہوتا تھا، جسے دنیا سے سیکھا تھا۔ (سیکھی ہوئی دنیا سے کچھ کچھ ناراض ہوکر ہی تو خط لکھا کرتا تھا)۔
باقی الفاظ بھی جسم و دل و روح کی کسی انوکھی کائنات سے امڈا کرتے تھے۔ جیسے جیسے خط لکھتا جاتا، دنیا کے کنارے وسیع ہوتے جاتے۔ لگتا، نہ تو میں مینڈک ہوں نہ یہ دنیا کوئی کنواں ہے۔ خوں خوار جانور پہلے بھی تعاقب میں ہوا کرتے تھے اور جس شاخ پر آشیانہ ہوا کرتا تھا، اسے کاٹنے والے بھی ہواکرتے تھے مگر خط لکھتے ہوئے لگتا کہ ہم بے آسرا ہیں نہ تنہا، نہ بزدل۔ (اب یہ تینوں باتیں ہیں)
خط وصول کرنا کسی الوہی فضا میں اچانک پہنچنے کی مانند ہوا کرتا تھا۔ خط، کاغذ سے بڑھ کر ہوا کرتا تھا۔ اس کا پیغام بھی عام باتوں سے بڑھ کر ہوا کرتا تھا۔ لفافہ کھولنا، کسی غیر ارضی دنیا کے در کو کھولنے کی مانند محسوس کرتا تھا۔ پاؤں زمین پر، ہاتھ لفافے پر ضرور ہوا کرتے تھے مگر وجود، کسی اور دنیا میں۔
خط میں لکھے گئے الفاظ، محض لکیریں، قوسیں، دائرے نہیں، ایک مکمل وجود ہوا کرتے تھے، وجود کے لمس، گرمی، رنج وراحت سمیت، ان خالی جگہوں سمیت جو تخیل میں آگ بھڑکا دیا کرتی تھیں اور لگتا تھا کہ دنیا اتنی بے رحم نہیں (اب لگتا ہے)۔
آدمی کے وصل اور خط کے لمس کبھی کبھی گڈمڈ ہوجایا کرتے، مگر جو بات خط کے لمس میں ہوا کرتی، وہ آدمی کے وصل میں تھی، نہ اس سے ملاقات میں۔ خط آدھی نہیں، یکسر اور طرح کی ملاقات ہوا کرتا تھا۔
آدمی کے وصل میں آخری کنارہ آ ہی جاتا ہے، اور انتہائی پرجوش تعلق میں بھی اکتاہٹ ویکسانیت درآتے ہیں۔ خط کا لمس بے کنار وبے زماں ہوا کرتا تھا۔ خط جس قدر پرانا ہوتا، اس کے لمس میں اسی قدر نئے اسرار اور نئے نئے معانی پیداہونے لگتے تھے۔ خط خود ہی کو نئے سرے سے بار بار جنم دینے کے طلسم کا حامل ہوا کرتا تھا!