Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Kafka Ka Darwaza Aur Aqoobat Nagar (2)

Kafka Ka Darwaza Aur Aqoobat Nagar (2)

کافکا کا دروازہ اور عقوبت نگر (2)

دروازے کو تمثیل بنانے کی مثال، کافکا کا افسانہ "عقوبت نگر میں" (In the Penal Colony) ہے۔

عقوبت نگر ایک بے نام، گرم جزیرے پر واقع مقام ہے۔ ایک سیاح کو یہاں اس لیے دعوت دی گئی ہے کہ وہ سزادیے جانے کے عمل کا مشاہدہ کرسکے۔ گویا اس پر عقوبت نگر کا مرکزی دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ اسے اس دروازے کے اندر کی دنیا تک رسائی دی گئی ہے۔ اس رسائی کی نوعیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے اس لیے رسائی نہیں دی گئی کہ وہ اس عقوبت نگر میں آزادانہ طور پر داخل ہونے، یہاں مرضی سے گھومنے پھرنے اور اسے اپنی نظر سے دیکھنے کا اختیار رکھتا ہے، بلکہ یہ رسائی اس لیے دی گئی ہے کہ اسے یقین دلایا جاسکے کہ یہاں کوئی شخص مرضی سے نہیں آسکتا۔ یہاں مرضی صرف اس نگر کے مالک کی چلتی ہے۔

وہ اس نگر میں پہنچنے کے باوجود، وہ اس دنیا کے لیے اجنبی، غیر اور ایک فاصلے پر رہتا ہے۔ اسے یہاں کی دنیا سے سطحی اور محدود آگاہی کا عارضی استحقاق دیا گیا ہے اور اسے اس آگاہی کو دنیا تک پہنچانے کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے وہ بعد میں انکار کرتا ہے۔ عقوبت نگر سے مکمل آگاہی کا استحقاق صرف انھی کو ہے جو اس کے صاحبانِ اختیار ہیں۔ یعنی اس عقوبت نگر کا سابق کمان دار اور اس کا معتمد ایک اعلیٰ فوجی افسر جو سیاح کو اس عقوبت نگر سے اسی طرح آگاہ کرتا ہے، جس طرح کسی صحافی کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کی بریفنگ کی مانند۔

اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ بہت ہی خاص جگہ ہے۔ جو چیز اس جگہ کو خاص بناتی ہے، وہ یہاں کا عقوبت خانہ ہے، جہاں ایک خاص مشین نصب کی گئی ہے۔ مشین تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک لکڑی کا پلنگ جس پر روئی کا بستر ہے، اس پر چھت سے معلق ایک ڈیزائنر اور درمیان میں دندانے دار ہینگا۔ یہاں مجرموں کو سز دی جاتی ہے۔ یہاں جو مجرم لائے جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جن پر الزام عائد ہوا اور انھیں دفاع کا حق دیے بغیر سزا سنا دی گئی۔ الزام اور سزا کے بیچ کچھ نہیں۔ کوئی وکیل، کوئی دفاع، کوئی جرح، یہاں تک کہ کوئی وقفہ بھی نہیں۔

اس عقوبت نگر کے صاحبانِ اختیار گویا جھوٹ بول ہی نہیں سکتے۔ وہ اگر کسی کو مجرم کہتے ہیں تو وہ مجرم ہے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ، فیصلہ اور فرمان ہے۔ وہ دنیا میں کسی شخص کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ کوئی ان کے فیصلے اور فرمان پر سوال کرسکے یا سرتابی کرسکے۔

کافکا نے اس افسانے میں تشدد کی جس مشین کا نقشہ کھینچا ہے، اس میں اپنے اس تخیل کی بہترین صلاحیت صرف کی ہے جو قانون اور نظامِ انصاف کی حقیقی، تاریک، انسان کش روح کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کرتی۔ یہ مشین، کافکا کی طرف اس آمریت اور مطلق العنانیت کے خلاف استغاثہ ہے جو خود مدعی بھی ہے، منصف بھی اور جلاد بھی ہے۔ اس فسانے کا اعلیٰ فوجی افسر بھی کہتا ہے کہ وہ منصف بھی ہے اور سزا پر عمل درآمد کروانے والا بھی ہے۔

مجرم کو بیڈ پر لٹا دیا جاتا ہے اور دندانے دار ہینگا، دندانوں سے اس کے جسم پر اس کی سزا رقم کرتا چلا جاتا ہے۔ مجرم کو سزا تو پہلے ہی سنائی جاچکی ہے، اب اس کے بدن کے روئیں روئیں میں اس کے جرم کا ایک ایک حرف پہنچایا جاتاہے۔ کافکائی دنیا میں سزا صرف ذہنی نہیں، جسمانی، حسیاتی، عصبی، جذباتی، نفسیاتی اور روحانی بھی ہے۔ گویا ایک آدمی اپنے وجود کی جن جن سطحوں کا حامل ہے، سزا وہاں وہاں ہے۔

مجرم کو ایک ہی لمحے میں ختم نہیں کیا جاتا۔ اس طرح مجرم سزا کو اپنے وجود کی صرف ایک سطح پر اور ذرا سے وقفے کے لیے جھیلتا ہے، جب کہ کافکائی صاحبانِ اختیار سزا کو دور تک اور دیر تک برقرار رکھتے ہیں۔ سیاح سزا کے بارے میں سن کر سخت اضطراب محسوس کرتا ہے تو اس کا میزبان اعلیٰ فوجی افسر، اس تشدد کا جواز پیش کرتا ہے۔ کافکا بتاتے ہیں کہ اپنی تمام تر طاقت اور اختیار کے باوجود، سابق کمان دار اور موجودہ اعلی فوجی افسر کو اپنے اقدامات کے جواز اور سند کا مسئلہ بہ ہر حال درپیش ہے۔ اس سیاح کو اسی لیے سزا سے متعلق قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وہ اعلیٰ فوجی افسر سیاح کو بتاتا ہے کہ جسم کی یہ اذیت دراصل، روشن روحانی دنیا میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ گویا مجرم کو سزا نہیں دی جاتی، اسے ایک برتر دنیا میں داخل ہونے کی آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ مجرم پر یہ دروازہ بھی بند ہے۔ جس طرح ان پر جیتے جی باقی دروازے بند ہیں، اسی طرح روحانی دنیا کا دروازہ بھی بند ہے۔ وہ مردود ازل و ابد ہیں۔

یہاں کافکائی دروازے ہی کے ضمن میں دو مزید باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ عقوبت گاہ میں سیاح اور اعلیٰ فوجی افسر کے علاوہ، ایک مجرم بھی موجود ہے، جسے سیاح کے سامنے سزادی جانی ہے اور سیاح کو اس کا مشاہدہ کرنا ہے۔ وہ ایک کپتان کا ملازم ہے۔ کپتان کے دروازے پر کھڑے ہوکر، دروازے کو سلامی دیے رکھنا، اس کا فرض تھا۔ وہ سوگیا، اور یوں اس نے اپنے فرض کی ادائی میں کوتاہی کی۔ گویا کپتان کا دروازہ ہی، اس کی زندگی کو مردود بنانے کا باعث بنا۔

کہانی میں واقعات کچھ اس طور رونما ہوتے ہیں کہ اس آلہ تشدد کا نشانہ کپتان کے ملازم کے بجائے، خود اعلیٰ فوجی افسر بنتا ہے۔ یہ اعلیٰ فوجی افسر سیاح کو ایک سے زیادہ بار بتاتا ہے کہ یہ عقوبت نگر اور آلہ تشدد، سابق کمان دار کی تخلیق ہیں۔ وہ اپنے سابق کمان دار کے ایک ایک حرف کو، حرف صداقت سمجھتا ہے، اس لیے اسے یقین ہے کہ یہ آلہ تشدد بارہ گھنٹوں میں مجرم کے بدن پر اس کا جرم رقم کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے روحانی بلندی حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن دندانے دار ہینگا اس کے جسم پر آہستگی سے چلنے، اس میں نصب ایک بڑی سوئی کے جسم کو گہرائی میں چھیدنے اور چھوٹی سوئی نما پچکاری کے پانی سے خون کو بہانے کے بجائے، اس کے ماتھے کو چیر ڈالتی ہے۔ یوں وہ روحانی بلندی کے دروازے تک رسائی سے محروم رہتا ہے۔ روحانی دنیا میں وہ اسی صورت میں داخل ہوسکتا تھا اگر نصف دن تک سوئیاں اس کے جسم کو بیندتی رہتیں۔

کافکا یہاں جس طور مذہب و تشدد کو یک جا کرتا ہے، وہ اسی سے مخصوص ہے۔ کافکا کا فکشن اس بنیادی سوال کو تحریک دیتا ہے کہ تشدد مذہب کا لازمی حصہ ہے، یا سیاسی و عسکری طاقت اپنے قانونی واخلاقی جواز میں ناکامی پر مذہب اور تشدد کویک جاکرتی ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ جو چیز اس سوال کے جواب کو مشکل بناتی ہے وہ خود مذہب میں کڑی سزاؤں کا تصور ہے۔ اکثر مذاہب اپنے منحرفین اور گناہ گاروں کو سخت ترین سزاؤں کی وعید دیتے ہیں۔ جہنم، سزا کی آخری بدترین صورت ہے اور یہ مذہبی تخیل کی پیداوار ہے۔ آمریت بھی اپنے منحرفین کی زندگی کو جہنم بناتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ دروازے کا بنیادی کافکائی مفہوم (دو دنیاؤں کو تقسیم کرنے والی شے)، اس کے تمثیلی معنی میں بھی برقرار رہتا ہے۔ دروازہ، ان لوگوں پر بند رہتا ہے جن کا تعلق دروازے سے باہر کی دنیا سے ہے۔ صرف مخصوص، اندر کے لوگوں ہی کو روحانی بلندی مل سکتی ہے۔

اعلیٰ فوجی افسر بھی باہر کی دنیا کا فرد ثابت ہوتا ہے۔ وہ اس لیے روحانی بلندی سے محروم رہتا ہے کہ وہ ایک تشدد کی رسم کو اس کے طے شدہ طریق کار کے مطابق ادا نہیں کرپاتا۔ اہل مذہب کے پاس، مردودانِ حرم کے لیے یہی دلیل ہوا کرتی ہے کہ وہ اس لیے مردود یعنی روحانی روشنی سے محروم ہیں کہ وہ مذہبی رسوم کو درست انداز میں ادا نہیں کرتے۔ وہ اس دروازے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے آداب سے لاعلم اور غافل ہیں۔

اس افسانے کے ضمن میں ایک ضمنی نکتہ یہ ہے کہ سابق کمان دار جب مرتا ہے تو اسے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ اسے ایک چائے خانے کی میز کے نیچے دفن کیا جاتا ہے۔

کیا کافکا چائے خانوں پر، جہاں ادیب وادانشور گفتگوئیں کرتے ہیں، طنز نہیں کررہے کہ وہ آمروں کی باقیات کو جگہ، دیا کرتے ہیں؟

جاری ہے۔۔

Check Also

Parh Parh Kitaban Ilm Diyan Tu Naam Rakh Liya Qazi

By Rehmat Aziz Khan