Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Jungle Ke Shurfa Aur Kahani Ka Jawan Kahani Hai

Jungle Ke Shurfa Aur Kahani Ka Jawan Kahani Hai

جنگل کے شرفا اور کہانی کا جواب کہانی ہے

جس زمانے میں ایلزپتھ ہکسلے اپنی کتاب White Man's Country شایع کر رہی تھیں، انھی دنوں، لندن سکول آف اکنامکس و پولیٹیکل سائنس کے ممتاز پروفیسر برونسلا میلنوسکی کے شاگرد جومو کینیاتا اپنے ہم وطن گیکیوا لوگوں سے متعلق اپنا مقالہ Facing Mout Kenya شایع کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔

جومو کینیاتانے اپنی کتاب میں گوروں اور کالوں کے تعلق سے ایک مختصر حکایت بہ عنوان جنگل کے شرفا، شامل کی، جو دراصل ایک سیاسی طنزہے۔ یہ حکایت، ہکسلے کا جواب ہے۔ یہ حکایتِ دلپذیر سننے سے تعلق رکھتی ہے۔

ایک آدمی نے اپنے دوست ہاتھی کو بارش میں بھیگتے دیکھا تو اسے اپنی جھونپڑی میں سونڈ دھرنے کی اجازت دے دی۔ ہاتھی نے آدمی کی منشا اور احتجاج کو بالاے طاق رکھتے ہوئے، رفتہ رفتہ اس چھوٹی سی جھونپڑی میں اپنے جسم کے باقی حصوں کودھکیلنا اور آرام پہنچانا شروع کردیا، یہاں تک کہ ہاتھی چھونپڑی میں آدمی اس سے باہر تھا۔ دونوں میں فساد کی خبر پاتے ہی جنگل کا بادشاہ آن پہنچا۔

اس نے فی الفور ایک شاہی کمیشن بٹھایا کہ آدمی کی شکایت کی تحقیق کرے۔ لیکن اس کمیشن میں عزت مآب ہاتھی کی کابینہ کے ارکان شامل تھے، جیسے جناب گینڈا، جناب بھینسا، اورعزت مآب روباہ کمیشن کی سربراہ تھیں۔ کمیشن ہاتھی اور آدمی دنوں سے ملا، مگر صرف ہاتھی کوگواہ پیش کرنے کی اجازت دی۔ یہ گواہ لگڑ بگاتھا۔

آدمی کی گواہی اس لیے نہ سنی گئی کہ اس نے خود کو متعلقہ حقائق کے بیان تک محدود نہیں رکھا تھا۔ کمیشن نے اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے وقفہ کیا اور اس وقفے میں ہاتھی کی ضیافت میں شرکت کی۔ کمیشن نے فیصلہ دیا کہ آدمی کی چھونپڑی میں خالی جگہ موجود تھی اور ہاتھی جائز طور پر یہ خالی جگہ اپنے مصرف میں لایا، ہاتھی کا یہ عمل آخر لامرآدمی کے لیے اچھاتھا۔ کمیشن نے آدمی کو اجازت مرحمت کی کہ وہ کوئی ایسی جگہ تلاش کر لے جو اس کے لیے زیادہ مفید ہو اور وہاں جھونپڑی تعمیر کر لے۔ اپنے طاقتور پڑوسیوں کی دشمنی سے ڈر کر آدمی نے یہ فیصلہ قبول کر لیا۔

آدمی نے جو اگلی جھونپڑی بنائی، اسے جناب گینڈے نے ہتھیا لیا اور اس کی چھان بین کے لیے ایک اور شاہی کمیشن بٹھایا گیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ جنگل کے تمام بڑے آدمی کی بنائی ہوئی چھونپڑیوں میں بس گئے۔

بالآخر جب آدمی کو یقین ہوگیا کہ اسے جانوروں اور ان کے شاہی کمیشنوں سے انصاف نہیں ملے گا تو اس نے معاملات خود اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کیا۔

اس نے کہا۔: کوئی شے ایسی نہیں جو زمین کو کچلتی ہو اور اسے چھل جھانسے سے پھانسا نہ جا سکے یا دوسرے لفظوں میں آپ کسی کو ایک وقت میں بے وقوف بنا سکتے ہیں، ہمیشہ کے لیے نہیں۔ چناں چہ اس نے اپنی تدبیر پر عمل کرنا شروع کیا۔ اس نے ایک عظیم الشان چھونپڑی تعمیر کی۔ حسبِ توقع جنگل کے تمام جانور اس پر قبضے کی خاطر دوڑے۔ جب وہ لڑ رہے تھے تو آدمی نے جھونپڑی کو اآگ لگا دی۔ جھونپڑی مع جنگل کے تمام شرفا کے خاکستر ہوگئی۔ تب آدمی یہ کہتے ہوئے اپنے گھرکی طرف چل پڑا کہ امن مہنگا ہے مگر اس کی قدر، لاگت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ خوش و خرم جیا۔

یہ حکایت نو آبادیاتی تاریخ اور اس کے سلسلے میں مقامی لوگوں کے ردّعمل کی تمثیل بھی ہے۔ جومو کینیاتا کے پاس زندگی کا متنوع تجربہ تھا، وہ ایک معمولی گھریلو ملازم رہا، ایک گورے کا باورچی رہا، سٹور کلرک رہا، اور ایک ممتاز یورپی ادارے میں ایک نامور ماہر بشریات کا طالب علم رہا اور ایک پر جوش قوم پرست بنا، جیل کاٹی اور سفید فاموں کے مظالم سہے۔ اس حکایت کے ذریعے اس نے نہ صرف افریقی استعمار زدگی کابیانیہ وضع کیا بلکہ استعماریت سے عہد برا ہونے کا وژن بھی خلق کیا جو ایک پر تشدد تدبیر سے عبارت ہے۔ لہٰذا یہ اتفاق نہیں کہ وہ 1963 میں نو آزاد ملک کینیا کا پہلا وزیراعظم بنا۔

چنوا اچیبے اس کہانی کو سفید فاموں کی افریقا سے متعلق کہانیوں کے مقابلے میں افریقیوں کی اپنے لیے ایک جوابی کہانی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ (گو اچیبے اس طرح کے تشدد میں یقین رکھتے محسوس نہیں ہوتے جو مذکورہ طنزیے میں موجود ہے)۔

یہ اور دوسری کہانیاں، اچیبے کے ا س یقین کو مزید پختہ کرتی ہیں کہ نو آبادیاتی قبضے کو جائز ثابت کرنے کی خاطر گھڑی گئی کہانیوں کے اثر کو کھنڈانے کا حل مقامی کہانیاں ہی ہیں۔ مقامی کہانیاں اس مقامی وجود کو گویابنانے کی کوشش ہیں، جنھیں یورپی بیانیوں میں خاموش رکھا گیا۔ اس عمل کو وہ کہانیوں کے ذریعے حساب چکانا (Balance of Stories) اور ایک بدنام زمانہ مصنف کے لفظوں میں The Empire Writes Back کہتے ہیں۔

اس ضمن میں وہ ایک ضرب المثل کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب تک شیر خود اپنے مورّخ پیدا نہیں کرتے، تب تک شکار کی کہانی، شکاریوں کی عظمت کے گن گاتی رہے گی۔ اچیبے کی اپنی کہانیاں اس ضرب المثل کی عملی تفسیر ہیں۔

اپنے مورّخ اور اپنے کہانی نویس پیدا کرنے کا عمل صرف اپنے گم شدہ اور مسخ شدہ ثقافتی وجود کی باز یافت نہیں، بلکہ اپنے ثقافتی ضمیر کی تشکیلِ نو ہے۔ دوسرے لفظوں میں جوابی کہانیاں، محض پرانی کہانیاں نہیں جنھیں انگریزی، فرانسیسی یا اپنی مقامی زبان میں لکھا گیا ہو۔ اگرچہ ایک حدتک اچیبے کے خیالات سے یہ گمان ضرور گزرتا ہے۔ اس کا سبب افریقی نو آبادیات ہے۔

برصغیر کے برعکس افریقا میں مقامی لوگوں کو غلام بنایا گیا، ان سے زمینیں ہتھیا کر، انھیں بے دخل کرکے وہاں گوروں کو بسایا گیا۔ نیز افریقا میں تعلیم، سیاست، شہری تنظیم کے وہ ادارے نہیں تھے جو انگریزوں کے آنے سے پہلے برصغیر میں موجود تھے۔ محمود ممدانی کے بہ قول نو آبادیاتی مورخوں نے دراصل دو حاشیے کھینچے تھے۔ "ایک ظاہر اور دوسرا پوشیدہ۔ افریقا کو اس حاشیے پر رکھا گیا جو پوشیدہ تھا۔۔ "(اچھا مسلمان، برا مسلمان، ترجمہ سہیل ہاشمی، قمر آزاد ہاشمی، ص 30)۔

محمود ممدانی ییل یونیورسٹی کے کرسٹو فر ملر کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس کے مطابق یورپی تاریخوں میں افریقا کو "ایک خالی اندھیرا" لکھا گیا، کیوں کہ یہاں سے نہ تو عظیم تحریریں ملیں نہ قدیم و عظیم عمارات۔ اس کے لیے مصر و حبشہ کو افریقی شناخت کے بیانیے سے باہر رکھا گیا۔ بلاشبہ افریقا(مصر کے بغیر بھی) ایک حقیقی، زندہ مقامی ثقافت کا حامل تھا، اس کے پاس اپنی کہانیاں تھیں اور زندگی، سماج، خدا، کائنات سے متعلق سارا فلسفہ انھی میں مضمر تھا۔

سائنس و فلسفے کی روشن روایت کی بنا پر تفاخرپسند یورپ کے لیے یہ کہانیاں"ایک خالی اندھیرا" ہوں گی، مگر افریقیوں کے لیے ان میں وہ ساری روشن بصیرت مضمر تھی جو اپنے طریقے سے زندگی بسر کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر اچیبے کہانیوں کو ردّنوآبادیات کو مئوثر ہتھیار قرار دیتے ہیں تو وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ یہ کہانیاں خود پر مسلط کردہ حاشیائی مقام کے خلاف احتجاج ہیں۔ جو ثقافت کہانیاں تخلیق کر سکتی اور ان میں اپنی حیاتِ اجتماعی کا وژن سمو سکتی اور اس وژن کو اپنی زندگی کی راہ نما بنا سکتی ہے، اس کے لیے ایک تاریک حاشیے کا تصور پرلے درجے کی بد مذاقی ہے۔

بایں ہمہ نہ تو اچیبے نے، نہ دوسرے افریقی مصنفین نے(اور نہ اردو ادیبوں نے) قدیم افریقی وایشیائی کہانیوں کاان کی قدیمی ہیئت کے ساتھ احیا کیا، انھوں نے افریقا وایشیاسے متعلق ناول لکھے اور اپنے مضامین میں قدیم اساطیری و نیم تاریخی کہانیوں کی تعبیرِنو کی۔ ان کے ناولوں کا موضوع افریقا ہے، اور ایشیا ہے، اس کی قبل نو آبادیاتی، نو آبادیاتی اور بعد از نو آبادیاتی تاریخ و ثقافت ہے۔ یہ ناول ان لوگوں نے لکھے جو جلا وطن تھے، اور ان لوگوں نے بھی لکھے جو نفسیاتی جلاوطنی کا شکار ہوئے۔

(چنوا اچیبے پر اپنے مضمون: وطن اور جلاوطنی، مشمولہ "عالمگیریت اور ارددو" سے اقتباس)۔

Check Also

Ye Dunya Magar Bohat Zalim Hai

By Nusrat Javed