Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Jab Tak Hai Zameen Ki Pehli Saalgirah

Jab Tak Hai Zameen Ki Pehli Saalgirah

"جب تک ہے زمین" کی پہلی سالگرہ

ہم اپنے بچوں، والدین، عزیزوں، دوستوں اور خود اپنی سالگرہ مناتے ہیں، تو کتابوں کی سالگرہ کیوں نہیں۔ ایک برس پہلے، آج ہی کے دن مجھے سنگ میل سے، اپنے پانچویں افسانوی مجموعے "جب تک ہے زمین" کے اعزازی نسخے ملے تھے۔

اپنی ہر نئی کتاب کو پہلی بار اپنے ہاتھوں میں محسوس کرنا، ایک انوکھا تجربہ ہوا کرتا ہے۔ یہ محض اپنے بچے یا کسی عزیز ہستی کا ہاتھ تھامنے یا گلے لگانے کی مانند نہیں ہوا کرتا۔ اس میں لمس کے سوا بھی بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ ہم ایک طویل، پیچیدہ، صبر آزما مگر خواب ناک سفر کے حاصل کو اپنے ہاتھوں میں، مگر اپنی پوری ہستی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، مگر ہر نئی کتاب کو پہلی بار تھامنے کا لمحہ، اسی خواب ناک سفر سے بچھڑنے کی ایک کیفیت کا حامل بھی ہوا کرتا ہے۔

نیز اس لمحے میں، یقین و بےیقینی، امیدوں اور وسوسوں کا ایک سلسلہ بھی یلغار کررہا ہوتا ہے۔ کتاب شائع ہونے کے بعد، مصنف سے جدا ہوجاتی ہے اور اس دنیا کے سپرد ہوجاتی ہے، جس کا کچھ حصہ نیک دل، مخلص لوگوں پر مشتمل ہے جو انسانی محنت کے لیے قدر و تحسین کے جذبات رکھتا ہے، مگر بڑا حصہ بے مہر اور ہمارے خوابوں سے لاتعلق لوگوں سے عبارت ہے۔

خیر ہر کتاب کو ان دو طرح کے لوگوں میں، اکیلے اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوتی ہے۔ ہم سب لکھنے والے اپنی ایک عزیز ترین ہستی کو بقا کی جنگ پر روانہ کرکے، ایک نئی کتاب، ایک اور عزیز ترین ہستی کے خدوخال پر کام کررہے ہوتے ہیں۔

"جب تک ہے زمین" کی پہلی سالگرہ پر، اس کتاب کا آخری افسانہ "وہ آخری دن" کا اقتباس شیئر کررہا ہوں۔ یہ اقتباس، صرف کتاب کے صفحے پر نہیں، خود میرے وجود کے ایک نادیدہ حصے پر بھی رقم ہے۔

***

"جب مجھے ابا کے سینے پر سر رکھے چند منٹ گزرے تو مجھے لگا میں باقی نہیں ہوں۔ ابا بھی نہیں ہیں۔ چارپائی جس پر ابا چپک کر رہ گئے تھے، وہ بھی نہیں ہے۔ دائیں جانب لکڑی کا سٹول جس پر اباکی دوائیں، پانی، جوس، پھل اور بسکٹ دھرے ہیں، وہ بھی نہیں ہے۔

کمرے کی بائیں دیوار پر جلنے والی ٹیوب لائٹ بھی نہیں ہے۔ اس کی روشنی بھی نہیں ہے۔ باہر تھوڑی دیر پہلے گلی میں آوارہ کتا بھونکا تھا، جس کے جواب میں کچھ دوسرے کتے بھونکے تھے، وہ بھی نہیں ہیں۔ ابھی چند لمحے پہلے میرے ٹخنے پر چیونٹی نے کاٹا تھا اور مجھے وہاں خارش کرنے کی شدید طلب ہوئی تھی، وہ چیونٹی اور خارش کی طلب دونوں نہیں ہیں۔

ہر وہ چیز جو کچھ دیر پہلے موجود تھی اور میرے احساس میں ایک یا دوسرے انداز میں شامل تھی، اب نہیں ہے۔ یہ مکمل نہیں کا عالم میرے لیے یکسر نیا تھا اور دہشت زدہ کردینے والا تھا، یہ عالم اسی طرح سے نیا تھا جس طرح ابا کا آخری سانس لینا ہمارے لیے نیا تھا اور ہم سب کا دھاڑیں مارنا تھا، یا شاید اسی طرح سے نیاتھا، جیسا اماں ابا کے لیے میرا اور تمھارا جنم رہاہوگا۔

یہ میں نے ایک ہی سانس میں ابا کی موت اور ہم دونوں کی پیدائش کو یوں ہی نہیں ملا دیا۔ وہ کچھ ایسا ہی نہ ہونے اور ہونے کا عالم تھا۔ مجھے لگا سب غائب ہوگیا ہے، کسی ایسی فضا میں تحلیل ہوگیا ہے جو ابھی ابھی کسی ماورائی رابطے کی نتیجے میں، میری فہم سے بالا اور میری کسی کوشش کے بغیر پیدا ہوئی ہے اور اسی فضا میں سے کچھ ایسا رونما ہو رہا ہے جسے پوری طرح میں گرفت میں نہیں لے پارہا مگر وہ مجھے اپنے کلاوے میں بھرنے کے لیے امڈ رہا ہے۔

اب بھی جب یہ سب تمھیں بتا رہا ہوں، تو لگتا ہے بہت کچھ میری گرفت سے نکلتا جارہا ہے اور اپنے پیچھے ایک ازلی خالی پن چھوڑے جارہا ہے۔۔ تم نہیں مانو گے جو میں اب کہنے جارہا ہوں اور سچ تو یہ ہے کہ خود مجھے یقین نہیں کہ وہ سب حقیقت میں واقع ہوا تھا۔ کیسے ایک پل کی عظیم سچائی بعد میں جب بیان میں آتی ہے تو شک کی لپیٹ میں آتی ہے، یہ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے۔ رضوان، مجھے لگا میں چالیس سال کا نہیں، نو ماہ کا ہوں۔

ابھی ابھی اماں کے بطن سے باہر آیا ہوں اور انھی کے سینے سے لپٹا ہوں۔ میں کچھ سوچ نہیں رہا، نہ اپنے بارے میں، نہ کسی اور کے متعلق۔ میری چالیس سالہ زندگی میں یہ چند ہی لمحے تھے، جب میری کھوپڑی میں چلنے والی مشین جیسے رک گئی تھی۔ یہ بھی میں اب یاد کرکے بتا سکتا ہوں کہ اس وقت میں صرف سانس لے رہا تھا۔ وہ میرا نیا جنم نہیں تھا، اتنی بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔

یہ اس لمحے کی مکمل، بے خطا تکرار تھی جب میں اس مکروہ مگر فانی دنیا میں آیا تھا مگر جسے اس سے پہلے میں کبھی یاد کرسکا نہ محسوس کرسکا۔ اب سوچتا ہوں تو ندامت، حیرت اور دہشت کے احساسات مجھ پر یلغار کرتے ہیں۔ جس وقت ابا رخت سفر باندھ رہے تھے اور مجھ سے الوداعی انداز میں گلے مل رہے تھے، میں ان کی بجائے، اپنی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔

میں ان کے الوداعی جذبات میں کیوں شریک نہ ہوسکا؟ یہ سوچتا ہوں تو ندامت ہوتی ہے۔ لیکن رضوان، یہ سچ ہے، نہایت کڑا سچ کہ جب کوئی شخص، خواہ وہ ہمیں کتنا ہی پیاراہو، آخری سفر شروع کرتا ہے تو ہم دہشت زدہ ہوجاتے ہیں اور اپنی جانب لوٹ آتے ہیں، اپنی اصل کی جانب اور اپنی ظلمت کی جانب"۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz