Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Hafze Ki Siasat Aur Faiz Ahmad Faiz

Hafze Ki Siasat Aur Faiz Ahmad Faiz

حافظے کی سیاست اور فیض احمد فیض

کل فیض کی برسی تھی۔ فیض کو سرکاری، عوامی، ادبی حلقوں نے یاد کیا۔ یاد کیا کے الفاظ، درست نہیں ہیں۔ یاد انھیں کیا جاتا ہے، جنھیں بھلا دیا گیا ہو۔ فیض مسلسل یاد رہتے ہیں اور انھیں یاد رکھنے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔

یاد اور بھول اتفاقی نہیں ہیں اور نہ ہی محض تاریخ کا عمل۔ یاد رکھنے اور بھول جانے کے باقاعدہ اسباب ہوتے ہیں۔ یہ اسباب شخصی سطح پر نفسیاتی ہیں، جب کہ قومی سطح پر سیاسی ہوتے ہیں۔ یادیں کڑوی، تلخ، صدمہ انگیز، بے زار کن، شیریں، حسین ہواکرتی ہیں۔

ان میں سے کس قسم کی یاد کو باقی رکھنا ہے اور کسے فراموش کرنا ہے، اس کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔ کئی بار کڑوی یادوں کو مسلسل یاد رکھاجاتا ہے اور حسین ترین یادیں فراموش کردی جاتی ہیں۔ کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کئی بار اچھے اور بڑے لوگوں کو بھلادیا جاتا ہے اور برے، معمولی سطح کے افراد کو یاد رکھا جاتا ہے۔ کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ سیاست، اچھے برے کو اپنی اصل صورت میں نہیں، اپنی ضرورت کے مطابق دیکھتی ہے۔

یاد اور فراموشی اور انھیں معنی پہنانے کی باقاعدہ سیاست ہے۔ تاہم ایک سیاست مقتدرہ کی ہے، ایک اس کا عوامی، دانشورانہ ردّعمل ہے۔ اس وقت اسی ردّعمل کا قحط ہے۔

دو دن پہلے، گرمانی مرکز کی کانفرنس میں ڈاکٹر طارق رحمان نے ادب کی تخلیق کے غیر لسانی عوامل، پر ایک مقالہ پیش کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ سیاسی مقتدرہ کی ترجیحات اور پالیسیاں طے کرتی ہیں کہ کس زبان کو تعلیم، ذرائع ابلاغ، عوامی سطح پر کتنی جگہ ملے گی اور کس زبان کے کن ادب پاروں کو اجازت، جگہ اور مقام وامتیاز ملے گا۔ یہ سب غیر لسانی یعنی سیاسی عوامل، ادب کی تخلیق، ترویج اور بقا پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں اقبال اور فیض مقبول ترین شعرا ہیں۔ وہ ہمارے حافظے کا مستقل حصہ ہیں۔ بلاشبہ اس میں اہم کردار ان کی شاعری کا ہے، مگر اور بھی بہت کچھ ہے۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ وہ اپنی اصل سمیت ہمارے حافظے کا حصہ نہیں۔

عوامی حافظے تک پہنچانے سے پہلے، ان پر خاصی محنت کی جاتی ہے۔ ان کا خصوصی ورژن تیار کیا جاتا ہے۔ مقتدرہ کو اپنے جواز، استحکام اور فخر کے لیے کچھ علامتیں درکار ہوتی ہیں۔ زندہ، مردہ ادیبوں اور عالموں میں سے یہ علامتیں منتخب کر لی جاتی ہیں۔ ان میں مشترک قدر یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کو مضطرب نہیں کرتیں، ایک بڑے مصنف کا کام انسانی تخیل میں ایک آگ بھڑکانا ہے اور اس کی ذہنی ترتیب کو برہم کرنا ہے۔ ان علامتوں سے، اضطراب و برہم انگیز عناصر کو منہا کردیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ان میں یہ عناصر موجود ہوتے ہیں۔ اقبال اور فیض دونوں میں یہ عناصر ہیں اور وافر ہیں۔

شاعری میں خواہ کوئی بیّن سیاسی معنی نہ ہو، مگر اسے سیاست میں بروے کار لایاجاسکتا ہے۔ شعروں کے انتخاب اور ان کے معنی کی تعبیر پر اجارہ حاصل کرکے۔ غالب نے تو کہا تھا: شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ لیکن مقتدرہ شعروں کے انتخاب سے، مخصوص تصورات یا محض نیم خوابیدہ کردینےو الی غنائی جمالیات کی مدد سے سیاست کرتی ہے۔

ایک ترفع انگیز جمالیات ہے اور ایک ترفع شکن جمالیات۔ ترفع شکن جمالیات، ذہن کی ترتیب میں ہلچل پیدا کرتی ہے، مگر اسے مسلسل ملامت کا سامنا رہتا ہے۔ ترفع شکن جمالیات میں حسن کے روایتی تصور کو پیش نہیں کیا جاتا۔ بلکہ زندگی کے قبیح، تاریک، نفرت انگیز پہلوؤں کو اس طور ابھارا جاتا ہےکہ قباحت و تاریکی اپنی پوری، برہنہ سچائی کے ساتھ پہنچے۔ ترفع شکن جمالیات کا حامل شاعر وادیب مقتدرہ کے دل میں کانٹے کی مانند کھٹکتا ہے۔

فیض کے مقبول اشعار تو اس کثرت سے دہرائے جاتے ہیں کہ ان میں جو ڈنک تھا، وہ اب پڑھنے والوں کو محسوس ہی نہیں ہوتا۔ وہ ان کی ترفع انگیز جمالیات پر اصرار میں کہیں گم ہوجاتا ہے۔ کچھ کم معروف اشعار دیکھیے۔ ہوسکتا ہے کہ فیض کچھ مختلف محسوس ہو، مقتدرہ کے فیض سے۔

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگا ر کے

حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے
سر پر ہیں خداوند، سر عرش خدا ہے

کب تک سینچو گےتمناے ثمر میں
یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا ہے نہ پھلا ہے

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آ پ سے دل لگا کے دیکھ لیا

میری خاموشیوں میں لرزاں ہیں
میرے نالوں کی گم شدہ آواز

اب اپنا اختیار ہےچاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جد ا کرچکے ہیں ہم

جواں مردی اسی رفعت پر پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی

Check Also

Udas Naslain, Khan Deedawar, Trump Maseeha

By Nusrat Javed