Fitrat Ka Junoon, Anthropocene, Seel e Bala
فطرت کا جنون، انتھروپوسین، سیلِ بلا

کل بونیر، مینگورہ، سوات میں جو کچھ دیکھا اسے بیان کرنا آسان نہیں۔ یہ نہیں کہ دکھ اور مصیبت کے بیان کے الفاظ موجود نہیں ہیں، بلکہ یہ کہ یہ سب دکھ اور مصیبت کی معلوم صورتوں سے سوا تھا۔ یہ صرف قدرتی آفت، یعنی محض قدرت کی لائی ہوئی آفت۔۔ نہیں تھی، اس سے سوا تھی۔
صرف چند مناظر ہم تک پہنچے۔ ان میں مشترک مگر سب سے زیادہ ہیبت ناک منظر یہ تھا کہ گھر، عمارتیں، گاڑیاں، اشیا، انسان، حشرات، درخت، پتھر ایک ہی سیل۔۔ سیلِ بلا میں، ایک ہی طرح سے، تنکے کی مانند بہہ رہے تھے، انسانی چیخوں، آہوں، نوحوں اور بے بسی کی دوسری صورتوں کی پروا کیے بغیر۔ وہ سیل، اپنی زد میں آنے والی ہر شے سے یکساں طور پر لاتعلق تھا اور اپنی تباہ کن طاقت کے غرور اور غصے میں۔
لیکن یہ سب ایک بنیادی حقیقت کی ہیبت ناک یاددہانی بھی ہے۔
یاددہانی کی ضرورت کب پڑتی ہے؟ جب ایک ہی طرح کی حقیقت کے باربار رونما ہونے کے درمیانی وقفے کو ہم ضائع کرنے کے عادی ہوجائیں۔ یعنی اس وقفے میں، حقیقت کے دوبارہ رونما ہونے کے اسباب وامکانات کا سد باب نہ کریں۔
یاددہانی ہمیشہ غافل کو کروائی جاتی ہے۔
تاہم کل کا سیلابِ بلا، کچھ اور باتوں کی بھی یاد دہانی کراتا ہے۔
یہ کہ فطرت کا ایک رخ تخلیقی، جمالیاتی، مادرانہ اور پالنہار کا ہے تو دوسرا رخ، اس سب کے الٹ ہے۔ فطرت اپنے جمال و عظمتِ جمال کا اظہار سوسو ہیئتوں اور ہزاروں پیرایوں میں کرتی ہے۔ لیکن یہی فطرت تخریب وتباہی کی ناقابلِ تصور طاقت کی بھی حامل ہے۔
وہ ایک ایسی ماں ہے، جو اپنے ہی بچوں کو نگل جایا کرتی ہے۔ وہ طیش وغیظ میں آتی ہے تو کسی شے کی پروا نہیں کرتی۔ نہ اپنی آل اولاد کی، نہ آدمیوں کی، نہ آدمیوں کی ساختہ کسی چیز کی۔ جن انواع کو اس نے خود سالوں اپنی گود میں پالا ہوتا ہے، انھی کو اپنے جبڑے میں چباڈالتی ہے۔ جن چیزوں کوانسانوں نے دہائیوں کی محنت، نیز قدرت، سماج، تقدیر کے خلاف مسلسل جدوجہد سے تخلیق وتعمیر کیا ہوتا ہے، اسے ایک پل کے ہزارویں حصے میں، بے نشاں کردیتی ہے۔
فطرت اپنے غضب کے اظہار میں، ہر شے سے لاتعلق اور حد درجہ بے رحم واقع ہوئی ہے۔
بلاشبہ فطرت کے یہ دونوں رخ، پہلے دن سے ظاہر ہورہے ہیں۔ فطرت نے اپنی تخلیقی وتخریبی صفات پر کبھی پردہ نہیں ڈالا۔ ہم فطرت کو دھوکے باز نہیں کہہ سکتے۔
سچ یہ ہے کہ فطرت کی صفات کو دو متضاد خانوں میں تقسیم، ہم انسانوں کی کی وضع کردہ ہے اور انسانی مقاصد کے تحت وضع کردہ ہے۔ اصل خرابی کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے۔ ہم نے فطرت کو اس کی اپنی اصل پر قائم رکھنے کے بجائے، اسے اپنے مفاد کے تحت بروے کار لانا شروع کیا۔
یہ بات متکبرانہ انداز میں دہرائی جانے لگی کی کہ انسانی تہذیب کی بنیاد فطرت کی تسخیر پر رکھی گئی ہے۔ تسخیر کا تصور بھی جنگوں سے اخذ کیاگیا، یعنی ہلاکت وبربادی کا اور اس پر جشن کا، نیز فریق مخالف کے جملہ اثاثوں، استطاعت کو محض اپنی طاقت میں اضافے کے لیے بروے کار لانے کا۔
صاف لفظوں میں ہم نے پورے کرہ ارض اور پھر اس سے آگے آسمانوں اور دوسرے سیاروں تک کو اپنی نوآبادی بنایا۔ فطرت کی مملکت کی حدوں اور اس کے قوانین کو سمجھا ضرور، مگر بری طرح روندا۔ فطرت کی برداشت کی بھی ایک حد تھی۔ اٹھارویں صدی سے، یوں سمجھیے، صنعتی عہد سے، فطرت نے ہمیں متنبہ کرنا شروع کیا۔ ہم نے پروا نہیں کی۔
لیکن رکیے۔ ہم سے مرا دکون؟ میں، آپ نہیں۔ وہ ولوگ جو اس دنیا کا نظم چلاتے ہیں، جو ہماری جانوں سے لے کر، اس کرہ ارض کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔
وہی ٹیکنالوجی کو ایک عام مشین سے، فیصلہ ساز اختراعی مصنوعی ذہانت تک پہنچاتے ہیں، دوسرے سیاروں کو اپنی نوآبادی کے منصوبے بناتے ہیں، موسموں کے تغیر و تبدل کو اپنے اختیار میں لاتے ہیں، پورے کرہ ارض کو کئی بار تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نیوکلیائی ہتھیار ایجاد کرتے ہیں، مسلسل اور ایک ہی رخ پر ترقی کا راگ الاپتے ہیں، پوری فطرت کے بنیادی نظم میں ناقابل اصلاح خلل ڈالتے ہیں اور آئرنی یہ ہے کہ خود محفوظ رہتے ہیں، اپنی آل اولاد سمیت۔ نیز ان کے پا س ٹھکانوں کی کمی نہیں۔
سیلاب میں بھی کون لوگ اور کن کے گھر، مویشی، رزقِ آب بنے؟ کون لوگ چیختے چلاتے، آہیں بھرتے، استغفار کرتے رہے؟ محض چند منٹوں میں کن لوگوں کی زندگیاں، ہمیشہ کے لیے بدل گئیں؟
ایک اقلیتی اشرافیہ کے سبب، ایک نئے ارضیاتی عہد کا آغاز ہوا، جسے انتھروپوسین کا نام دیا گیا ہے۔ 1945 میں ایٹمی دھماکوں سے، زمین تبدیلیوں سے گزری۔ اس سے پہلے زمین، فطری تبدیلیوں سے گزرتی رہی ہے۔
سمندر، دریا راستہ بدلتے رہے ہیں، مخلوقات پیدا ہوتی مرتی رہی ہیں، مگر جوہری دھماکوں، ٹیکنالوجی پر بے تحاشہ انحصار، فوسل ایندھن کے استعمال، کاربن کے اخراج کی زیادتی اور اب مصنوعی ذہانت کے لیے درکار برقی ایندھن وغیرہ نے زمین اور اس کی فضا میں انسانی اثر سے تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں انسانوں پر واپس پلٹ رہی ہیں۔
انتھروپوسین، انسانی اثر ہی کا عہد ہے۔ انسانی اثر کس قدر مہلک ہوسکتا ہے، اسے بادلوں کے اچانک پھٹنے اور اس کے نتیجے میں گارے اور پتھروں کے سیلاب سے سمجھاجاسکتا ہے۔ یہ سب فطرت کے نظم میں، انسانی اثر سے پیدا کیا گیا خلل اور جنون ہے۔
فطرت میں تخریب وتباہی کا عنصر(انسانی نقطہ نظر سے) پہلے سے موجود ہے، یہ خلل اور جنون نئی چیز ہے۔ فطرت کا جنون، اس کے پیمانہ صبر کے لبریز ہونے کا اعلان ہے۔ کلاؤڈ برسٹ پیمانہ صبر کے چھلک پڑنے کی، عملی صورت ہے۔ جنون کسی قاعدے قانون، کسی حد، رکاوٹ کی پروا نہیں کرتا۔ فطرت اپنے جنون آمیز غیظ کے اظہار میں کسی حد اور کسی قاعدے کی پروا نہیں کررہی ہے۔
فطرت کے اس جنون کا خاتمہ نہ ہوا تو باقی انواع کا علم نہیں، مگر انسانوں کے مکمل خاتمے کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ کیا اس پیش گوئی کو تبھی سنجیدگی سے لیا جائے گا، جب اقلیتی اشرافیہ کو خود اپنے خاتمے کا حقیقی خوف لاحق ہوگا؟

