Edward Saeed Ki Saalgirah Par Chand Baaten
ایڈورڈ سعید کی سالگرہ پر چند باتیں
ہم میں سے کسی کو اپنی پیدا ئش کا دن، مہینہ، سال، جگہ، والدین منتخب کرنے کا اختیار نہیں۔ فطرت بہت سے معاملات میں فیاض ہے، مگر ہمیں اپنے والدین، اساتذہ اور خطوں، ملکوں کو منتخب کرنے کا موقع دینے میں فیاض نہیں ہے۔ بایں ہمہ، ہم میں سے چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پیدا ئش کا دن، ایک وسیع انسانی آبادی کے لیے یاد گار بنا لیتے ہیں اور انسانیت کے محسنوں میں شمار کیے جانے لگتے ہیں۔ سعید انھی میں سے ایک ہے۔
سعید نے اپنی پیدائش کے لیے بلاشبہ یکم نومبر کی تاریخ اور یروشلم کا مقام اور 1935ء کا سال نہیں چنا تھا۔ اس دن اسی شہر میں اور بھی سیکڑوں لوگ پیدا ہوئے ہوں گے، مگر انیس سو تیس کی دہائی میں یروشلم، گوروں کی سیاست کے نتیجے میں جن سیاسی حالات سے گزر رہا تھا، اور جن کا براہ راست اثر سعید اور غیر یہودی عرب آبادی پر ہونے والا تھا، انھی حالات کی بنیاد پر دنیا کو سمجھنے کا ایک نیا زاویہ صرف اس ایک شخص نے دیا، جس کی مادری زبان عربی اور مذہب عیسائیت تھا۔
سعید کی پہلی کتاب تو جوزف کونارڈ پر تھی (جسے ہم اس کے ناول قلب ظلمات کے حوالے سے جانتے ہیں) مگر اس کی ابتدائی کتابوں میں Beginning: Intention and Method بھی شامل ہے۔ اس میں وہ ابتدا (origin) اور آغاز (beginning) میں فرق کرتا ہے۔
"ابتدا" الوہی اور اساطیری ہے، جب کہ "آغاز" دنیوی اور انسانی ہے۔ گویا "ابتدا" پر آدمی کا اختیار نہیں، مگر "آغاز" انسانی اختیارہی کے نتیجے میں صورت پذیر ہوتا ہے۔ آدمی کی اپنی پیدا ئش بھی ایک طرح کی "ابتدا" ہے، اس کی پیدائش ایک الوہی ہستی کی خلاقیت کی طرف اشارہ کرتی ہے، گویا سالگرہ مناتے ہوئے اگر ہم اپنے سالوں کی گنتی کو ایک طرف رکھ کر محض اپنی پیدا ئش سے وابستہ تخلیقیت کو یاد کریں تو ہمارے دل الوہی خلاقیت کی ثنا سے لبریز ہوں گے۔ تاہم اس کے بعد ہم جو کچھ ہیں، اس میں بڑا حصہ خود ہمارا، تاریخ کا اور زمانے کا ہے۔ یہ تینوں ایک یا دوسری صورت میں انسانی ارادے سے متعلق ہیں۔ سعید کی ثفافتی اور مابعد نوآبادیاتی تنقید کا موضوع بھی یہی رہا ہے۔
اسے سکول میں اپنی مادری زبان عربی بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ طالب علم صرف انگریزی بول سکتے تھے۔ وہ چھپ چھپ کر اپنی مادری زبان میں بات کرتا۔ اس ایک واقعے کو بعد میں اس نے بڑے تاریخی سیاسی عمل کے ایک مظہر کے طور پر دیکھا اور سمجھا۔
سکول میں اپنے عربی بولنے کو وہ بعد میں ایک طرح کی مزاحمت کا نام دیتا ہے کہ اس طور وہ انگریزی سکول کے قواعد توڑنے کا اقدام کیا کرتا تھا۔ وہ اس چھوٹی سی مزاحمت کا قصہ لکھ کر ہمیں باور کراتا ہے کہ بچوں میں محض ضد ہی نہیں اپنے مکمل مفہوم میں مزاحمت بھی موجود ہوتی ہے۔ بہ ہر کیف کچی عمر کی مزاحمت، پکی عمر میں دانشورانہ مزاحمت میں بدل گئی اور وہ بیسویں صدی کے چند بڑے دانشوروں میں شمار ہونے لگا۔
ہرمزاحمت میں کچھ نہ کچھ غصہ شامل ہوتا ہے، بلکہ مزاحمت کا آغاز غصے ہی کو سمجھنا چاہیے۔ لیکن سعید کے یہاں غصہ، اس غیر معمولی علم و فضل کے حصول میں صرف ہوا ہے جو جدید استعماری دنیا میں علم اور طاقت کے ظاہر اور مخفی رشتوں کو سمجھنے سے متعلق ہے۔
وہ خود کو دہرے تناظر کی پیداوار کہتا ہے۔ اس کے والد کے پاس امریکی شہریت تھی اور سعید کی عمر کا بڑا حصہ امریکا اور خصوصاً کولمبیا یونیورسٹی میں گزرا۔ وہ بہ یک وقت فلسطینی عرب امریکی تھا۔ وہ اس دہرے تناظر کو اپنی نفسیاتی کشمکش میں تبدیل نہیں کرتا، اور نہ ایک مستقل غصے کا شکار رہتا ہے، بلکہ اپنے دہرے تناظر کی مدد سے دنیا کو دو زایوں سے دیکھنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ وہ فلسطینی عرب کی نظر سے، مغربی علمی طریق کار کی مدد سے، خود مغرب کی شرق شناسی (Orientalism) اور دیگر استعماری حربوں کو سمجھتا اورا نھیں خالص علمی اسلوب میں سامنے لاتا ہے۔ اپنے علم کی طاقت سے استعماریت کے پیدا کردہ علم کے بڑے، بہ ظاہر پرشکوہ ذخیرے کو زیر وزبر کرتا ہے اور مغرب میں اپنے خلاف باقاعدہ غصے کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ وہ جب بی بی سی پر لیکچر دینے پہنچا تو انگریز صحافیوں نے بہت برا مانا اور اس کی آمد کے خلاف احتجاج کیا۔
1978 میں شایع ہونے والی اس کی "اورینٹلزم" بیسویں صدی کی چند ایک مئوثر ترین کتابوں میں سے ہے۔ بلاشبہ ان سے پہلے فرانز فینن، ایمی سیزارے اور چند دوسرے لوگ استعماری مغرب کو بے نقاب کرچکے تھے مگر جس غیر معمولی علم و فضل سے سعید نے مغرب کے مشرق سے متعلق "علم" کی اصل کو کھولا ہے، وہ انھی سے مخصوص ہے۔ مغرب، اس کتاب کی اشاعت کے بعد پہلے کی مانند نہیں رہا۔ اٹھارویں صدی سے مغرب نے دنیا کو "ہم" اور "وہ" میں تقسیم کیا تھا اور اس تقسیم کو اپنی علم، سیاست، خارجہ تعلقات، اپنے ادب، تاریخ، فلسفے، لسانیات، نسلی مطالعات میں شامل کررکھاتھا، اسے مغرب ہی کے علمی طریق کار سے کام لیتے ہوئے، سعید نے واشگاف کیا۔ حقیقی معنوں میں ایک تاریخ رقم کی۔
سعید جس تصورِ کائنات کا حامل ہے، اس کے مطابق، ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہ انسانی دنیا ہے، اسے انسانوں نے اپنے ارادوں سے تشکیل دیا ہے، اور سماجی دنیا کا ہر رویہ، ادارہ، رواج، نظریہ تاریخ کے محور پر تشکیل پایا ہے۔ تاریخ کے عمل اور واقعات کو فطری یا الوہی کہنا، مقتدر انسانوں کو ذمہ داری کے احساس سے بری کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا کام انسانی صورتِ حال کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا ہے، نہ کہ ان کی غلطیوں کا جواز گھڑنا۔ سعید نے اسلام سے متعلق مغرب کے تصورات اور بیانیوں کا مطالعہ بھی اسی انسانی نظر سے کیا ہے۔ وہ فلسطینیوں، مسلمانوں کی حمایت، قوم و مذہب کی بنیاد پر نہیں، انسانی حقوق کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ہر شخص اور قوم کو اپنی شناخت طے کرنے اور اس کے مطابق جینے کا حق ہے۔
سعید، (دانشوروں سے متعلق اپنے خطبات میں) شرق شناسوں کے ساتھ ان سیاست دانوں کی زبان کا بھی تجزیہ کرتا ہے جو سچائی کو چھپانے، مسخ کرنے اوریکسر جھوٹ کو چند لفظوں کی جذبات انگیز تکرار سے سچ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں تک خطابت سے پہنچنے والے سچ اور تاریخی واقعاتی سچ میں فرق کیا جانا چاہیے۔
سعید، اپنی کتاب Intrention and Method Beginning ہی میں لکھتا ہے کہ ناول مغرب کی ادبی تاریخ میں"آغاز" ہے، یعنی جس سے ایک نیا ادبی کلچر شروع ہوا۔ فن اور انسانی تجربے کا ایک نیا عہد۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی سیاسی اور ادبی تاریخ میں کسے "آغاز" کہیں؟ کیا انیسویں صدی کی استعماریت کو یا اس کی تفہیم کی مدد سے، اس کی سیاسی، تعلیمی، ادبی، نفسیاتی صورتوں سے آزادی کی کوششوں سے؟ سعید کی سالگرہ کے دن اس سوال پر سوچنے سے بہتر کیا ہوسکتا ہے؟
ایک عالم، مفکر تخلیق کارکو خراج تحسین، اس کےعلم، فکر، تخلیق سے استفادے سے بہتر ہوسکتا ہے؟