Dil Ki Kitab Aur Apni He Kahani Se Jilawatan Kirdar
دل کی کتاب، اور اپنی ہی کہانی سے جلا وطن کردار

سچ یہ ہے کہ میرا دل، ایک کتاب ہے۔ اس سے کڑا سچ یہ ہے کہ اس کے سب ابواب میرے نہیں لکھے ہوئے۔ کیسا ستم ہے کہ میں اپنے ہی دل کی کتاب کا اکلوتا مصنف نہیں ہوں۔
یہ سوچ کر دل کی عجب حالت ہوتی ہے کہ میں اپنے سینے میں ایک ایسی کتاب سنبھالے پھرتا ہوں، جس کے چند اوراق تو میرے لکھے ہوئے ہیں، باقی کسی اور کے۔ آئرنی یہ ہے کہ ان اوارق کو مجھے بہ طور امانت بھی نہیں سونپا گیا۔ یہ ایک ایسا پیغام نہیں تھا، جسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے مجھے منتخب کیا گیا ہو۔ میں اپنی ساری شہرت کے باوجود یہ خیال تک نہیں لاسکتا کہ میں "عالم میں انتخاب" ہوں۔
یہ وہ رقعات نہیں ہیں، جو میرے سپرد اس لیے کیے گئے ہوں کہ میں ان تک پہنچاؤں، جو کہیں میرے قرب وجوا ر میں رہتے ہیں۔
میرے سینے میں یہ اوراقِ ناخواندہ کسی کی امانت نہیں ہیں۔ مجھے انھیں کسی کے سپرد نہیں کرنا۔ ان کا بوجھ اٹھانا ہے، ہر حال میں، خواہ اس سے میری کمر ٹوٹ جائے یا حوصلہ یا میری روح کچلی جائے۔ دوسروں کے ان لفظوں کا بوجھ ایک چٹان کے بوجھ سے زیادہ ہوا کرتا ہے، جنھیں ہم تک پہنچاتے وقت، ہمیں ان کو قبول اور رد کرنے کے اختیار سے محروم کردیا گیا ہو۔ جن پر گفتگو اور سوال کرنے کی ممانعت، خود ان لفظوں کے اندر، ضابطہ بندکردی گئی ہو۔
میں اپنی تنہائی میں، جب ان اوراق کو پڑھتا ہوں تو لرز لرز اٹھتا ہوں۔ میرے دل کی کتاب کے کتنے ابواب دوسروں نے لکھے، کچھ تو میری پیدائش سے بہت پہلے لکھ دیے گئے۔ کچھ، اس وقت لکھے گئے، جب میں بچہ تھا۔ ستم یہ کہ اس وقت بھی میرے دل کی کتاب کی تصنیف میں کئی شریک مصنف شامل ہوگئے، جب میں خود لکھنے کے قابل ہوگیا تھا۔
اب بھی، جب میں یہ کتاب کھولتا ہوں تو یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں کہ کل تک، جو صفحات خالی تھے، آج ان پر کسی نے بے دردی سے قلم چلایا ہوتا ہے۔ اس نے اپنی مرضی کے رسم خط میں، آڑھا ترچھا لکھا ہوتا ہے۔ مجھے اسے پڑھنے میں کئی پہر لگ جاتے ہیں۔
کتاب کے یہ اوراق، اوروں کے لیے ناخواندہ ہی رہے ہیں۔
وہ لمحہ کس قدر دہشت ناک ہوا کرتا ہے، جب ایک صبح آپ اٹھیں اور دیکھیں کہ آپ کے گھر کی ا ندرونی دیواروں پر کئی عبارتیں لکھی نظر آئیں، حالاں کہ کسی نے آپ کے گھر کی دیوار پھلانگی ہو نہ کہیں سیندھ لگائی ہو۔
کتنا کچھ ہے، جو ہمارے دلوں اور گھروں میں، ہماری رضا کے بغیر، شامل ہوجایا کرتا ہے۔
رات کا وہ سناٹا، سب سے عمیق اور سب سے ہیبت ناک ہوا کرتا ہے، جب دل کی کتاب کا کوئی ایسا ہی ورق کھل جاتا ہے، جسے کسی اور نے لکھا ہوتا ہے۔ رسول نے دوسروں کی لکھی ہوئی بہت کتابیں پڑھی ہیں، ہوسکتا ہے، وہ مصنفین نے اپنے ہی لیے لکھی تھیں، مگر انھیں پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا کہ جیسے وہ سب کے لیے لکھی گئی تھیں۔
ان کتابوں کے ایک ایک حرف میں نہ سہی، کئی حروف میں مجھے اپنا آپ نظر آتا، یوں لگتا، جیسے ان کتابوں کے کچھ حصے، میرے دل ہی کے ایک گوشے میں بیٹھ کر لکھے گئے ہوں۔ انھیں اپنی مرضی سے ردّ یا قبول کرنے کا اختیار، رسول کے پاس تھا، مگر رسول کے دل کی کتاب کا ایسا ورق پڑھنا کتنا بڑا جبر ہے، جسے رسول ہی کے لیے لکھا گیا ہو، مگر اس کی زبان آسانی سے سمجھ میں آتی ہو، نہ مطالب جلدی گرفت میں آتے ہوں اور مطالب سمجھ میں آجائیں تو وہ اجنبی لگیں، یوں محسوس ہو، جیسے وہ رسول کے دل کی کسی الجھن کو بیان کرتے ہوں، نہ اس کا کوئی حل، تجویز کرتے ہوں، الٹا، ایسی الجھنیں پیدا کرتے ہوں، جن سے دوچار ہوتے ہی شدت سے محسوس ہو کہ رسول کے خاکی وجود میں، کسی اور دنیا کے عناصر کی گرہیں ڈال دی گئی ہوں۔
ایسے سوالات سے، رسول کو لڑنے بھڑنے پر مجبور کردیا گیا ہو، جن کا کوئی سرا، کوئی دھاگہ، کوئی ریشہ، رسول کی واقعی زندگی کے تانے بانے میں شامل نہ ہو۔ ایسے سوالات کی نوک، سیدھی، روح کے اس حصے میں چھید کرتی ہے، جو تنہائی میں، آدمی کی سب سے بڑی پناہ ہو اکرتی ہے۔
رسول، یہ مجھے کون بتائے گا کہ ہمارے ہی دلوں میں سب کچھ ہمارا کیوں نہیں ہے؟
میں نے سنا تھا کہ باقی سب کچھ دوسروں کا ہوسکتا ہے، خواب اور یادیں صرف ہماری ملکیت ہوا کرتی ہیں۔
میں نے غلط سنا، یا کہنے والے نے غلط کہا تھا۔ میرے خوابوں اور میری یادوں کی شاخوں میں بھی اجنبی، نوکیلے پنجوں اور تیز دھار چونچوں والے پرندوں کے گھونسلے بنے ہوئے ہیں۔ میں پورے داغستان کے پرندوں کو جانتا ہوں۔ یہ یہاں کے کوہستانی پرندے نہیں ہیں۔ ان کا ذکر یہاں کی کہانیوں میں بھی نہیں پڑھا۔
میں خود ان کی کہانی نہیں لکھنا چاہتا۔ میں کسی ایسے پرندے کو اپنی کہانی میں شامل نہیں کرنا چاہتا، جو یہاں کا نہیں ہے، اس زمین کا نہیں ہے۔ میں آنے والی نسلوں پر، کسی اجنبی، نامعلوم شے کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔
میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ خواب اور یاد میں جب کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا تو یہ اجنبی اور دنیاؤں کی مخلوقات کیسے شامل ہو جایا کرتی ہیں؟
استعماریت کی تاریخ، زمینوں اور ذہنوں پر قبضے کی تاریخ ہے، لیکن خوابوں اور یادوں پر بھی کوئی استعمار قابض ہوجائے، یہ رسول کے لیے نئی اور اس سے زیادہ پریشان کن بات ہے۔
کیوں ہماری خواب گاہوں میں اجنبی رہنے بسنے لگتے ہیں؟
ہم اپنی خواب گاہوں سے، ان اجنبیوں کو کیوں نکال نہیں سکتے؟
یہی لوگ، ہمارے بسیروں کو، ہمارے ہی قید خانے بنا دیا کرتے ہیں یا ہمیں اپنے ہی ٹھکانوں سے بے دخل کردیا کرتے ہیں۔
مجھے ایک افریقی حکایت یاد آتی ہے۔
بارش میں، ایک ہاتھی، جنگل میں ایک جھونپڑی کے پا س سے گزرا۔ اس نے جھونپڑی کے مالک سے کہا کہ اولے پڑ رہے ہیں، اس کی جلد پر زخم ہیں، وہ مزید خراب ہوجائیں گے۔
وہ اسے چھونپڑی میں کچھ دیر ٹھہرنے کی اجازت دے دے۔ چھونپڑی کے مالک نے کہا کہ چھونپڑی چھوٹی ہے، تو اس میں سما نہیں سکتا۔ ہاتھی نے کہا کہ وہ صرف سونڈ اور منھ کو بچا لے تو بڑی بات ہوگی۔ چھونپڑی والے نے پتھر جیسے اولوں کی بارش میں ہاتھی کوبےبس د یکھا تو اس کا دل نرم پڑگیا۔
اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، تو اپنے منھ اور سونڈ کو جھونپڑی کے دروازے میں داخل کر لے۔ ہاتھی نے شکریہ ادا کیا۔ وہ بیٹھ گیا اور پہلے صرف سونڈ، جھونپڑی کے چھوٹے سے دروازے میں داخل کی۔ کچھ دیر بعد، منھ، پھر گھسٹتے گھسٹتے، گردن بھی جھونپڑی میں داخل کر لی۔ جھونپڑی والے نے احتجاج کیا کہ تو نے صرف سونڈ اور منھ کو بارش سے بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہاتھی نے اس کی سنی ان سنی کردی۔ وہ رفتہ رفتہ اپنے پورے جثے کو جھونپڑی میں لے آیا۔ اب پورا ہاتھی، جھونپڑی میں اور جھونپڑی کا مالک، باہر بارش میں تھا۔
میں جب اپنے دل کی کتاب کے وہ اوراق پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں وہی افریقی ہوں۔ میں اپنے ہی دل کی کتاب سے باہر ہوگیا ہوں۔
میری کتاب دل میں ہاتھی کی کہانی کا حصہ بڑھ گیا ہے اور میں بس حاشیے پر ایک ذرا سی تحریر کی صورت ہوگیا ہوں۔
میں اپنی ہی کہا نی کا مرکزی کردار نہیں ہوں۔ میں کسی اور کی کہانی پڑھتا، سنتا اور لکھتا ہوں۔
میں اپنی ہی کہانی سے، جلاوطن کردار ہوں۔
نوٹ: زیر تصنیف میرا داغستان جدید سے اقتباس۔

