Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Arundhati Roy Ki Aap Beeti Aur Unki Meri Zuban

Arundhati Roy Ki Aap Beeti Aur Unki Meri Zuban

ارون دھتی رائے کی آپ بیتی اور ان کی "میری زبان"

ارون دھتی رائے کی تازہ کتاب Mother Mary Comes to Me، ان کی آپ بیتی ہے۔ وہ اپنی والدہ میری رائے کو اپنی کہانی کا اہم کردار سمجھتی ہیں، تاہم یہ کتاب خود ارون دھتی رائے کی بہ طور شخص اور بہ طور مصنف جدوجہد کی کہانی ہے۔ اپنی کہانی لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی مشکل ان سچائیوں کا اظہار ہے، جو ایک راز کی صورت، اکثر آدمی کے ساتھ دفن ہوجایا کرتی ہیں۔

اردن دھتی رائے نے ایسی کئی سچائیوں کا اظہار کسی مبالغے، تفاخر، ندامت کے بغیر کیا ہے۔ جیسے یہ سب عام انسانی سچائیاں ہیں۔ ان سچائیوں میں سے بیش تر کا تعلق اس زمانے سے ہے، جب وہ محض اٹھارہ برس کی عمر میں دہلی آئیں اور فن تعمیر کے شعبے کی طالبہ بنیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اپنی والدہ، جنھیں وہ مسز رائے لکھتی ہیں، سے الگ ہوکر ہی، ان سے محبت کا تعلق برقرار رکھ سکتی تھیں۔

ارون دھتی رائے کی جدوجہد، ایک اکیلے شخص کی جدوجہد ہے۔

انھوں نے ایک باب میں"میری زبان" سے متعلق بھی خیالات ظاہر کیے ہیں۔ یہ خیالات کئی اعتبار سے اہم ہیں۔

وہ "میری زبان" سے مراد ہندی، ملیالم یا انگریزی نہیں لیتیں۔ وہ اپنی زبان کو مادری، علاقائی، قومی، عالمی زبان کے مفہوم میں بھی نہیں سمجھتیں۔ ان کی نظر میں"میری زبان" سے مراد، وہ زبان بھی نہیں ہے، جس پرآدمی کو قدرت حاصل ہو۔

مسلسل کوشش سے، قدرت تو کسی بھی زبان پر حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ "میری زبان" سے مراد، ایک ادیب کی زبان لیتی ہیں۔ یعنی وہ زبان، جسے ارون دھتی رائے استعمال کرے، وہ اردون دھتی رائے کو استعمال نہ کرے۔ وہ اس نسچائی سے واقف ہیں کہ زبان، آدمی کو استعمال کرسکتی ہے، اس وقت بھی کرسکتی ہے، جب آدمی یہ یقین کرنے لگے کہ ا س کے پاس وسیع ذخیرہ الفاظ ہے، وہ زبان کے محاورات پر دست رس رکھتا ہے، اس کے مختلف رجسٹروں، یعنی گھر سے بازار، علم وتخلیق، صحافت وسائنس کے پیرایوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔

زبان آدمی کو کیسے استعمال کرتی ہے؟ اس پر ارون دھتی رائے نے اظہارِ خیال نہیں کیا، مگر یہ ایک اہم سوال ہے۔ آدمی تبھی استعمال ہوتا ہے، جب وہ شے، یعنی اوبجیکٹ بن جاتا ہے۔

جب وہ خود کو زبان کے اختیار میں دے دیتا ہے۔ جب وہ زبان سے متعلق کسی ایسے تصور کو قبول کر لیتا ہے جو سیاسی مقاصد کے لیے تشکیل دیاگیا ہوتا ہے، جب وہ زبان میں موجود سٹیریو ٹائپ پر سوال اٹھائے بغیر تسلیم کر لیتا ہے، جب وہ زبان کے مقبول پیرایوں میں اظہار خیال کرنے لگتا ہے، جب وہ مخصوص لفظیات، تراکیب، محاوارت کا مسلسل استعمال کرتا ہے، جنھیں کسی بھی طاقت کی تائید وسند حاصل ہوتی ہے، تب وہ خود کو زبان کے اختیار میں دے دیتا ہے۔

وہ زبان کے گنجان جنگل میں اپنے لیے راستہ تلاش نہیں کرتا، اس جنگل ہی کو لکھنے لگتا ہے، یعنی اپنے لکھنے میں خود غائب ہوا کرتا ہے۔ صرف زبان، اس کے ادراک اور خیال وتخیل پر ہی حکمرانی نہیں کرتی، کچھ مخصوص تصورات، نظریات بھی اس کو اپنا آلہ کار بنالیا کرتے ہیں۔ زبان کی حکمرانی، حکم رانی کی سب سے مئوثر صورت ہوا کرتی ہے۔ تمام ملکوں کی وزرات ہائے صداقت، زبان ہی کے ذریعے، کام کرتی ہیں۔

ارون دھتی رائے کا مئوقف دیکھیں تو اس میں اس جانب اشارہ موجود ہے کہ ایک ادیب، اپنی زبان کی جستجو کرتا ہے۔ یعنی ایسی زبان، جسے وہ مصرف میں لا سکے۔ جسے اپنے جملہ تجربات وتخیلات اور انحرافات کے مستند اظہار کے لیے استعمال کرسکے۔ ان کا تعلق آسام کے شامی عیسائی گھرانے سے تھا۔ ان کی مقامی زبان ملیالم، قومی زبان ہندی، جب کہ سرکاری اور عالمی زبان انگریزی تھی۔ بہ طور ادیب، اس کے لیے اہم کسی زبان کی باہر موجود شناخت نہیں ہے، بلکہ وہ زبان ہے، جس میں وہ خود کو لکھ سکے۔

وہ خود کہتی ہے کہ بہ طور ادیب میری زبان وہ ہے جو میری کثیر لسانی دنیا کو میرے لیے بیان کرسکے۔ اس نے اگرچہ انگریزی کو منتخب کیا، مگر اسے اپنی زبان بنایا۔ اس کی انگریزی، اس کی اپنی کثیر لسانی دنیا، اس کے سماجی وسیاسی اور شخصی تجربات کو، اس کے اپنے اسلوب میں بیان کرتی ہے۔

وہ اس سفر کو بھی بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے یہ زبان کیسے حاصل کی۔ پہلے وہ خیال کرتی تھیں کہ ان کی زبان باہر ہے، ان کے اندر نہیں ہے۔ "میں جانتی تھی کہ وہ خود میری طرف نہیں آئے گی۔ مجھے اس کا تعاقب کرنا ہوگا، جیسے شکار کا تعاقب کیا جاتا ہے"۔ شکار کرنے کے بعد، اس کابدن چاک کرنا ہوگا اور اسے کھانا ہوگا۔

جب یہ میرے خون میں شامل ہو کر میرے بدن میں رواں ہوگی تو تب یہ میری زبان ہوگی۔ گویا زبان ایک باہر موجود، زندہ جانور ہے، جس کا صرف شکار کیا جاسکتا ہے۔ میرے جنگل کا یہ قانون ہے، جس سے میں گریز نہیں کرسکتی۔ اپنی زبان حاصل کرنے کا یہ طریقہ، اہنسا اور شاکاہاری کا طریقہ نہیں تھا"۔ گویا اپنی زبان حاصل کرنے میں محنت، تعاقب، تشدد شامل تھا۔

وہ اعتراف کرتی ہیں کہ اپنی زبان حاصل کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں تھا۔ گویا زبان، جانور نہیں تھی، جس کا شکار کیا جاسکے اور جسے ذبح کرنے کے بعد کھایا جاسکے۔ زبان کو جب تک باہر سمجھا جائے، وہ آپ سے دور ہی رہے گی اور وہ آپ کو استعمال بھی کرے گی۔ نیز زبان کو باہر یعنی جانور سمجھنے میں یہ خطرہ ہر وقت موجود ہے کہ وہ آپ کی طرف پلٹ سکتی اور حملہ آور ہوسکتی ہے، یعنی وہ آپ کو نگل سکتی ہے۔ ہم کئی ادیبوں کے یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ انھیں زبان نگل گئی۔ ان کا نام موجود ہے، مگر وہ خود ایک وجود کے طور پرغائب ہیں۔

اردون دھتی رائے کہتی ہے کہ اسے زبان کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یعنی زبان، اس کے اندر موجود تھی۔ اس کے ہر تجربے کی تشکیل اور اظہار میں شامل تھی۔ اسے باہر لانے میں، البتہ وقت اور صبر درکار تھا۔ اسے مصور، رقاص یا تیراک کی مانند تربیت کی ضرورت تھی۔ اسے اپنے جسم کا درجہ حرارت اور اپنے بدن میں رواں خون کو معمول پر لانے کی ضرورت تھی۔ اپنے حواس کو بحال رکھنے اور خود سے بات کرنے کا راستہ دریافت کرنے کی ضرورت تھی۔

ارون دھتی رائے، ان دنوں دہلی میں فن تعمیر کا طالبہ تھی اور صبر وسکون کی زندگی سے محروم تھی۔ اپنی زبان حاصل کرنے کے لیے، اسے زبان کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، رک کر، اپنی جانب جانے والے راستے پر آہستہ آہستہ چلنا تھا۔ جن دنوں وہ اٹلی میں تھی، ان دنوں اس نے پردیپ کو خط لکھنے کی صورت، اپنی جانب آہستہ آہستہ چلنے کا آغاز کیا۔

وہ انگریزی میں لکھتی ہیں، اسی انگریزی میں لکھتی ہیں، جس میں اس نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں کبھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سکول کے دنوں میں، جب وہ چھوٹے چھوٹے مضامین لکھا کرتی تھیں تو ان کی اماں، ان پر Horribe اور Nonsense لکھ کر مسترد کر دیا کرتی تھیں۔ وہ زبان کے قواعد میں غلطیاں کرتی تھیں۔

اب وہ جس انگریزی میں لکھتی ہیں، اس پر محض اس کے دستخط نہیں ہیں، وہ خود موجود ہے، اپنے ان سب تجربات کے ساتھ، جنھوں نے خود اس کی شخصیت کی تعمیر وشکست میں حصہ لیا، اس کی جدوجہد موجود ہے، جس نے اسے توڑا، بنایا اور دوسروں سے الگ کیا۔ یعنی اپنی زبان میں، ایک ادیب کی زبان میں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari