Apne Ustad Doctor Pervez Parvazi Ki Yaad Mein
اپنے استاد ڈاکٹر پرویز پروازی کی یاد میں
دو دن پہلے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر پرویز پروازی بھی رخصت ہوئے۔ وہ سویڈن میں ایک خاموش زندگی بسر کررہے تھے۔ خاموشی سے چلے گئے۔ ان کے جانے کی اطلاع بھی کوئی ایک ہفتہ بعد ملی۔ ڈاکٹر پروین کلو ایم اے میں میری کلاس فیلو رہی ہیں، اسی نے مجھے یہ افسوس ناک خبر سنائی۔
مجھے تقدیر گورنمنٹ کالج فیصل آباد لے گئی تھی۔ تب اسے یونیورسٹی کا درجہ نہیں ملا تھا۔ میں اور بہت کچھ کرنے کا عز م رکھتا تھا، ایم اے اردو کا ارادہ بالکل نہیں تھا۔ اردو میں افسانے لکھا کرتا تھا جو اس زمانے کے کچھ مقبول عام رسائل میں شائع بھی ہواکرتے تھے۔ کچھ دوسری نثری تحریریں بھی لکھی تھیں، مگر ایم اے اردو میں جانے کا دور دور تک خیال نہیں تھا۔ میں سائنس کا طالب علم رہا تھا اور اسی کو جاری رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن کچھ واقعات اس تیزی سے رونما ہوئے کہ مجھے ایم اے اردو میں داخلہ لینا پڑااورلاہو ر کے بجائے فیصل آباد میں۔
ڈاکٹر پرویز پروازی نے سال اوّ ل میں تاریخ کا پرچہ پڑھایا۔ یہ سب سے مشکل پرچہ تھا۔ شاید اسی لیے انھیں دیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ چارا ور اساتذہ ہمیں پڑھاتے تھے۔ دو کلاسوں میں تو ایک ایک پل کاٹنا، پہاڑ کاٹنے کے مترادف ہوتا۔ وہ تشریف لاتے، اپنے رجسٹر کھولتے اور لکھوانا شروع کردیتے۔ میں نے کبھی ایک لفظ نہیں لکھا۔ بس سرجھکائے، نوٹ بک گود میں رکھے، کچھ لکیریں کھینچتا رہتا یا خود کو کوستا رہتا یا غنودگی میں چلاجاتا۔ پہلی نشستوں پر چوں کہ لڑکیاں ہوتیں، اس لیے دونوں اساتذہ کو میری حالت کی خبر نہ ہوپاتی۔
دوسروں کا پتا نہیں، مگر مجھے پروازی صاحب کی کلاس کا انتظار رہتا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ باقی اساتذہ اردو ادب ہی نہیں، خود تعلیمی عمل سے بے رغبتی کاسبب تھے۔ پروازی صاحب ان سب کی تلافی تھے۔
وہ اپنے ساتھ کئی کتابیں اٹھا کر لاتے۔ پہلے موضوع کا تعارف کرواتے۔ پھر اس کی وضاحت کرتے اور ضرورت پڑھنے پر متعلقہ کتب سے اقتباس پڑھتے۔ وہ درست معلومات کے ساتھ ساتھ ادب سے متعلق بصیرت بھی بہم پہنچاتے جاتے۔ ادب مسرت اور بصیرت، لذت اور روشنی بہ یک وقت بہم پہنچاتا ہے۔ یہ سچائی، ان کے ایک ایک جملے سے پھوٹی پڑتی۔ وہ ادب پڑھاتے ہوئے، ادب کی روح نہیں کچلتے تھے۔ یعنی وعظ ونصیحت نہیں کرتے تھے۔
ان کی آواز گرج دار تھی، لہجہ نستعلیق تھا اور عمومی رویہ نہایت ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا۔ اسی کالج میں پہلی بار یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ ایک استاد، طالب علم کا سچا خیر خواہ ہوسکتا ہے تو دوسری طرف کوئی دوسرا استاد اس کا پکا حریف بھی ہوسکتا ہے اور اس کے درپے بھی! اور یہ سلسلہ کئی برسوں تک بھی چل سکتا ہے۔
پروازی صاحب کا کمرہ ہر وقت طلبا و طالبات سے بھرا رہتا۔ وہ صرف ادب پر گفتگو کیا کرتے۔ وہ اپنے ہر طالب علم کا باقاعدہ استقبال کیا کرتے۔ کھڑے ہوجایا کرتے۔ ہم سب شرمندہ بھی ہوتے اور تفاخر بھی محسوس کرتے۔ اس عمر کا تفاخر، بعد کے اعتماد میں بدل جایا کرتا ہے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا۔
میں نے ایک دن کہا کہ میں نے ایک تحریر لکھی ہے۔ اگلے دن دکھائی۔ کہنے لگے کہ یہ تو انشائیہ ہے۔ ان کے کہنے پر اسے اوراق میں بھیج دیا۔ چند مہینوں بعد کہنے لگے: مبارک ہو۔ تمھارا انشائیہ اوراق میں چھپ گیا ہے۔ وہ مجھے حاتم بھٹی کی دکان پر لے گئے۔ وہاں اور رسائل کے ساتھ اوراق کا تازہ شمارہ (جون 1989ء) بھی موجود تھا۔ جس صفحے پر انشائیہ چھیا تھا، اسے کھول کر مجھے اور وہاں موجود باقی لوگوں کو دکھایا۔ وہ بہت خوش تھے۔ انھوں نے میری کامیابی کا جشن منایا۔ بعد میں میری ادبی زندگی، جو بھی ہے، اس میں اس ایک دن کا اہم کردار ہے۔ مجھے تنقید کی طرف راغب کرنے میں ڈاکٹر احسن زیدی اور ان کا کردار ہے۔ اوراق اور آغاصاحب سے تعلق کی بنیاد پروازی صاحب ہی نے رکھی۔
ہم صرف ایک سال ہی ان سے پڑھ سکے۔ سال دوم میں پہنچے تو پتا چلا کہ ان کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ وہ جلد ہی یورپ منتقل ہوگئے۔ کافی عرصہ اپسالا یونیورسٹی سویڈن سے منسلک رہے۔ اکثر طالب علم صدمے میں تھے۔ کچھ کریدنے پر معلوم ہوا کہ ان کی مقبولیت ہی ان کی دشمن ثابت ہوئی۔ مذہبی بنیاد پر انھیں اذیت دے کر وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ سب کیا، وہ بھی اساتذہ تھے، پنج وقتہ نمازی تھے اور کل وقتی تعلیمی سیاست کا حصہ تھے، مگر طلبا کے لیے نہایت سخت گیر تھے۔ مجھے یا دہے کہ کئی طالبات ان کی کلاسوں میں باقاعدہ رو دیا کرتی تھیں۔
پروازی صاحب، جن کا اصل نام، ناصر احمد خاں تھا، نے اردو افسانے پر پی ایچ ڈی کی تھی۔ انھوں نے زیادہ نہیں لکھا۔ ایک مختصر ناول لکھا تھا اور خود نوشتوں کے تنقیدی جائزے لکھے تھے۔ پس نوشت اور پسِ پس نوشت کے عنوان سے کتاب شایع ہوئی۔ اس کتاب میں ایک سو باون خود نوشتوں کا جائزہ شامل ہے۔ جن دنوں جاپان رہے تھے، ہائیکو کے تراجم کیے تھے، اور ان پر لکھا بھی تھا۔