Ana, Toheen Ka Zakham Aur Jang
انا، توہین کا زخم اور جنگ

مجھے نیند کم آتی ہے۔ گہری، مکمل بے خبری کی نیند تو میراسب سے بڑا خواب ہے۔ بڑے خواب کہاں پورا ہوا کرتے ہیں۔
تھوڑی بہت نیند جو آتی ہے، اس میں خیالات کے کئی سلسلے ہوتے ہیں۔ کچھ زنجیر کی مانند، کچھ خزاں میں اڑتے ہوئے پتوں کی طرح اور کچھ سررئیل مصوری کی طرح۔ کہیں کی چیز، کہیں آن ملتی ہے۔ میں نیند اور بیداری کی سرحد پر ڈولتا رہتا ہوں۔ مجھے نہیں پتا چلتا کہ کب خواب کی مملکت میں چلا گیا ہوں اور کب بیداری کی سلطنت میں۔
سرحد جہاں ہوتی ہے، جھگڑا رہتا ہے، یا جھگڑے کا امکان رہتا ہے۔ میرے اندر بھی، رات کوکئی جھگڑے چلتے رہتے ہیں۔ اپنے خلاف، دنیا کے خلاف اور دنیا کو چلانے والوں کے خلاف۔ رات تو لڑائی کا ایک اور میدان ہی نہیں، آسمان بھی موجود تھا۔
گزشتہ رات، جب کمرے کی روشنی بند کی اور اندھیرے کو دیکھا تو مجھے جانے کیوں لگا کہ اندھیرا، آدمی کو نگل سکتا ہے۔ اندھیرا، محض روشنی کے نہ ہونے کی حالت نہیں ہے، یہ ایک الگ، جدا، ہیبت ناک وجود ہے، جو بس چھیا رہتا ہے، روشنی کے بالکل پیچھے۔ جیسے آدمی کا سایہ، آدمی کے آس پاس ہی منڈلاتا رہتا ہے۔
روشنی کے عقب میں چھپا ہوا اندھیرا، روشنی کے وجود ہی کا حصہ ہے، اس کا باغی حصہ۔ وہ جب ظاہر ہوتا ہے تو پہلا احساس یہی ہوتا ہے کہ جیسے اس نے روشنی کو نگل لیا ہے اور اس کی زبان سے سیاہ خون ٹپک رہا ہے اور اب یہ ہر اس چیز کو نگل لے گا، جواس کے مقابل اور محیط میں آئے گا۔ میں نے چاہا کہ بیڈ سے اٹھوں اور بجلی کا سوئچ آن کردوں، مگر پھر خیال آیا کہ یہ بزدلی ہے۔
دل نے کہا کہ دنیا میں کون ہے جو بزدل نہیں ہے؟ بس بزدلی کے اظہار کے قرینے جدا جدا ہیں۔ سورما وہی بنتا ہے، جو نہیں چاہتا کہ لوگ اس کی بزدلی سے واقف ہوں۔ جو دل خوف محسوس کرتا ہے، احتیاط پسند ہوتا ہے، کیا وہ بزدل نہیں ہوتا؟ مجھے عجیب وغریب خیال آرہے تھے۔ اسی دوارن یہ خیال بھی آیا کہ جانے آج رات کیسے گزرے؟
مجروح انا، ایک شخص کی ہو یا قوم کی، اسے ایک پل چین نہیں آتا۔ وہ اس زخم کا مرہم چاہتی ہے۔ پہلے زمانے میں بادشاہ کی انا ہوا کرتی ہے۔ بادشاہ کی انا اتنی ہی بڑی ہوتی تھی، جتنی بڑی اس کی سلطنت ہوا کرتی، جتنا بڑ اس کا قلعہ، اس کا حرم اور اس کے خزانے کا صندوق ہوا کرتا تھا۔
جدید زمانے میں قوم کی انا ہوا کرتی ہے۔ کسی عظیم شہنشاہ کی انا بھی، قوم کی انا کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بادشاہ تھک جاتا تھا، بے زار ہوجایا کرتا تھا، وہ جنگوں سے عاجز آکر اپنے حرم میں وقت گزارنا شروع کردیتا تھا، یااس کی جگہ کوئی دوسرا بادشاہ لے لیا کرتا تھا۔
قوم تھکتی ہے، نہ بے زار ہوتی ہے۔ قوم ایک شخص ہے، نہ ایک خطہ، نہ ایک نسل، نہ ایک مذہب، یہ ان سب کو محیط بھی ہے اور ان سے ماور ابھی۔ یہ ایک عظیم تجرید ہے، روئے زمین پر موجود سب سے بڑی مابعد الطبیعیاتی حقیقت۔ اگرچہ یہ نظریے، حافظے، تاریخ، فکشن، شاعری کا امتزاج ہے، مگر اپنی مجموعی حیثیت میں ایک عظیم و مقدس تجرید ہے۔
یہ اپنا اظہار کچھ مخصوص علامتوں میں کرتی ہے، مگر ان سب علامتوں کو مقدس بنادیتی ہے۔ ان علامتوں کی تکریم، سب پر اسی طرح واجب ہوتی ہے، جس طرح کسی مذہب کے عقائد و شخصیات ومقامات ومتون کی۔ قوم، جدید زمانے کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ قوم کی انا میں مذہب جیسی طاقت ہے، جہاں مذہب ریاست کا حصہ نہیں ہے، وہاں بھی۔ اس لیے قوم کی انا کا مجروح ہونا کوئی عام ساواقعہ نہیں ہے۔
مجھے خیال آیا کہ کیا کوئی زخم کبھی بھرا ہے؟ آدمی کو آدمی سے، زمانے سے، تقدیر اور تاریخ سے کتنے ہی زخم لگتے ہیں۔ ان میں سے کوئی زخم کبھی مندمل ہوا ہے؟ کیا وقت واقعی زخم کو مندمل کردیا کرتا ہے؟
اپنے پیاروں کی عارضی یا ابدی جدائی کا زخم، ایک بڑا زخم ہوا کرتا ہے۔ کیا ہم اسے بھول جاتے ہیں، سہہ جاتے ہیں، یا اس کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں؟ مجھے ناصر کاظمی یاد آیا:
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آگئی، مجھے بھی صبر آگیا
ناصر کا جدائی کا زخم، ایک بڑے درد میں چھپ گیا تھا، بھرا نہیں تھا۔ زندگی کا درد، جدائی کے زخم سے بڑا ہے۔ ناصر نے کیسی گہری بات کہی ہے۔ بڑا زخم، چھوٹے زخم کو بھر دیتا ہے۔ چھوٹا زخم، بڑے زخم میں ضم ہوجایا کرتا ہے۔ ایک ٹیس، درد کی بڑی لہر میں بے نشان ہوجاتی ہے۔
گویا کوئی زخم بھرتا نہیں ہے، وہ خراب ہوتا ہے، کہنہ ہوتا ہے اورآخر میں ایک داغ بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی گہری بات کا ایک اور باریک نکتہ بھی اہم ہے۔ یہ کہ زخم، طاقت سے گہرا رشتہ رکھتا ہے، طاقت بھی کوئی ایک طرح کی نہیں۔ برداشت، صبر، وقت، عقیدہ سب طاقت ہیں۔
وقت بھی ایک طاقت ہے۔
وقت اگر کسی زخم کو بھرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس کے پاس زخموں کا کوئی مجرب نسخہ ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ آدمی سے زیادہ طاقتور ہے۔ آدمی وقت کے آگے بے بس ہے۔ وقت کی فنا کی طاقت کے آگے، وقت کی تخلیقی قوت کے آگے۔
لیکن کیا وقت یا کوئی دوسری طاقت، سب طرح کے زخموں کو مندمل کرسکتی ہے؟ یہ سوچتے ہوئے، مجھے مصحفی یاد آیا:
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
ایک زخم ہے جو رستا رہتا ہے اور انسانی وجود کے معلوم نامعلوم گوشوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ یعنی حافظے کے دیار میں پہنچ جاتا ہے۔ انسانی حافظے دیار کی کوئی سرحد نہیں ہے۔
آدمی کی عمر بھی، آدمی کے حافظے کی سرحد نہیں ہے۔ اس کے آباؤ اجداد، ان کی تاریخ، کہانیاں، روایتیں اور پھر ا س کے قبیلے، وطن، ملک کی تاریخ، کہانیاں، سب آدمی کے حافظے کی دنیائیں ہیں، جن کی سرے سے کوئی سرحد ہی نہیں ہے۔ آدمی جب کسی زخم کی زد پر آتا ہے تو اس کا حافظہ کہاں کہاں نہیں بھٹکتا! جہاں جہاں بھٹکتا ہے، وہیں زخم سے رسنےو الا لہو بھی بھٹکتا ہے۔
آدمی خود تو زخمی ہوتا ہی ہے، اپنے حافظے کے بے کنار دیار کو بھی زخمی کردیتا ہے۔ یہ سب اس وقت ہوتا ہے، جب آدمی کی توہین ہوتی ہے۔ توہین کا زخم ہی سب سے بڑا زخم ہے، سب سے زیادہ رسنےو الا۔
(جنگ کے روزنامچے کے ایک ورق سے انتخاب)۔

