Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Aag Ka Darya

Aag Ka Darya

آگ کا دریا

لمز کے طلبا کو ایک ہی ناول: "آگ کا دریا" پر مشتمل کورس کی تدریس ایک انوکھا اور اتنا ہی زبردست تجربہ تھا۔ یہ تجربہ تین بار کیا۔ ہر بار اس کے تدریس، پہلے سے زیادہ دل چسپ اور بحث انگیز رہی۔ اس کی تدریس کا خیال مریم واصف کا تھا جو ان دنوں تقابلی ادبیات کے شعبے کی سربراہ تھیں۔ میں ابتدا میں فکر مند تھا کہ ایک ناول پڑھنے میں طلبا دل چسپی لیں گے کہ نہیں اور وہ بھی لمز کے، جو اردو ادب کے باقاعدہ طالب علم نہیں ہوتے، مگر ہر بار شوق سے طالب علموں نے یہ کورس لیا۔

اگرچہ ناول کا پہلا حصہ پڑھنے اور سمجھنے میں طالب علموں کو دقت ہوتی ہے مگر آگے نہیں۔ چناں چہ پہلے سو صفحات ہم لفظ بہ لفظ، ٹھہر کر پڑھتے۔ جابجا رکتے۔ گوتم نیلمبر، ہری شنکر، چمپا، نرملا کی زندگیوں کے ایک ایک واقعے اور ان کی بحثوں، شراوستی، چندر گپت موریہ، اشوکا، جنگوں، فنون، بوڑھی، جین، اپنشدوں کے مباحث اور ان سب سے وجود میں آنے والے کلچر، دریا کی صورت بہتے وقت اور سنگ کی صورت منجمد وقت کو سمجھتے۔

بعد کے حصوں میں بغداد کے کمال، جون پور کے سلطان حسین شرقی، پھر لندن کے سرل ایشلے، چمپا بائی، گوتم نیلبر دت اور اسی دوران کبیر کا ذکر اور صدیوں بعد میں ان کرداروں کے ساتھ طلعت، تہمینہ، عامر رضا کی کہانیاں جو استعماری عہد اور آزادی کے بعد لندن، کراچی میں واقع ہوتی ہیں، انھیں پڑھتے۔ قرۃ العین حیدر کی پیشین گوئیوں پر غور کرتے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان میں مذہبی شدت پسندی، زمین سے بیگانگی، لینڈ مافیا نیز سرد جنگ کے دنوں میں اہل قلم کی خرید وفروخت سے متعلق ہیں۔

اس سوال پر بھی غور کہ جب ناول میں کیمبرج سے فزکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے کمال کو ہندوستان میں اس لیے ملازمت نہیں ملتی کہ وہ مسلمان ہے، وہ کراچی آجاتا ہے، اس کے باوجود عینی آپا کیوں ہندوستان واپس گئیں۔

ڈھائی ہزار سال کی تاریخ کو فکشن کی صورت پڑھنا اور عینی آپا کے اس اعتراف کی روشنی میں کہ انھوں نے یہ ناول اس سوال کے جواب میں لکھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں تقسیم کہاں موجود تھا؟ کیا یہ تاریخ کے عمل میں ازخود پیدا ہوا تھا یا باہر سے لایا گیا تھا اور کب؟

اس سوال پر بھی غور کہ ناول شراوستی سے، ندی کے کنارے شروع ہوا، یہیں ختم کیوں ہوا؟

ہر بار یہ ایک طویل مگر فکر انگیز سفر ہوا کرتا۔ تاریخ کے ساتھ ناول کی جمالیات، یعنی عینی آپا کے بیانیے، کردار نگاری، اسلوب، طویل و مختصر جستوں اور کہی و ان کہی کو دیکھنا بھی زبردست تجربہ تھا۔

ہر بار طلبا سے کہا گیا کہ وہ ناول کے کرداروں کو نیا جنم دیں اور انھیں آج کی دنیا کو دیکھنے، اس کے مصائب جھیلنے، آج کے وقت کے مہرباں اور قہر سامانیوں کو محسوس کریں۔ ہر بار کچھ دل چسپ کہانیاں لکھی گئیں۔

آگ کا دریا ہماری موجودہ زندگیوں میں گویا بہتا رہا۔

صنعان ملک (لمز سے اکنامکس میں گریجویٹ) کا شکریہ جو میرے تدریسی معاون تھے۔

Check Also

Merit Ko Chatna Hai?

By Rauf Klasra