Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Sehat Par Daka

Sehat Par Daka

صحت پر ڈاکہ

ایک مزدور اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے موسمی شدت، گرمی سردی، وبا، بیماری کچھ نہیں دیکھتا اور صبح سے شام تک کام کرتا ہے۔ مزدور کی ایک روز کی کمائی بمشکل ایک ہی روز کا گھر کا خرچہ چلاتی ہے۔ بیماری یا کام نہ ملنے کی صورت میں مزدور کو پیٹ بھرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا مزدور اپنی حقیقی محنت کی بدولت چار ٹکے کماتا ہے۔ دوسری جانب دیکھیں کہ چور چوری کرکے، اسمگلر اسمگلنگ کرکے، بینکار سودخوری کرکے دنوں میں بغیر حقیقی محنت کے اتنی دولت اکٹھی کر لیتا ہے کہ اس کی کئی نسلیں گھر بیٹھے کھا سکتی ہیں۔

تو قارئین ذرا توجہ فرمائیں کہ حکومت پنجاب، ہسپتالوں کی نجکاری کس کو نوازنے کے لیے کر رہی ہے؟ ظاہر ہے انہی چند درجن سرمایہ داروں، بینکاروں، جاگیرداروں، صنعتکاروں کو نوازے کے لیے کر رہی ہے جو حقیقی محنت کی بجائے سودخوری، مزدور کشی، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، سود خوری معہ حرام خوری کرکے دولت کے مالک بنے ہیں تاکہ حکومتی ادارے اونے پونے بھاؤ خرید کر اپنے منافع کا سامان کر سکیں۔

دوسری طرف جمہوریت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو بھی حکومتی اداروں کی نجکاری اقلیتی ٹھگ گروہ کو نوازنا جمہوریت کی نفی ہے کہ جمہوریت نام ہے اکثریت کا اقلیت پر حکومت کرنے کا۔ اس تناظر میں ن لیگ کی حکومت نجکاری کو عملی جامہ جس تیزی سے پہنا رہی ہے، اس سے اسکی جمہوریت نوازی، ووٹ کو عزت دو، سول سپریمیسی کے بیانیے کی دن دھاڑے نفی ہو جاتی ہے۔ قطع تعلق فارم پینتالیس سے یا سینتالیس سے ووٹ ملے اور انہوں نے حکومت پنجاب بنائی، ن لیگ کو ووٹ جمہور نے جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے اور عوامی فلاح و بہبود کی فیصلہ سازی کے لیے دیئے تھے نہ کہ تعلیم، صحت، روزگار کو گنتی کے ارب و کھرب پتیوں کے ہاتھوں بیچنے کے لیے۔

پاکستان میں قومی ملکیت کی داغ بیل بانی پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں ڈالی اور 1977 تک مختلف صنعتی و مالیاتی ادارے قومی تحویل میں لیے گئے او ر بہت سے پرائیویٹ ہسپتالوں اور سکولوں کو بھی قومی ملکیت میں لیا گیا۔ بدقسمتی سے بھٹو کی یہ نیشلائزیشن نامکمل اور بغیر لانگ ٹرم پلاننگ کے تھی اور یہی وجہ تھی کہ رشوت خور افسران نے حکومتی ملکیت میں لیے گئے اداروں کو لوٹا اور ناجائز منافع کمانا شروع کر دیا۔ پس پردہ یہ نوکر شاہی صنعتکاروں کے لیے کام کر رہی تھی تاکہ بھٹو کی قومی ملکیت کی پالیسی کو خسارہ کی پالیسی ظاہر کیا جا سکے۔ آج سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، پاکستان پوسٹ، سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتال جو خسارے میں ہیں، انہی راشی افسران کی وجہ سے ہیں نہ کہ ان اداروں کے ملازمین، ڈاکٹرز اور اساتذہ کی وجہ سے۔ بہرحال بھٹو کی اس پالیسی کو عوام نے دونوں ہاتھوں سے جی آیاں نوں کہا۔ ان اداروں کے ملازمین کی جاب گارنٹی بھی بہتر ہوئی اور تنخواہیں بھی قابل ستائش بنیں۔

آج حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ پرائیویٹ طبقے سے ٹیکس اکٹھا نہیں ہو رہا۔ جبکہ حکومتی اداروں کے سرکاری ملازمین سے ٹیکس اکٹھا کرکے خزانہ بھرا جاتا ہے۔ پھر ہسپتالوں کی نجکاری کرکے سرمایہ داروں کو بیچنے کا کوئی عقلی جواز نہیں بنتا کہ سرمایہ دار صرف اپنا منافع پر نظر رکھنا چاہتا ہے، اسے کسی فلاح و بہبود سے غرض نہیں ہوتی، اس نے ٹیکس بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا ہے۔ اگر فلاح و بہبود کا اظہار ہوتا بھی ہے تو بھی اس کے پس پردہ ناجائز منافع خوری اور غریب دشمنی کے پھیلنے والے تاثرات پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر حضرات ایک ماہ سے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں، مظاہرے کر رہے ہیں، لاٹھی چارج کھا رہے ہیں، مقدمات سہہ رہے ہیں، برخاستگی کی دھکمیاں سُن رہے ہیں، لائسنس معطلی کے حکومتی اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں گھبرا رہے اور ھسپتالوں کی نجکاری کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر یہ سب اپنے لیے نہیں کر رہے بلکہ عوام کی صحت کی سہولت پر حکومتی ڈاکہ روکنے کے لیے کر رہے ہیں۔

ڈاکٹروں کے اس جاری دھرنے کے خلاف ن لیگ بھی ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے اور ایک قدم بھی پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کر رہی۔ ڈاکٹروں کے خلاف لفافہ صحافیوں اور رپورٹروں کو استعمال کر رہی ہے بالکل جیسے سرمایہ دار عوام کے اندر لاوا پھوٹنے کو روکنے کے لیے مولوی کو استعمال کرتا ہے۔ پیکا ایکٹ کی خالق حکومت خود پیکا ایکٹ کی دھجیاں اُڑا رہی ہے جبکہ غریب لوگوں کے خیالات دبانے کے لیے دھڑ ا دھڑ مقدمات بنا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں کسی پیڈ روپورٹر نے ایک جھوٹی خبر چلا دی کہ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث سات بچے ہلاک ہو گئے ہیں مگر پیکا ایکٹ گھاس چرنے گیا ہوا تھا شاید! ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے بقول شاعر:

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

کہا جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر کام نہیں کرتے۔ اچھا اگر ایسا ہی ہوتا تو سرکاری ہسپتالوں میں صبح صبح ہی مریضوں کے لواحقین کی لمبی لمبی قطاریں کیوں لگ جاتی ہیں؟ میں بتاتا ہوں ایک حقیقت۔ نوے کی دہائی میں سکول میں پڑھتا تھا تو ایک روز گھر آیا تو پیٹ میں درد محسوس ہوئی۔ لوکل ڈاکٹر سے دوا لی، دو ڈاکٹر تبدیل کیے، قصوری کی پھکی بھی ماری، مگر درد ختم نہ ہوئی۔ پھر ابا جی شام کو گھر آئے تو ماجرا سننے کے بعد ماڈل ٹاؤن لاہور کے ساتھ رنگ فیکٹری کے نزدیک ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لے گئے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے ہی دس ہزار روپے جمع کروانے کا کہا۔ تب دس ہزار کی ویلیو آج کے تین لاکھ روپے کے برابر تھی۔ پھر یہیں سے رکشہ کروایا اور جنرل ہسپتال چلے گئے۔ وہاں پر ایک روپے کی پرچی بنوائی اور ڈاکٹرز نے چیک آپ کیا اور اپنڈکس کی درد کی شناخت کی۔ دو گھنٹے مجھے بیڈ پر لٹایا گیا اور پانی کے ایک گھونٹ سے بھی منع کیا گیا۔ رات ایک دو بجے میرا اپریشن کر دیا گیا اور دو دن بعد ڈسچارج ہو کر گھر آگیا۔ اپریشن کا نشان آج بھی موجود ہے۔ یہ سرکاری جنرل ہسپتال ہی تھا جس نے ایک روپے کی پرچی میں میرا مکمل علاج معالجہ کیا، سرجری کی۔ تو میں کیسے مان لوں کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز کام نہیں کرتے، علاج درست نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ؟ یہی خیال عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا ہے اور وہ کبھی نہیں پسند کریں گے کہ آج پچاس روپے میں مکمل علاج معالجہ سے ہاتھ ڈھو بیٹھیں۔

یہ بھی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کرپشن ہے، سرکاری ادویات ڈاکٹرز اپنے کلینکس میں لے جاتے ہیں، مریضوں کو اپنے کلینک سے علاج کروانے کی طرف راغب کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہے، اکا دکا بھیڑوں کا جواز بنا کر سارے ریوڑ کو گندہ قرار دینا کم عقلیت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں کیا گُل کھلائے جا رہے ہیں، خبروں میں کم کم ہی نظر آئے گا کیونکہ لفافہ صحافی بھی بہت ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال کیسے لوٹتے ہیں، میں اپنا ایک تجربہ یہاں لکھنا چاہوں گا۔

چند ماہ قبل میں آفس کے لیے صبح نکلا تو کچھ ہی دیر بعد مجھے پاؤں میں سخت درد محسوس ہوئی۔ میں نے فوری طور پر جوتا اور جراب اتارے۔ پاؤں کو دیکھا تو ایک جگہ پر لال نشان اور دو چھوٹے سے سوراخ ملے۔ شاید کسی بچھو وغیرہ نے کاٹ لیا تھا کیونکہ میں نے جوتے پہننے سے قبل جھاڑے نہیں تھے اور نہ ہی جرابیں جھاڑیں تھیں۔ شالا مار کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گیا اور دو سو روپے کی پرچی بنوا کر متعلقہ وارڈ میں پہنچا۔ ڈاکٹر نے چیک کیا اور پھر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں جا کر گائیڈ لائنز لیں اور پھر مجھے کہا کہ ہسپتال میں باقاعدہ داخلہ لوں اور کم از کم تین چار روز داخل رہنا پڑے گا اور ستر انجیکشنز لگیں گے۔ میں فوری ساری قصہ کہانی سمجھ گیا کہ ساتھ والے کمرے میں ہسپتال کے مالک کا کارندہ بیٹھا ہوا تھا جو ڈاکٹروں کو گائیڈ لائنز دیتا تھا کہ کیسے مریض کو گھیر کر اس کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔ بعدازاں میو ہسپتال گیا اور ماجرا سنانے کے بعد مجھے ایک انجیکشن لگایا گیا اور ہٹا کٹا کہہ کر جانے کو کہہ دیا گیا۔

حاصل بحث یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری حکومت کا ایک گھناؤنا اور عوام دشمن فیصلہ ہے۔ نجکاری سے غریب عوام صحت کے مسائل سے دوچار ہو جائے گی۔ شرح اموات میں یکدم اضافہ ہوگا۔ معمولی بیماریاں بگڑ کر سنجیدہ صورت اختیار کر لیں گی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی شخص جو ملکیت سے محبت کرتا ہے، وہ عوام سے محبت نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت پنجاب کا عوامی فلاح و بہبود سے منسلکہ اداروں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ کو نجی مافیا کے ہاتھوں بیچنا، انہیں ٹھیکے پر دینا کسی بھی طور پر غریب عوام کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا بلکہ الٹا غریب جو پہلے ہی رُلا ہوا ہے، مزید رُل جائے گا۔

ہسپتالوں کی نجکاری سے غریب علاج معالجہ کی سہولیات خریدنے کی سکت نہیں رکھ پائے گا جس کے نتیجہ میں ایک عام آدمی کی زندگی جہنم کا روپ دھار لے گی۔ غریب لوگوں سے سستا علاج معالجہ چھین کر ن لیگ کو ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ عوام کی صحت پر توجہ دیتے ہوئے مرحم رکھنا چاہیے نہ کہ صحت پر ڈاکہ مارنا چاہیے۔ وگرنہ وہ دن دور نہیں جب پیپلز پارٹی تو شاید نہ سہی، کم از کم پی ٹی آئی براہ راست فارم پینتالیس پرہی حکومت حاصل کر لے گی۔

Check Also

Sach Kisi Ko Aziz Nahi

By Mubashir Ali Zaidi