Jang Ke Badal
جنگ کے بادل

ماؤزے تنگ ایک جگہ لکھتے ہیں "جنگ سیاست کے جاری رہنے کا نام ہے۔ اس لحاظ سے جنگ سیاست ہے بلکہ جنگ بذات خود ایک سیاسی عمل ہے۔ زمانہ قدیم سے کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس کا کوئی نہ کوئی سیاسی کردار نہ ہو، جنگ دوسرے طریقوں سے سیاست کو جاری رکھنے کا نام ہے۔ جب سیاست ایک خاص مقام تک ترقی کر جاتی ہے اور عام ذارئع سے اس کے لیے مزید ترقی کرنا ناممکن ہو جاتا ہے تو جنگ اس کی راہ سے رکاوٹیں دور کرنے کے لیے چِھڑ جاتی ہے۔ جب یہ رکاوٹیں دُور ہو جاتی ہیں اور سیاست کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو جنگ بند ہو جاتی ہے"۔
ماؤزے تنگ کے ان خیالات کی سچائی کا تازہ ترین ثبوت موجودہ بھارتی آبی و فضائی جارحیت ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہو تو بغیر تحقیقات کے، فوری طور پر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اسے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ الزامات کی بوچھاڑ دراصل ایک سیاسی شعبدہ بازی ہوتی ہے اور اس کا مقصد خفیہ اداروں اور سیکورٹی ذرائع کی ناکامی و نااہلیت پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ دہشتگردی کے واقعے سے مودی سرکار کی سُبکی اور بے عزتی ہوتی ہے۔ بے عزتی کی بحالی کی غرض کے لیے اور عوام کی سوچوں کا رُخ موڑنے کے لیے مودی سرکاری پاکستان پر الزامات دھر دیتی ہے۔ پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر بھارت کے پاکستان پر حملے کے پیچھے مودی سرکار کی یہی نیت کارفرما دکھائی دیتی ہے۔
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کی غزہ کے خلاف یکطرفہ جنگ سے جو تباہی ہوئی، بھارت وہ بھی نہیں دیکھ سکا اور یہی وجہ ہے کہ مودی کو اس بات کا شعور نہیں کہ اگر ایٹمی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو وہ دونوں کو ہی لے ڈوبے گی۔ دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ اس لیے مودی سرکار کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور مزید اشتعال انگیزی سے اجتناب برتنا چاہیے کہ امن کو قائم رکھنا دونوں ملکوں کا مشترکہ مفاد ہے۔ مودی کو یہ بھی اچھی طرح سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور حکومت کے صبر و تحمل کو کمزوری نہ سمجھے کیونکہ یہ وہ قوم ہے کہ جسے بگڑے ہوؤں کو درست کرنے کا گُر آتا ہے بقول شاعر:
نہ وہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
مودی سرکار کو پینسٹھ کی جنگ کو یاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ پھر سے خود کو نہ دہرا دے اور مودی کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ بہرحال میں مودی جی کو تاریخ زبردستی یاد کروا دیتا ہوں۔ بھارت کے پاکستان پر حالیہ دنوں میں میزائل اور ڈرون حملوں کی طرح، بھارت نے پینسٹھ کی جنگ بھی بغیر کسی الٹی میٹم کے شروع کی تھی اور ڈاکوؤں کی طرح لاہور پر حملہ کر دیا تھا۔ قصور کے محاذ پر بھارت نے نہتے شہریوں، عورتوں، بچوں، مردوں پر بمباری کی مگر ہماری فوجوں کے سامنے ان کے یہاں قدم نہ جم سکے بلکہ الٹا پاکستانی افواج نے بھارتی علاقہ میں بڑھ کر ان کے شہر کھیم کرن پر قبضہ کر لیا تھا۔
قصور کے محاذ پر شکست کھانے کے بعد بھارت گھبرا گیا اور چھ سو ٹینکوں سے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ ہمارے جانبازوں نے دشمن کے ٹینکوں کو تباہ کرنے کے لیے اپنے جسموں سے بم باندھے اور ان ٹینکوں سے ٹکرا کر خود تو جامِ شہادت نوش کر گئے مگر دشمن کے ٹینکوں کو بھی تباہ و برباد کر گئے۔ کسی جنگ میں بھی چھ سو ٹینک نہیں لائے گئے مگر بھارت نے سیالکوٹ میں چھ سو ٹینکوں، بے حساب اسلحہ و بارود اور بے شمار فوجیوں سے حملہ کیا تھا مگر خدا کے فضل و کرم سے انہوں نے قصور کی طرح سیالکوٹ میں بھی منہ کی کھائی تھی۔
اس انمٹ تاریخ سے بھارت کو پلے باندھ لینا چاہیے کہ پاکستان اپنے سے پانچ گنا بڑی فوج کے مقابلے میں بھی اپنے ملک کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اگرچہ بھارت کے ان دنوں میزائل حملوں کے پیچھے عالمی سامراج کا خفیہ ہاتھ کام کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اتنی جرات ہوئی۔ مگر مودی سرکار کو اس بھول میں نہیں رہنا چاہیے کہ سن پینسٹھ کی جنگ بھی بھارت نے باوا سامراج کے اشارے پر ہی شروع کی تھی۔ جب تب بھارت کو منہ کی کھانی پڑی تھی تو آج کیسے سامراجی ہاتھ پاکستان کا کچھ بگاڑ لیں گے؟
امن و امان کو تاریخ سے سبق لیکر حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاسی و مذہبی پارٹیاں، حکومتیں، ان کے سیکورٹی ادارے اور بیوروکریسی نہیں چاہتی کہ دونوں ملکوں میں امن و امان ہو، بھائی چارہ کی فضا پیدا ہو۔ یہ لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر آج بھی قائم ہیں کہ ان کی سیاست اسی پالیسی پر چلتی ہے۔ جب تک یہ پالیسی نہیں چھوڑی جائے گی، مذہب کو سیاست سے الگ نہیں رکھا جائے گا، ترانوں اور نغموں سے تیلی لگانے کا عمل بند نہیں کیا جائے گا، میڈیا کو جلتی پر تیل ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا تب تک پاکستان اور انڈیا کے مابین امن و امان کی فضاء قائم کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو گفت و شنید سے حل نہ ہو سکے۔ بس ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ مسئلہ کو انا کا مسئلہ بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ اس میں حب الوطنی اور مذہبی چورن استعمال نہ کیا جائے۔ اپنی کوتاہیوں، خامیوں اور کمزوریوں کا ادراک کیا جائے اور سب سے بڑھ کر عقلیت پسندی کا مظاہرہ کر تے ہوئے مسئلہ کا جائزہ لیکر اس کے ممکنہ حل تلاش کیے جائیں اور ساحر لدھیانوی کی تعلیمات کو فالو کیا جائے جیسا کہ وہ ایک نظم میں لکھتے ہیں:
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصل زندگی خرد بھی ہے
حاصل زندگی جنوں ہی نہیں