Bangladesh Abhi Hum Se 56 Saal Peeche Hai
بنگلہ دیش ابھی ہم سے 56 سال پیچھے ہے
طلباء سڑک پر شدید احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس بار بار لاٹھی چارج کرکے انہیں پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن وہ پیچھے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ جب آنسو گیس اور لاٹھیوں سے بات نہ بنی تو پولیس نے گولی چلا دی۔ ایک پولیس والے کی رائفل سے گولی نکلی اور سیدھے ایک عبد الحمید نامی طالب علم کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ ساتھی طلباء نے آگے بڑھ کر سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی لیکن زخمی طالب علم کی گردن چند منٹ میں ایک طرف ڈھلک گئی۔ اپنے ساتھی طالب علم کی لاش دیکھ کر طلباء بپھر پڑے۔ شہر بھر کے تعلیمی اداروں کے طلباء سڑکوں پر آ گئے۔ اپوزیشن لیڈرز موقع پر پہنچے اور احتجاج ایک شہر سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گیا۔ جگہ جگہ آگ لگ گئی۔
طالب علم کی لاش کو اس کے گاؤں تک پہچانے کے لیے ماتمی جلوس نکلا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ ستر میل کے علاقے میں پھیل گیا اور جہاں جہاں پھیلتا گیا وہاں وہاں اس وقت کے طاقتور ترین ڈکٹیٹر اور آمر کی قسمت کا ستارہ ڈوبتا چلا گیا۔
یہ طلباء تھے پاکستان کے، مقام تھا راولپنڈی اور حکمران تھا پاکستان کی تاریخ کا اب تک کا واحد فیلڈ مارشل ایوب خان۔۔ جو دس سال سے ملک کے سیاہ و سفید کا بلا شرکت غیرے مالک تھا۔ ان دس سال میں اس نے ملکی ترقی و خوشحالی کی ایسی بنیاد رکھ دی تھی کہ اس کے ثمرات آج تک نصف صدی بعد بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی طلباء اٹھے اور ان کی محض چند ماہ کی جدوجہد کے بعد اس آمر کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔
آج بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کا موازنہ پاکستانی عوام اور خصوصاً طلباء سے کیا جا رہا ہے۔ لیکن ذرا تصور کیجیے۔۔ نہ سوشل میڈیا، نہ الیکٹرانک، نہ ہی خبر کی ترسیل کے ذرائع، صرف چند منٹ کی بی بی سی ریڈیو کی خبریں اور اخبارات کی چند سرخیاں، اور پاکستانی طلباء نے ملک کے طول و عرض میں وہ ہنگامہ برپا کیا کہ اپنے آپ کو حرف کل سمجھنے والے حکمران کو اقتدار چھوڑتے ہی بنی۔
دیگر الفاظ میں بنگلہ دیشی طلباء نے آج جو کیا پاکستانی طلباء اس سے کہیں کٹھن حالات میں آج سے 56 برس پہلے ہی کرکے دکھا چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نتیجہ کیا ہوا؟ ایوب خان کے اقتدار چھوڑتے ہی تحریک "ہائی جیک" ہوگئی۔ پہلے جنرل یحیٰی اور پھر بھٹو اقتدار پر براجمان ہوئے۔ شخصی آمریت کا دور شروع ہوا تو پاکستانی ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے، ماریں کھائیں۔ جانیں دیں اور پھر مارشل لاء۔۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دور کیوں جائیں، ابھی آٹھ سال پہلے اسی قوم نے اسلام آباد میں کروفر سے مکا لہرانے والے آمر کو کس طرح عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ساہیوال میں زندہ جلائے گئے وکلاء تو شاید نہیں بھولے ہوں گے۔ عدل بناء جمہور نہ ہوگا کے نعرے تو اکثر کو یاد ہوں گے۔ یہ سب ہم بار بار دہرا چکے ہیں۔ لیکن نتیجہ کیا؟
اس قوم میں بڑا کرنٹ، بڑا ٹیلنٹ ہے۔ اس نے ہمیشہ ثابت کیا ہے۔ لیکن کبھی 22 خاندانوں سے چھٹکارے، کبھی نظام مصطفیٰ کے نعرے، کبھی عدل کے للکارے، تو کبھی تبدیلی کے اشارے۔۔ کے نام پر ہم ڈی ٹریک ہوتے رہے۔ ہائی جیک ہوتے رہے۔ بنگلہ دیش میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن اس بار جس طرح ڈاکٹر یونس کی قیادت میں حکومت بنانے کا اعلان ہوا ہے، اس سے لگتا ہے کہ شاید بنگلہ دیش پاکستان سے پچاس سال آگے نکل گیا ہے۔ کیونکہ انہیں اپنے وطن کے حقیقی لیڈر، حقیقی ہیرو کی پہچان ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ڈاکٹر عبد القدیر جیسے حقیقی ہیروز متنازعہ زندگی کے اندھیروں میں گمنام کر دیے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہی ہے۔ جس روز ہم نے یہ جان لیا کہ ہمارا اصلی اور حقیقی ہیرو کون ہے اسی روز ہماری تحاریک ہائی جیک ہونے کی بجائے ملک کی درست سمت متعین کر جائیں گی۔ ورنہ جو کام ترکی، سری لنکا، بنگلہ دیش میں آج ہو رہا ہے۔ ہم اپنی تاریخ میں کر کرکے اور دیکھ دیکھ کے تھک چکے ہیں۔
نوٹ: اگر آپ اس تحریر کو حالیہ واقعات اور نو مئی سے جوڑیں تو معذرت کے ساتھ تبدیلی کا نعرہ بھی محض ڈی ٹریک کرنے کے علاؤہ اور کچھ نہیں تھا۔ حقیقی تبدیلی وہی ہے جب کسی حقیقی نوعیت کے عوامی مسئلے جیسے ملازمتوں میں کوٹے جیسے کسی مسئلے پر عوام اٹھ کھڑی ہو۔ باقی سب محض شخصیت پرستی اور ڈھکوسلے ہیں۔
گر تو برا نہ مانے۔۔