Is Kahani Ka Aghaz Kahan Se Hua Tha?
اس کہانی کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟
شام کے رخ پر رات کی سیاہ زلف بکھرنے سے پہلے جب نارنجی سورج اس کی پیشانی پر الوداعی بوسہ دے کر اتر رہا ہوتا ہے۔ میں اس کو دیکھ کر اکثر ایک سوچ میں گم ہو جاتا ہوں کہ آخر زندگی کی اس کہانی کا آغاز کہاں سے ہوا تھا اور اب کس نقطے پر جا پہنچا۔ اس سفر میں ہم پیچھے کیا چھوڑ آئے ہیں۔ کیا ہم ہمیشہ یہیں پہنچنا چاہتے تھے جہاں آج ہیں اور کیا ہم وہی کررہے ہیں جو کرنا چاہتے تھے۔ کیا یہ راستہ وہی ہے جو منزل تک جاتا ہے اور آخر ہماری منزل کیا ہے؟ اس سفر کا حاصل کیا رہا۔ کھونے اور پانے میں کس کا پلڑا بھاری رہا۔
بیٹھیں تو کتنے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ زندگی کی یہ کہانی کن راستوں سے ہوتے ہوئے موجودہ مقام تک پہنچی ہے۔ یہ راستے ہمارے اختیار کردہ تھے یا حالات کا جبر یا پھر لوگوں نے ہمارے لیے منتخب کیے تھے۔ کیا ہم اپنی کہانی میں یہی کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔
قدیم داستانوں میں مسافر یا شہزادے کو منزل پر پہنچنے کےلیے راہ میں مددگار نشانیاں ملتی جاتی ہیں۔ ان داستانوں کی مانند کیا راہ میں حاصل ہونے والے نشانیاں ہم نے سنبھال کر رکھی ہیں۔ کیا انھوں نے منزل تک پہنچنے میں ہماری عقدہ کشائی کی ہے۔ ہماری شخصیت کن کن راستوں پر بکھری اور کس کس مقام پر نکھری ہے۔
یقیناً زندگی کی اس کہانی کی ابتدا میں جب ہم نے شعور سنبھالنے کا آغاز کیا تو سب ہی اپنی کہانی کے ہیرو بننا چاہتے تھے۔ ہم نے خواب دیکھے اور دل میں بوئے۔ اس وقت سند باد جہازی یا حسن بانو کے سات سوالوں کے جوابات کی تلاش میں نکلے حاتم کی طرح نئی دنیاؤں اور نئی مہمات کی جستجو ہمارے دلوں میں بستی ہے۔ الکیمسٹ کے سانتیاگو کی مانند خوابوں کا تعاقب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم جب شعور کی ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے اور آج جو چھوٹے ہیں سب کی خواہش میں ایک مماثلت ملے گی کہ سب بڑے ہوکر ہیرو بننا چاہتے ہیں، دنیا کے چہرے پر جگمگانا اور دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اور آج اس ڈھلتے سورج، جس نے اُس وقت ہمیں کبھی پُرخواب آنکھوں اور پُر عزم دل کے ساتھ دیکھا تھا، کے سامنے ہمارے کہانی کا منظرنامہ کیا ہے؟
کیا ہم آج بھی خواب بوتے ہیں اور جو کبھی بوئے تھے کیا وہ درخت بن چکے ہیں اور ان پر پھل لگے ہیں؟ ہم آج بھی دنیا کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں یا عدم تحفظ کا شکار ہوکر دوسروں کی خلاف چھوٹی چھوٹی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ آج بھی ہماری زندہ دلی زندہ ہے یا مایوسی ہم سے زندگی کی تمنا چھین چکی ہے۔ انسان اپنی کمزوریوں کے باعث اپنے خوابوں کو مار دیتے ہیں اور پھر حسد کی جبلت کے تحت دوسروں کے خوابوں کا قتل کرتے ہیں۔ ان کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں۔
اکثر کی زندگی میں وہ مقامات آتے ہیں جب زندگی تھکا دیتی ہے، مار گرا دیتی ہے۔ دن تاریک اور راتیں تاریک تر لگتی ہیں۔ حالات و حوادث کی زد میں آئے انساں کو اپنا وجود کئی حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ دل و دماغ اور روح و جسم کے مابین ہم آہنگی نہیں محسوس ہوتی۔ جدھر نگاہیں پڑتی ہیں ادھر قدم نہیں پڑتے۔ ایسے ہی حال میں جیے جانا قابلِ ستائش ہے۔
گزشتہ ایک تحریر میں آرچی ولیمز کا ذکر کیا تھا۔ قیدِ بے گناہی میں زندگی کے دوبارہ موقع کے انتظار میں اس کے روز و شب چھتیس برسوں میں تبدیل ہوگئے۔ ایک روز اسے زندگی نے واقعی دوبارہ موقع بخش دیا۔ کئی خواب سلاخوں کی پیچھے قید خانے کی زمین میں دفن ہوگئے تو باہر آکر اس نے کچھ نئے خواب دیکھ لیے۔ کہتے ہیں کہ اگر جینے کا مقصد نہیں مل رہا تو فی الحال زندگی کے لیے فقط بہانے تلاش کرو۔ دل کو درست جگہ پر رکھو۔ دل کا درست جگہ پر ہونا بڑا معنی رکھتا ہے۔
اور رات کی زلف جب اٹھتی ہے اور صبح کا چہرہ نمودار ہوتا ہے تو افق سے ابھرتا نئے روز کا سورج ایک سوال کرتا ہے کہ ہماری کہانی میں ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟ کیا ہم اپنی کہانی کے اب بھی ہیرو ہیں یا ثانوی کردار ادا کررہے ہیں یا پھر اپنی ہی کہانی میں کہیں گُم ہوکر رہ گئے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا:
میرے ہم نشیں میرے سامنے میری بزدلی نے اجاڑدیں
وہ جو بستیاں تھیں جمال کی، وہ جو رستے تھے وصال کے
اگر ایسا ہے تو یہ کہانی جہاں تک پہنچی ہو، یہاں سے کیوں نہ ایک نئی کہانی کا آغاز کریں۔ امید، یقین، خواب اور جذبوں سے رنگیں۔ جس کے مرکزی کردار ہم خود ہوں۔ جب تک عظیم تخلیق کار ہماری کہانی کو مکمل نہ کردے۔