Sadqa e Fitr Ke Masail
صدقہ فطر کے مسائل
صدقہ فطر (فطرانہ) کا تعلق ماہ رمضان المبارک سے ہے یہ روزہ کھولنے کا صدقہ ہے اور اسے صدقہ فطر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے روزوں کے مکمل ہونے پر دیا جاتا ہے۔
صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ بشری کمزروریوں کی وجہ سے روزے دار کے روزوں میں واقع ہونے والے گناہوں اور لغویات کے آثار ختم ہوجاتے ہیں اور روزے دار پاک صاف ہوجاتا ہے، نیز مساکین کے کھانے کا بند وبست ہوجاتا ہے اور روزوں کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوجاتا ہے۔
۱)صدقہ فطر کے مسائل:آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ عید الفطر میں نماز سے قبل تم فطرہ واجبہ ادا کرو اس میں ایک تو تمہارے روزوں میں جو کوتا ہی ہوگئی اس کا ازالہ ہوجائے گا، اور تمہارے غریب مسلمان بھائی بھی تمہاری طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں گے، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم نہادھو کر اپنے سب سے بہترین کپڑے پہن لو کیونکہ یہ تمہارے لیئے مسرت اور خوشی کا دن ہے، ہر خوشی کے موقع پر انسان چاہتا ہے کہ اچھا لباس زیب تن کرے، اس لئے حضورﷺنے بھی اسکی تعلیم دی، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز عید میں جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز وغیرہ کھالو کیونکہ یہ تمہارے لئے افطاری کا دن ہے اس کے بعد تکبیرات پڑھتے ہوئے نماز عید کے لیے عید گاہ جاؤ۔
۲)صدقہ فطر کا نصاب:صدقہ فطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو حاجات اصلیہ (مکان، لباس، سواری، ضروری ہتھیار وغیرہ) سے زائد نصاب کا مالک ہو، اس میں عاقل وبالغ ہونا شرط نہیں۔ (الجواہرۃ النیرۃ 1/170)بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ صدقہ فطر صرف اس شخص پر فرض ہے جس کے ذمہ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے حالانکہ یہ درست نہیں زکوٰۃ تو صرف سونے، چاندی، مال تجارت اور نقدی میں فرض ہوتی ہے، جبکہ صدقہ فطر کے وجوب مین زائد از ضرورت اشیاء کو بھی شامل کرنا ضروری ہے، بس اگر کسی کی ملکیت میں اموال زکوٰۃ بالکل موجود نہیں لیکن زائد از ضرورت اشیاء نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کی مقدار میں ہیں، یا اموال زکوٰۃ نصاب سے کم مالیت کے ہیں لیکن زائداز ضرورت اشیاء کو ملانے سے ان کی مجموعی مالیت نصاب کو پہنچ جاتی ہے تو اس دونوں صورتوں میں صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے (الجواہر ۃالنیر ۃ ۱/۱۷۰) لوگوں میں ایک بات مشہور ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی صرف اس شخص پر واجب ہے جو روزے رکھے۔ سو اس کی کوئی اصل نہیں۔ صدقہ فطر ہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے۔ خواہ اس نے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں پھر یہ روزہ نہ رکھنا کسی عذر سے ہو یا بلا عذر، صدقہ فطر بہر صورت اپنی جگہ اس پر واجب ہے۔ (بدائع الصنائع: ۲/۷۰)
۳)صدقہ فطر کب واجب ہوتا ہے؟ صدقہ فطر عید الفطر کی صبح صادق کے وقت واجب ہوتا ہے۔ لہذا صبح صادق سے پہلے جو بچہ پیدا ہو یا کافر مسلمان ہوگیا یا فقیر یا مالدار ہوگیا توان پر صدقہ فطر واجب ہے۔ اسی طرح صبح صادق کے بعد جو شخص فوت ہوا یا مالدار فقیر بن گیا اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔ اس کے برعکس جو شخص صبح صادق سے پہلے فوت ہوگیا یا مالدار فقیر بن گیا تو ان پر صدقہ فطر واجب نہیں، اسی طرح صبح صادق کے بعد جو بچہ پیدا ہوا یا کافر مسلمان ہوا تو ان پر بھی واجب نہیں۔ (فتاوی ٰعالمگیریہ: ۱/۲۹۱)
۴) صدقہ فطر کب ادا کیا جائے؟ مستحب تو یہ ہے کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کردیا جائے تاکہ غریب اور نادار مسلمان بھی مالداروں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہوں، لیکن کسی نے ادائیگی میں تاخیر کردی تو صدقہ فطر اس سے ساقط نہ ہوگا، عمر بھر اس کے ذمہ واجب رہے گا، جب بھی ادا کرے یہ اداہی ہوگا نہ کہ قضاء۔ اگر ادا کئے بغیر موت کو وقت آگیا تو وصیت کرنا واجب ہے، جو تہائی ترکہ میں نافذ ہوگی۔ وصیت نہ کرنے کی صورت میں ورثہ کے ذمہ کچھ نہیں، ہاں بالغ ورثاء تبرعاً ادا کریں تو درست ہے (ردالمختار: ۲/۸۵۳)
صدقہ فطر واجب ہونے کے ادائیگی میں سستی کی حتیٰ کہ مال ضائع ہوگیا تو بھی صدقہ فطر ذمہ میں واجب رہے گا، بخلاف زکوٰۃ وعشرکے کہ وہ مال تلف ہونے کی صورت میں ساقط ہوجاتے ہیں۔ (الجوہر ۃ النیرۃ: ۱/۴۷۱)۔
۵)صدقہ فطر کس کی طرف سے واجب ہے؟ صدقہ فطر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے، نابالغ بچوں میں کوئی صاحب نصاب ہے تو فطر انہ اسی کے مال میں سے دیا جائے اور یہی حکم مجنون اولاد کا ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر: ۲/۰۲۲) درج ذیل رشتہ داروں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں: بیوی، بالغ اولاد، والدین، بہن، بھائی ودیگر اعزہ گوکہ اس کے عیال میں ہوں (اس کے زیر کفالت ہوں) البتہ اپنی بالغ اولاد اور بیوی کا صدقہ ان سے اجازت لئے بغیر بھی ادا کردیا تو ادا ہوجائے گا، بشر طیکہ بالغ اولاد اس کے عیال میں ہو، ورنہ صدقہ ادا نہ ہوگا اور باقی رشتہ داروں میں کسی کی طرف سے بھی بلا اجازت ادا کرنے سے ادا نہ ہوگا (فتاوی عالمگیریہ: ۱/۲۹۱)۔
نابالغ فقیر بچوں کا باپ نہ ہویا تنگدست ہوتو داداباپ کے قائم مقام ہے، یعنی اس پرواجب ہے کہ اپنا اور اپنے پوتوں پوتیوں کا فطرانہ ادا کرے (ردالمختار:۲/۲۶۳) لیکن ماں کے ذمہ بچوں کا فطرانہ نہیں، خواہ وہ مالدار ہی ہوں (ردالمختار:۲/۱۶۳)نابالغ اور مجنون اگر صاحب نصاب تھے اور ان کے سرپرست نے ان کے مال سے صدقہ فطر ادا نہ کیا تو بالغ ہونے پر اور مجنون زائل ہونے پر دونوں کے ذمہ گزشتہ سالوں کا صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ ہاں اگر یہ دونوں صاحب ِ نصاب نہ تھے اور ان کے سرپرست نے بھی ان کی طرف سے ادا نہ کیا تو ان کے ذمہ کچھ نہیں۔ (بدائع الصنائع: ۲/۲۹)
۶) صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟ اگر صدقہ فطر میں گندم، جو، کھجور اور کشمش چار اجناس میں سے کوئی جنس ادا کرنا چاہیں تو وزن کا لحاظ ضروری ہے۔ یعنی گندم سے ادا کریں تو نصف صاع اور جو، کھجور، کشمش سے ادا کریں تو ایک صاع ہے
۷) نصف صاع کی مقدار کیا ہے؟ بعض علماء کے قول کے مطابق نصف صاع پونے دوکلو کا اور صاع ساڑھے تین کلو کا ہوتا ہے، جبکہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق نصف صاع سواد وکلواور صاع ساڑھے چار کلوکا ہوتا ہے۔ مفتی اعظم مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب ؒ کی تحقیق بھی یہی ہے اور اس میں احتیاط بھی ہے، کیونکہ اس تحقیق پر عمل کرنے میں صدقہ فطر کی ادائیگی یقینی ہے اور عبادات میں احتیاط پر ہی عمل کرنا چاہئے۔
فطرانہ میں چاہئے یہی اشیاء ادا کریں، چاہے بصورت نقد ان کی قیمت ادا کریں، ہر طرح جائز ہے بلکہ نقد کی صورت میں ادا کرنا اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس سے فقیر اپنی ہر ضرورت پوری کرسکتا ہے (فتاوی عالمگیریہ: ۱/۱۹۱) موجودہ ضلع پشاور میں صدقہ فطر کے اجناس کی قیمت مندرجہ ذیل ہے۔ گندم۔ 150روپے، جو۔۔ 290روپے، کھجور۔ 800روپے، کشمش۔ 1800روپے صاحب استطاعت حضرات کھجور اور کشمش کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرکے اجر عظم کے مستحق ہوسکتے ہیں۔
۸) صدقہ فطر کا مصرف کون؟ صدقہ الفطر کا مصرف ہر وہ شخص ہے جومصرف زکوٰۃ ہے، یعنی جس کی ملک میں سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی اور زائد از ضرورت اشیاء میں سے کوئی چیز نہ ہویا ہو لیکن بقدر نصاب ساڑھے باون تولے کی قیمت سے کم ہو۔