New Year Night Ki Haqeeqat
نیو ائیر نائٹ کی حقیقت
دنیا کے تمام مذاہب میں خوشی منانے کے مختلف طریقے اور تہوار رائج ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے۔ لیکن دین اسلام سے دوری اور قرآن وسنت سے بے خبری کی وجہ سے ان تقریبات میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کر دی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی، انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تہوار وضع کیئے۔ ان ہی میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے، جسے نیوائیرنائٹ کے نام پر منایا جاتا ہے۔ نیوائیر کی تقریبات کاآغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ برطانیہ کی "رائل نیوی" کے جوانوں کی زندگی کا ذیادہ تر حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا، یہ لوگ سمندروں کے تھکا دینے والے سفروں سے بے زار ہو جاتے تو جہازوں کے اندر اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کر لیتے۔
یہ لوگ زلگا رنگ تقریبات مناتے، شراب پیتے، رقص کرتے اور گرپڑ کر سو جاتے۔ اگلے روز ان کی آنکھ کھلتی تو سمندر اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ان کے سامنے بچھا ہوتا۔ یہ لوگ تقریبات مناتے، لیکن سال لمبا ہوتا اور تقریبات مختصر۔ چنانچہ یہ لوگ تقریب کا بہانہ تلاش کرتے رہتے، ایک دوسرے کی سالگرہ مناتے، ایک دوسری کی بیوی بچوں کی سالگریں مناتے۔ ویک اینڈ مناتے، ایسٹر اور کرسمس کا اہتمام کرتے۔
جب یہ سارے مواقع بھی ختم ہو جاتے تو یہ ایک دوسرے کے کتوں، بلیوں اور گھروں کی سالگریں مناتے لگتے، انہی تقریبات کے دوران کسی نے نیا آئیڈیا پیش کیا کہ کیوں ناہم مل کر نئے سال کو خوش آمدید کہا کریں۔ آئیڈیا اچھا تھا، لہذا اس سال 31 دسمبر کو جہاز کا سارا عملہ اکٹھا ہوا، انہوں نے جہاز کے "بال روم" کو سجایا، موسیقی اور شراب کا اہتمام کیا، رات 10 بجے کے بعد سب نے خوب شراب پی، رقص شروع کیا۔
ٹھیک 12 بج کر ایک منٹ پر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دی اور ایک دوسرے کو اپنے اپنے ہاتھ سے ایک ایک جام پیش کیا۔ یوں یہ نیوائیر نائٹ کا آغاز تھا۔ اور یوں تمام برائیوں، بے حیائیوں اور خباثتوں سے بھر پور یہ رات اب ہر سال مغربی دنیا مناتی ہے اور ہمارے ناسمجھ مسلمان بھی اس دلدل میں قدم رکھ چکے ہیں۔ یہ سال نو کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کردہ ہے۔
اور اس کی ایک وجہ بعض حضرات یہ بیان کرتے ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیٰسی کی پیدائش ہوئی، اس کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔ اور 31 دسمبر کی رات میں 12بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف "ہیپی نیوائیر" کی صدا گونجتی ہے۔
آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں شراب وشباب اور ناچ گانے کا بھر پور انتظام رہتا ہے۔ افسوس، آج ان عیسائیوں کی طرح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31 دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ ان مسلمانوں نے اپنی اقدار وروایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کردیا ہے، جبکہ یہ خالص عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔
مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے، جو نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے مربوط ہے، جسکا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے، یہی اسلامی کیلینڈر ہے، لیکن افسوس کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہے، ہاں یہ بات واضح ہے کہ حساب شمسی وقمری دونوں جائز ہے۔ مگر اکثر اسلامی احکام قمری حساب سے وابستہ ہے، اسلئے قمری حساب کا یاد رکھنا مسلمانوں کیلئے ضروری ہے، بلکہ فرض کفایہ ہے۔
اب صد افسوس کہ مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتے ہیں، کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے، زندگی اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ایک بیش بہا قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا، بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔
ایک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے۔
ناداں کہہ رہے نیا سال مبارک
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا، جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا، جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔ دوسرا نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔ یہ مختلف طرح کے جشن وتہواریں یہود ونصاریٰ اور دیگر اقوام میں منائے جاتے ہیں، جیسے مدد ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے، ٹیچرز ڈے، وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے کہ یورپ اور مغربی دنیا میں رشتوں کا صرف دکھاوا ہوتا ہے، ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا۔ اسلیئے انہوں نے ان سب کے لیئے یہ الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان رشتوں کا دکھلاوا ہو سکے۔ دوسری طرف ہمارے دین اسلام نے سب کیلئے حقوق مقرر کیئے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے۔ اس لیئے کہ ہمیں ان دکھلاوؤں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح کے ڈیز اور تہواریں منانے کی۔
مسلمانوں کو غیروں کے رسومات اور اس طرح بے ہودا جشنوں سے بچنے کی سخت ضرورت ہے، تاکہ اغیار کے مشابہت سے بچا جا سکے۔ کیونکہ اللہ کے حبیب ہمارے سردار دو جہاں ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے"۔ البتہ مسلمانوں کو ایسے موقع پر شریعت سے ہدایت لینے کی ضرورت ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جب نیا مہینہ یا سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا۔
تو اصحاب رسول ﷺ ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے (اللھم ادخلہ علینا بالامن والایمان والسلامۃ والاسلام ورضوان من الرحمٰن وجواز من الشیطان) "اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اُوپر امن وایمان، سلامتی واسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔ اسی کے ساتھ اس موقع پر مسلمانوں کو دو اور خاص باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ایک ماضی کا احتساب، کہ گزرے سال میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟
اپنے گزرے بداعمال، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو یاد کرکے صدق دل سے تو بہ کرلیں۔ یعنی اپنا محاسبہ کریں۔ دوسرا اپنے خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر وتشکیل کے لیئے دینی ودنیوی اعتبار سے مکمل لائحہ عمل وضع کریں۔ خلاصہ یہ کہ نیاسال خوشی کی بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے۔ کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہوتی رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے اور نہ جانے کب زندگی کا یہ سورج ہمیشہ کے لیئے غروب ہو جائے۔ اسلیئے کچھ کرلینے کی تمنا اس کو بے قرار کر دیتی ہے۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی