Mere Walid e Mohtaram
میرے والد محترم
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
والد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ انعامات میں ایک عظیم نعمت ہے۔ والد شفقت وحفاظت کا وہ سائبان ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ آدمی جو کچھ بھی ہے اپنے والد ہی کی وجہ سے ہے۔ جیسے ہی والد کا سایہ عافیت سر سے اُٹھتا ہے تو اولاد کے سر پر ایک بھاری بوجھ اور ذمہ داری آن پڑتی ہیں۔
میرے عظیم والد محترم انعام اللہ خان ترنگزئی وہ ہستی تھے جنہوں نے ہمارے سب بہن بھائیوں کو بڑے لاڈ و پیار سے پالا تھا، ہماری ہر ضرورت اور خواہش پوری کی اور کھبی بھی ہم کو سخت بات، دکھ درد نہ دیا۔ وہ ہمارے ساتھ ایک اچھے دوست کی طرح تھے اور ہم بھی کھل کر اس کے ساتھ ہر بات دوستوں کی طرح کرتے تھے۔ والد محترم کے فطرت میں دل کی نرمی، پیار و شفقت اور بے باکی شامل تھی۔ پیار، محبت اور شفقت تو اتنی کہ انسان سے انسیت تو لازمی رکھتے تھے، لیکن اگر کبھی کوئی مرغی یا پرندہ پال لیتے تو وہ بابا کے ساتھ اتنی شغف رکھتے کہ بابا کو دیکھ کر دوڑتے آتے اور کندھے پر جا بیٹھتے۔
باوجود ہماری معاشی کسمپرسی کے ہمیں لکھایا پڑھایا، دینی و دنیاوی تعلیم سے نوازا او دنیا کی ہر نعمت ہمیں لاکر دیا، خواہ خود بھوکا سوتے مگر ہم کو ضرور کھلاتے۔ کھبی بھی ہماری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دئیے، نہ برداشت کرسکتے تھے۔ نہ ہمیں کبھی غصّہ کیا نہ ڈانٹا تھا بلکہ جو بات تاکیدا بھی کرتے تو دوستوں جیسے مذاق میں کرتے تاکہ کوئی بھی فرد اس سے ناراض نہ ہوں۔ اگر کبھی کبھار کسی پرائے کو بھی جائز غلطی پر ڈانٹ و غصّہ بھی کرلیتے تو وہ بھی پیار بھری ڈانٹ ہوتی۔ اور ڈانٹنے کے کچھ وقت بعد فوراً اس کو راضی کرلیتے اور خواہ کوئی کتنا بڑا مخالف یا نہ چاہنے والا بھی سامنے آتا اور دو تین میٹھی باتیں کرتا تو واپس بابا اس کے ساتھ وہی اپنوں جیسا رویہ رکھتے تھے۔ ہاں ایک صفت اس میں یہ تھی کہ ناجائز بات اور دین و قرآن کے معاملے میں مخالفت و منافقت کبھی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔
میرے بابا جان عظیم انسان بھی تھے اور بہادر و شجاعت کا عملی نمونہ بھی ہے۔ عظیم انسان تو اسلیئے تھے کہ اللہ کے عظیم الشان کتاب قرآن کریم کے خدمت میں تقریباً چالیس سال گزار دئیے۔ ہمارے گھر میں 40 سال سے بنات کا مدرسہ ہے جس میں ہماری والدہ محترمہ علاقے کے طالبات اور خواتین کو فی سبیل اللہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتی ہیں۔ یہ سلسلہ ہماری والدہ نے پشاور آتے ہی شروع کیا تھا جس سے بفضل اللہ اب تک ہزار وں طالبات قرآن کریم کے ناظرہ اور ترجمہ تفسیر کے فیض سے مستفید ہوچکے ہیں۔ اور اب تو والدہ کے سینکڑوں شاگردوں نے باقاعدہ مدارس کھولے ہوئے ہیں اور قرآن کے روشنی کو پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔ الحمد للہ ہمارے گھر میں اب بھی وہی سلسلہ جاری ہے۔ میرے والد محترم نے اس قرآن کی دعوت اور خدمت میں والدہ محترم کا مکمل ساتھ دیا تھا اور دونوں نے اس عظیم محنت اور مقصد کیلئے خود کو وقف کیے تھے۔ ہم بہن بھائیوں نے خود اپنے گھر میں والدہ سے قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ پر پڑھا ہے اور انہی کی تربیت کے بدولت آج ہمیں اللہ نے علم دین کے عظیم نعمت سے نوازا ہے۔
جب ہم نے اگست 2008ء میں علاقہ افغان کالونی میں درس قرآن شروع کیا تو والد محترم نے بھر پور ساتھ دیا اور ہر قربانی کو جوانوں کی طرح سینہ سپر تھے۔ بعد میں ہم نے ادارہ مدرسہ تعلیم القرآن کے لئے پلاٹ خریدا تو اس ادارے کے تمام خدمات و ضروریات خود پورے کرتے اور تمام طلبا و طالبات کی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح حفاظت کرتے، اور جب تک طلباء وطالبات کی چھٹی نہ ہوتی تو وہ مدرسہ کے باہر حفاظت کیلئے بیٹھے ہوتے تھے۔ تمام علاقہ بابا جی کی اس خدمت پر نازاں تھا اور ہر مرد و زن باباجی کی موجودگی میں حفاظت اور اطمینان محسوس کرتے۔ وہ انسانیت کا سوز اور درد دل رکھنے والا رقیق القلب آدمی تھا۔ جب بھی کسی بھٹکے ہوئے مسافر کو دیکھتے تو اس کو راستہ سیدھا کرتے اور باوجود کمزوری کے چند قدم اس کی راہنمائی کیلئے لیتے اور اگر کسی لڑکے کو پاتے تو اس کو مسافر کی معیت میں کرتے تاکہ مسافر کو میزبان کے دروازے پر چھوڑے اور کسی مہمان کو دقت نہ ملے۔ اگر کسی کو پانی کی ضرورت ہوتی تو گھر سے نکال کر اس کو بٹھاتے تھے۔ جب بھی پڑوس میں کسی پر مشکل آتی تو باباجی اول صف میں خدمت کیلئے کھڑے نظر آتے۔ الغرض سارا علاقہ اس پر آباد تھا۔ اس کے رخصتی سے گویا علاقہ یتیم ہوگیا۔
میرے بابا جان ایک نہایت بہادر و شجاع آدمی تھے، کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ جب ہم نے قرآن کریم کا درس شروع کیا تو اول اول ناسمجھی میں بعض لوگوں نے کسی کے سازش پر حسد و ضد کی بناء پر مخالفت شروع کی تو سب سے اول ڈٹ کر ہمارے بابا جان پستول ہاتھ میں تھامے کھڑے ہوئے اور سب مخالفین کو واضح دوٹوک پیغام دیا کہ کسی نے بھی اللہ کے کتاب کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تو پھر اللہ اس کے لئے خیر کے فیصلے نہیں فرمائے گے۔ الحمد للہ لوگوں نے بعد میں حق کو جانا اور دین و قرآن کے خدمت میں بابا جان کے ساتھ شامی بشانہ کھڑے ہو گئے۔ الحمد للہ بابا جان نے اگست 2008ء سے اب تک اکتوبر 2021ء تک برابر قرآن اور قرآن کے طلباء و طالبات کی خدمت بہادری سے انجام دی۔
بابا جان تقریبا بیس سال سے سینے کے عارضے میں مبتلا تھے مگر اللہ نے اپنے کلام کی خدمت کی بدولت اس کو جوانوں جیسی چستی اور فعالیت عطاء کی ہوئی تھی۔ وہ انتہائی عاجزی پسند، خوددار، نرم دل، صاف گو اور للہیت کے حامل بندے تھے۔ اس کی یہ روٹین تھی کہ سحری کو تین بجے اُٹھتے تھے، تہجّد باقاعدگی سے پڑھتے تھے، صبح کی اذان بھی باقاعدگی سے دیتے تھے۔ اور پھر مسجد کے صفائی میں مصروف ہو جاتے۔ اکثر میں نیچے کمرے میں کام کررہا ہوتا کہ جھاڑو کی آواز سن کر میں مسجد آتا تو اس کے ہاتھ میں جھاڑو پاتا وہ اللہ کے گھر کی صفائی کرہے ہوتے۔ میں کہتا کہ بابا جان ڈاکٹر نے آپ کو منع کیا ہوا ہے آپ کے سینے کیلئے یہ گرد ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اللہ پر توکل کرنے والا پختہ عقیدہ انسان تھے، مجھے فرماتے کہ نہیں مجھے اللہ کے گھر کی خدمت سے نہ روکو کیونکہ سب بیماری و صحت اس ذات کے اختیار میں ہے جس کے گھر کی میں صفائی و چوکیداری کرتا ہوں۔ اور یہ مسجد کا گرد ان شاءاللہ میرے لئے شفاء اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
وفات سے دو ہفتے پہلے جب پہلی بار سینے کی انفیکشن کی وجہ سے ہم بابا جان کو ایمرجنسی لے گئے تو پوری رات علاج معالجے کے بعد گھر آئے تو ہم بہن بھائی سب ساتھ بیٹھ گئے اور بڑے بھائی نے والد صاحب سے کہا کہ زندگی اور موت کا علم صرف اللہ کو ہے مگر ہم اپنی تسلی کیلئے آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہم سے جانے نہ جانے میں آپ کے حق میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو یا آپکا دل دکھایا ہوں تو ہمیں دل سے معاف فرمائیں۔ اس بات پر والد محترم ہم سب بہن بھائیوں کو خوب دعائیں دینے لگے اور فرمایا کہ آپ کیلئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور آپ نے میرے حق میں کوئی کوتاہی نہیں بھرتی ہے۔ میری یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ظالم کے ظلم سے بچائیں اور آپ سب دین و قرآن کے کام سے اسی طرح مضبوط و مستقیم رہو۔ پھر تین دن بعد اچانک طبعیت بگڑ گئی اور ہم انہیں ہسپتال لے گئے۔ تو ڈاکٹروں نے سینے میں کافی انفکشن کی وجہ سے داخل کرنے کا مشورہ دیا تو ہم نے داخل کروادیا۔
دو دن تک علاج جاری رہا مگر اللہ کے تقدیر میں جو مقر ر ہ وقت لکھا تھا وہی پورا ہونا تھا۔ 5 اکتوبر 2021ء منگل کی صبح والد محترم کے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آنا شروع ہوا تو ہم بھائیوں نے سورۃ یٰسن کی تلاوت شروع کی اور کلمہ توحید کی تلقین کی الحمداللہ والد محترم کے زبان مبارک پر کلمہ توحید جاری ہوا اور اسی حالت میں ر وح پرواز کرگئی اور یوں سفر آخرت کی روانگی شروع ہوئی۔ الحمد للہ والد محترم کو اللہ تعالیٰ نے حسن خاتمہ نصیب کیا۔ علماء فرماتے ہیں کہ حسن خاتمہ کے چند علامات ہیں۔ جن میں زبان پر کلمہ توحید جاری ہونا، ماتھے پر ہلکا ٹھنڈا پسینہ آنا، بیماری میں فوت ہو جانا، دین کی پہرا داری میں موت آنا، نیک لوگوں کے زبان پر فوت شدہ کا ذکر خیر جاری ہونا۔ الحمداللہ یہ جملہ علامات والد محترم میں ہم نے خود دیکھے تھے۔ جنازے میں علماء طلباء اور صالحین کے جم غفیر نے شرکت کی۔
تعزیت کیلئے جید علماء کرام تشریف لے آئے تو ہر کوئی دل سے باباجان کو دعاء کرتے اور ہر چھوٹے بڑے، مرد و زن، علماء و عوام کے زبان پر یہی الفاظ تھے کہ باباجان قرآن کریم اور اللہ کے دن کے عظیم خادم بے ضرر انسان تھے۔ یہ بابا جان نہ ہمیں زندگی میں کہا تھا کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو لوگ کہے گے کہ مدرسہ کے باباجی وفات پاگئے ہیں۔ ان خاتمہ بالخیر کی وجہ سے دلی اطمینان ہوا ہے کہ ان شاء اللہ اللہ رب کریم نے باباجی کو بخش دیا ہوگا۔ اور ان کے وفات کے بعد مدرسہ کے طلباء و طالبات نے اب تک سینکڑوں ختم القرآن ان کے ایصال ثواب کے لئے کئے ہیں اور اب بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں۔ امین